ابن طقطقی
صفی الدین بن علی بن محمد بن طباطبا المعروف بہ ابن طقطقی ساتویں صدی ہجری کے نامور عرب مؤرخ اور سیاسی مفکر تھے۔
| ||||
---|---|---|---|---|
(عربی میں: مُحمَّد بن علي بن مُحمَّد بن طباطبا العلوي) | ||||
معلومات شخصیت | ||||
پیدائش | سنہ 1262ء موصل |
|||
وفات | سنہ 1309ء (46–47 سال)[1] موصل |
|||
عملی زندگی | ||||
پیشہ | مورخ ، ماہرِ لسانیات ، مصنف | |||
مادری زبان | عربی | |||
پیشہ ورانہ زبان | عربی [1] | |||
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمابن طقطقی 660ھ / 1262ء کو پیدا ہوئے۔ وہ مشہور مؤرخ اور سیاسی مفکر تھے۔ انھوں نے سیاسیات پرشہرۂ آفاق کتاب الفخری تصنیف کی۔ آر اے نکلسن کے مطابق قرآن حکیم کے بعد سب سے بڑا ادبی شہ پارہ الفخری ہے۔ ابن طقطقی نے اپنی اس کتاب کا نام حاکم موصل فخر الدین عیسیٰ بن ابراہیم کے نام پر رکھا۔ اپنی تحریروں میں ابن طقطقی قرآن حکیم، احادیث اور آثار صحابہ سے جا بجا حوالے دیتا ہے۔ جا بجا برمحل اشعار بھی پیش کیے گئے ہیں۔ وہ اوغدائی خان (چنگیز خان کا بیٹا)، ایرانی بادشاہ اردشیر،سکندر اعظم، نوشیروان عادل کے عاقل وزیر بزرجمہر کے خیالات کا بھی معتعرف ہے۔[2]۔
فلسفہ و فکر
ترمیمابن طقطقی اپنی تحریروں میں اپنے ذاتی عقائد کو آڑے نہیں آنے دیتا۔ وہ کامل بادشاہ کو الملک الفاضل کے نام سے یاد کرتا ہے۔ وہ اس میں ایجابی اور سلبی اوصاف گنواتا ہے۔ ایجابی اوصاف میں عقل، عدل، علم، خوف الہٰی، عفو و درگزر، سخاوت، جاہ و جلال، تدبیر اور ایفائے عہد شامل ہین۔ جبکہ عجلت، غصہ، بے زاری اور نفرت کا نہ ہونا سلبی اوصاف ہیں۔ اس کے مطابق خلیفہ کو غیر محدود اختیارات نہیں دینے چاہیئیں۔ وہ اُس کے فرائض میں دار الحکومت کی حفاظت، سرحدوں کی نگہبانی، سرحدی چوکیوں کا قیام، راستوں کی حفاظت اور شر پسندوں کی بیخ کنی، شکرِ خداوندی، کمزوروں کی دستگیری اور حلم و بردباری گنواتا ہے۔ اُسے ان فرائض سے مذہبی جذبے کے ساتھ عہدہ برآ ہونا چاہیے۔ شہریوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اُس کی اطاعت کریں اور اُس کی غیبت نہ کریں۔[3] ابن طقطقی بادشاہ کو مختلف امورِ ریاست کی انجام دہی میں مشاورت کا پابند کرتا ہے۔ لیکن اسے کلیۃً مشیروں پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ اسے ریاست کے راز صیغۂ راز میں رکھنے چاہیئں۔ ابن طقطقی بادشاہ کو لہو ولعب سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ البتہ اسے سیر و شکار کی ترغیب دیتا ہے۔[3] ابن طقطقی نظم و نسق کی پانچ اقسام گنواتا ہے یعنی تدبیر منزل، دیہی نظام، شہری نظام، فوجی نظام اور ملکی نظام۔ وہ سزائے موت اور آگ میں ڈلوانے کا شدید مخالف ہے۔ وہ سزا کے ذریعے مجرم کی اصلاح کا خواہاں ہے۔[4]۔ ابن طقطقی کا خیال ہے کہ فوج دفاع کے ساتھ ساتھ مفسدین کی سرکوبی کے لیے بھی ضروری ہے۔ یہ سربراہِ ریاست کے جاہ و جلال میں اضافہ کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے خیال کے مطابق دشمن کے خلاف کارروائی صرف اس وقت کی جائے جب اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہو۔ فوجیوں کی تنخواہیں نہ تو بہت زیادہ ہوں نہ بہت کم۔[4] ابن طقطقی سفراء کے انتخاب میں بے حد احتیاط برتنے کی تاکید کرتا ہے۔ سفراء عاقل، دیانتدار اور خوش حال ہوں۔[4]
تصانیف
ترمیم- الفخری
وفات
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb14560317c — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ^ ا ب ص 33-34، اہم سیاسی مفکرین، محمد صدیق قریشی، مقتدرہ قومی زبان، پاکستان، 2002ء
- ^ ا ب ص 34، اہم سیاسی مفکرین، محمد صدیق قریشی، مقتدرہ قومی زبان، پاکستان، 2002ء
- ^ ا ب پ ص 35، اہم سیاسی مفکرین، محمد صدیق قریشی، مقتدرہ قومی زبان، پاکستان، 2002ء