اباضیہ
اسلام کے ایک اعتقادی مذہب اسلامی کی ایک شاخ جو ایک رہنما عبداللہ بن اباض سے منسوب ہے۔ عقیدہ تھا کہ غاصب اور ظالم حاکم کے خلاف جنگ و جدال میں اٹھ کھڑا ہونا مذہبی فریضہ ہے۔ لہذا وہ بنو امیہ کے خلاف بار بار اٹھتے رہے، یہاں تک کہ مسلسل جنگ و جدال نے خود انھیں صفحہ روزگار سے مٹا دیا۔ عبداللہ بن اباض نے تشدد کی بجائے رواداری برتی تھی۔ اس لیے اس کے پیروکار آج کے اس دور تک تھی اباضی فرقے کے ارکان کے طور بچ گئے۔ اباضی دوسری صدی ہجری میں شمالی افریقا کی طرف نکل گئے تھے۔ اباضی زیادہ تر الجزائر کے علاقہ میزاب اور عمان میں آباد ہیں۔
تاریخ
ترمیممشرقی افریقہ) کے دار السلطنت، دارالسلام میں مختلف شیعی گروہوں کے علاوہ خارجی فرقہٴ اباضیہ بھی اپنی ایک خاص شناخت اور طاقت رکھتا ہے، اس فرقے کی پرشِکُوہ مسجدیں کسی بھی زائر کو دعوت نظارہ دیتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ایشیائی مسلمان، اباضیہ کو بھی اہل السنت والجماعت میں شمار کرتے ہوئے بلاجھجک ان کی مسجدوں میں نماز پڑھتے ہیں۔
سُنی اسلام کی بنیادوں کو متزلزل کرنے اور مسلمانوں کو ابتداہی سے غیر معمولی نقصانات پہنچانے میں روافض کے ساتھ خوارج کا اہم کردار رہا ہے، یہ صحیح ہے کہ مرورِزمانہ کے ساتھ خوارج کی ساکھ کمزور ہوتی گئی اور وہ رفتہ رفتہ ناپید ہوتے گئے؛ تاہم بعض علاقے اب تک خارجی اثرات ومعتقدات کے زیراثر ہیں اورانھی خوارج کی باقیات میں سے فرقہٴ اباضیہ بھی ہے۔ مذہب اباضیہ کو عام طور سے عبد اللہ بن اباض تمیمی کی طرف منسوب کیاجاتاہے، جن کی وفات 80ھ میں ہوئی ہے؛ جبکہ علمی اور فکری اعتبار سے اس کا سرچشمہ ابوالشعثاء کو قرار دیا جاتا ہے۔ ابوالشعثاء جابر بن زید متوفی 93ھ محدث، فقیہہ اور ابن عباس کے شاگرد ہیں، دیگر مذاہب کی طرح اباضیہ کے پاس بھی مسائل کے استنباط کے خاص مناہج اور فقہی اصول وضوابط ہیں۔ فرقہٴ اباضیہ کو ”اہلِ دعوت، اہل استقامت اور جماعت المسلمین“ کے ناموں سے بھی جانا جاتا رہا ہے۔ [1]
خوارجِ اباضیہ کی مستند کتب اور علما
ترمیممشہور اباضی علما میں جنھیں مرجعیت حاصل رہی ہے۔ ابراہیم اَطّفش الجزائری اور ابراہیم بن عمر بیوض الجزائری ہیں۔ یہ دونوں اباضیت میں متشدد نہیں تھے، حتیٰ کہ آخرالذکر کے بارے میں بعض لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ مرنے سے پہلے انھوں نے اباضیت سے توبہ کرکے مالکی مسلک کو اختیار کرلیاتھا؛ اگرچہ اباضیین اس کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ اباضیین کے یہاں معتمد اور مستند کتابوں میں، عقیدہ میں نور الدین سالمی کی مشارق الانوار، اصول فقہ میں طلعة الشمس، فقہ میں محمداظفیش کی شرح النبیل وشفاء العلیل۔ سعدی کی قاموس الشریعة اوراحمد کندی کی المصنف جیسی کتابیں ہیں؛ جبکہ حدیث میں مسند الربیع بن حبیب کو اتنی زیادہ اہمیت دے رکھی ہے کہ وہ اسے اصح الکتب بعد کتاب اللہ کا مصداق اور صحیح بخاری وصحیح مسلم سے فائق قرار دیتے ہیں۔
عمان، اعتدال پسند خارجی فرقے، اباضیہ کا سب سے بڑا مرکز
ترمیماس وقت اباضیین کی بڑی تعداد الجزائر، تونس، لیبیا، مشرقی افریقہ اور سلطنت عمان وغیرہ میں آباد ہے۔ عمان کو ان کی مذہبی اور فکری سرگرمیوں کا مرکز قرار دیا جا سکتا ہے؛ کیوں کہ ایک اندازے کے مطابق وہاں کے پچھتّر فیصد باشندے اباضی ہیں۔ شیخ ابوزہرہ مصری فرماتے ہیں: یہ فرقہ خارجیوں میں معتدل اور فکر ورائے میں عام مسلمانوں سے زیادہ قریب، غلو اور انتہا پسندی سے الگ تھا، نیز وہ لکھتے ہیں: یہی وجہ ہے کہ عالمِ اسلام کے بعض اطراف میں یہ اب تک موجود ہیں۔“ [2] یاقوت حموی نے بھی اپنے دور کے باشندگان عمان کی اکثریت کو اباضی قرار دیا ہے، وہ کہتے ہیں:
”أکثر أہلہا في أیامنا خوارج اباضیة، لیس بہا من غیر ہذا المذہب الا طاری غریب، وہم لا یخفون ذٰلک“ [3]
ترجمہ: ہمارے زمانے میں عمان کے اکثر باشندے اباضی خوارج ہیں اور سوائے کسی اجنبی نووارد شخص کے اباضیہ کے علاوہ کو ماننے والا کوئی شخص نہیں ہے اور اباضیین اپنے عقائد کو چھپاتے بھی نہیں ہیں۔
عقائد میں اباضیہ کا اہل السنت والجماعت سے اختلاف
ترمیمچند اہم عقائد جن میں اباضیہ کا نقطئہ نظر اہل السنت والجماعت سے مختلف ہے، درج ذیل ہیں:
1- اباضیین صفاتِ الٰہی کا انکار کرتے ہیں،اور صفات کو عین ذات باری تعالیٰ قرار دیتے ہیں؛ جبکہ اہل السنت والجماعت، ذات باری تعالیٰ کے لیے صفات کو ثابت جانتے ہیں۔
2- آیات ربانیہ اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آخرت میں اہل ایمان کو اللہ پاک کا دیدار نصیب ہوگا؛ چنانچہ سورئہ یونس کی آیت کریمہ ”للذین أحسنوا الحسنٰی وزیادة“ (یونس:6) ”جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے واسطے خوبی ہے اور مزید برآں بھی“ میں زیادہ کی تفسیر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیدار الٰہی سے کی ہے؛ چنانچہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت پاک ”للذین أحسنوا کی تلاوت کرنے کے بعد فرمایا: جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں چلے جائیں گے تو ایک پکارنے والا پکارے گا، اے جنتیو! اللہ پاک نے تم سے ایک وعدہ کررکھا ہے، اللہ اپنے اس وعدے کو پورا کرنا چاہتا ہے، تو جنتی جواب دیں گے، وہ کیا ہے؟ کیا اللہ پاک ہمارے ترازو کو بھاری، ہمارے چہروں کو روشن اور ہمیں دوزخ سے دور کرکے جنت میں داخل نہیں کردیاہے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: اس کے بعد پردہ ہٹادیا جائے گا اور جنتی اللہ پاک کا دیدار کریں گے، تو خدا کی قسم اللہ کی عطا کردہ ساری نعمتوں میں اللہ کا دیدار سب سے پسندیدہ اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخشنے والا ہوگا“۔ یہ حدیث مسلم شریف، ترمذی شریف سمیت کئی کتب حدیث میں موجود ہے اور اس مضمون کی اور بھی متعدد روایات ہیں، لہٰذا قرآنی آیات اور احادیث وآثار کے پیش نظر اہل السنت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ آخرت میں اللہ پاک کا دیدار ہوگا؛ لیکن اباضیین اس کا انکار کرتے ہیں اورکہتے ہیں یہ ممکن ہی نہیں ہے۔
3- اباضیین، قرآن کریم کے مخلوق اور حادث ہونے کے قائل ہیں، جو معتزلہ کا مشہور عقیدہ ہے۔ اسی کے انکار کی وجہ سے معتزلہ کی ایماء پر عباسی خلفاء نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ پر کوڑے برسائے اور سخت اذیتیں دیں؛ لیکن حضرت امام کے پائے استقامت میں ذرا جنبش نہیں ہوئی اور وہ اہل السنت والجماعت کے اس عقیدے پر جمے رہے کہ قرآنِ مقدس مخلوق نہیں، جو حادث ہو، یہ اللہ پاک کا کلام ہے جو اس کی صفات میں سے ہے۔
4-اباضیین کا عقیدہ ہے کہ جو شخص گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرکے دنیا سے جائے گا؛ اگرچہ وہ کلمہ گو اور پابند نماز وغیرہ ہو، پھر بھی اسے ہمیشہ کے لیے جہنم میں جانا پڑے گا۔ اسے کبھی جنت نصیب نہیں ہوگی؛ جبکہ اہل السنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ مرتکب کبیرہ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا۔ اگر ایمان پر اس کا خاتمہ ہوا ہے تو اسے بھی اللہ پاک جنت کا داخلہ نصیب کریں گے یا تو اللہ پاک اس کا گناہ معاف کر دیں یا گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد اللہ پاک اس کے حق میں جنت کا فیصلہ فرمادیں؛ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”اہل توحید میں سے کچھ لوگوں کو جہنم میں عذاب دیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ اس میں کوئلہ بن جائیں گے، پھر اللہ کی رحمت متوجہ ہوگی، تو انھیں آگ سے نکال کر جنت کے دروازوں پر ڈال دیا جائے گا، تو جنتی ان پر پانی چھڑکیں گے جس کے نتیجے میں وہ اس طرح اگیں گے جس طرح سیلاب کے بہاؤ میں گھاس اگ جاتی ہے“۔
5- جنھوں نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے، اباضیین کے نزدیک وہ مستحق شفاعت نہیں ہیں، جبکہ اہل السنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ ان کے حق میں بھی شفاعت ہوگی۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لیخرجن قوم من امتی من النار بشفاعتي یُسمّون الجہنمیین“
ترجمہ: میری سفارش کی وجہ سے میری امت کے ایک گروہ کو جن کا لقب جہنمی پڑجائے گا، جہنم سے نکالا جائے گا۔
6- قرآن وحدیث میں آخرت کے متعلق کئی چیزوں کا تذکرہ ہے، مثلاً میزانِ عدل قائم کیا جائے گا، پل صراط سے گذرنا ہوگا؛ لیکن اباضیین اس طرح کی چیزوں میں تاویل کرتے ہیں اور احادیث میں ان چیزوں کی جو تفصیلات ہیں انھیں نہیں مانتے ہیں؛ جبکہ اہل السنت والجماعت اسی طرح ان کو مانتے ہیں جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے۔
7- اہل السنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ قرآنِ مقدس کے بعد روئے زمین پر سب سے صحیح کتاب بخاری شریف ہے،اس کے بعد مسلم شریف وغیرہ دیگر کتب احادیث کا مقام ہے؛ لیکن اباضیین اس تصور کو خارج کردیتے ہیں، ان کے نزدیک بخاری ومسلم سے بڑھ کر مسند ربیع بن صہیب ہے۔ قرآن مجید کے بعد سب سے اہم کتاب وہ اسی مسند کو قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح اباضیین نے بہت سے اجماعی مسائل کا بھی انکار کیا ہے۔[4]
چند متفقہ فقہی مسائل میں اباضیہ کا نظریہ
ترمیمجب اصول وعقائد میں اباضیہ کا نقطئہ نظر اہل السنت والجماعت کے نقطئہ نظر سے مختلف ہے، تو فروع وجزئیات فقہیہ میں اختلاف تو لابدی اور فطری ہے۔ ہم یہاں چند اہم مسائل درج کر رہے ہیں، جن میں اباضیین نے اہل السنت والجماعت کے اجتماعی موقف سے شذوذ کیاہے۔
1-شیعوں کی طرح اباضیین بھی اس بات کے قائل ہیں کہ خفین پر مسح کرنا جائز نہیں؛ حالاں کہ چمڑے کے موزے پر مسح کا جواز اہل السنت کا متفقہ مسئلہ ہے اورامام ابوحنیفہ نے خفین پر مسح کے جواز کو اہل السنت والجماعت کی علامتوں میں شمار کیا ہے۔
2- نماز کے آغاز میں تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھانے کے قائل نہیں اور پوری نماز ہاتھ چھوڑ کر ہی ادا کرتے ہیں۔
3- اگر رمضان میں حالت جنابت میں صبح ہوئی تواس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔
4- جو جزیہ نہیں دیتے، مثلاً موجودہ اہل کتاب، ان کا ذبیحہ حرام ہے۔
5- ورثہ کے علاوہ دیگر رشتہ داروں کے لیے وصیت واجب ہے۔
6- مکاتب، عقد کتابت کے وقت سے ہی آزاد ہے۔
اباضیین کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم
ترمیماباضیین کے پیچھے نماز پڑھنے کا بھی وہی حکم ہوگا،جو حکم خوارج کے پیچھے نماز پڑھنے کا ہے۔ یعنی اگرچہ اہل السنت والجماعت انھیں کافر نہیں قرار دیتے؛ لیکن ان کے عقائدِ فاسدہ اور اعمالِ شنیعہ کی وجہ سے ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے ضرور منع کرتے ہیں، عرب علما، چوں کہ اباضیین کے احوال سے زیادہ واقف ہیں؛اس لیے ہم اس سلسلے میں زیادہ تر انھیں کے فتاویٰ نقل کرتے ہیں۔
مشہور عرب عالم ابن جبرین فرماتے ہیں: ”ثم ہم مع ذٰلک یکفرون أہل السنت ویمنعون خلفنا، فلذٰلک یقول: لا یصلی خلف ہٰذہ الطائفة“ ترجمہ:اباضیین اپنے غلط افکار کے ساتھ اہل السنت کو کافر قرار دیتے ہیں اور ہمارے پیچھے نماز پڑھنے سے روکتے ہیں؛ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ اس فرقے کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جائے گی۔
شیخ محمد بن ابراہیم نے تو اباضیہ کے پیچھے نہ صرف نماز پڑھنے کو ناجائز قرار دیا ہے؛ بلکہ واضح طور پر کہا ہے کہ فرقہٴ اباضیہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کی گواہی بھی شرعاً معتبر نہیں ہوگی۔ [5]
سعودی عرب کے مفتیان کرام کی جماعت نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے کہ اباضیین کے پیچھے نماز درست نہیں ہوتی؛ کیوں کہ اباضیہ فرقہ ضالہ میں سے ہے۔ [6]
ان کے علاوہ شیخ سلمان العودة اور شیخ سلمان الغصن بھی اباضیہ کے پیچھے نماز درست نہیں قرار دیتے۔
حضرت مولانا مفتی رشیداحمد صاحب لدھیانوی نے بھی ایک سوال کے جواب میں تحریر کیا ہے: ”عبد اللہ بن اباض کی جانب منسوب جو فرقہٴ اباضیہ ہے اورجو خوارج ہی کی شاخ ہے، ان کے عقائد کتابوں میں ملتے ہیں، اگر یہ فرقہ بعینہ وہی ہے یا ان کے عقائد ان کے مطابق ہیں تو ان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی؛ اس لیے ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے“۔ [7]
مفتی شعیب اللہ خاں مفتاحی مدظلہ فرماتے ہیں:
”عمان کے اباضیہ دراصل خوارج ہیں؛ لہٰذا ان کے پیچھے نماز درست نہ ہوگی، اگرچہ یہ بہ نسبت دیگر فرق خوارج کے معتدل ہیں، تاہم جو بنیادی عقائد خوارج کے ہیں، ان میں یہ بھی شامل ہیں۔“ [8]
اہل السنت والجماعت کے تئیں اباضیہ کا سخت موقف
ترمیمیہاں اس امر کا بھی اظہار مناسب ہے کہ خوارج کی طرح، اباضیین بھی اپنے علاوہ اہل السنت والجماعت اور عامة المسلمین کے حوالے سے انتہا پسندانہ نظریات رکھتے ہیں۔ ان کی رائے میں ان کے علاوہ تمام مسلمان کافر ہیں۔ اورجنت میں وہی داخل ہوگا جو اباضی عقیدے پر مرا ہو۔ اباضیین کے علاوہ جتنے مسلمان ہیں سب کو ہمیشہ کے لیے جہنم میں جانا پڑے گا۔ چنانچہ مشہور اباضی عالم ابوبکر بن عبد اللہ الکندی نے لکھا ہے:
”ونحن نَشْہَدُ لمن مات من ہٰوٴلاء مصرا علی خلاف ما دانت بہا الاباضیة بالخزی والصغار والخلود فی النار“ [9] ترجمہ: اور ان مسلمانوں میں سے جو اباضیہ کے عقیدے سے ہٹ کر کسی اور عقیدے پر مرے ہم اس کے لیے رسوائی، ذلت اور ہمیشہ کے لیے جہنم کی شہادت دیتے ہیں۔
ایک اور اباضی عالم مہنا بن خلفان نے اباضیہ کے معتقدات وافکار ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے:
”وان مات علی خلافہ فلیس لہ فی الآخرة الا النار وبئس المصیر“ [10]
ترجمہ:اوراگر کوئی اس کے علاوہ کسی اور عقیدے پر مرے تو آخرت میں اس کے لیے صرف جہنم ہے اور جہنم بہت برا ٹھکانہ ہے۔
درج بالا تصریحات سے واضح ہے کہ فرقہٴ اباضیہ اپنے معتقدات دی وجہ سے اہل السنت والجماعت اور شیعہ کی مانند اسلام کا الگ اور مستقل فرقہ ہیں.