اجماع (فقہی اصطلاح)
فقہ اسلام کی ایک اصطلاح اور اسلامی شریعت کا تیسرا اہم مآخد جس سے مراد علمائے امت کا یا ان کی بڑی اکثریت کا، ہر زمانے میں کسی مسئلہ پر متفق ہوجانا جس کے بارے میں قرآن و حدیث میں واضح حکم موجود ہو۔
اجماع کی لغوی معنى
ترمیمعربی کا لفظ اجماع، احسان کے وزن پر باب افعال کا مصدر ہے، لغت میں اس کے دو معانی ہیں :
- کسی چیز کا پختہ ارادہ کرلینا۔ یعنی جب کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرلیتا ہے تو محاورہ میں کہا جاتا ہے "اجمع فلاں علیٰ کذا"۔ اس معنى کے اعتبار سے ایک شخص کے عزم پر بھی اجماع کا اطلاق صحیح ہوگا۔ آیتِقرآنی : فَأَجمِعوا أَمرَكُم {10:71} میں یہی "معنى" مراد ہے۔
- کسی چیز پر ایک سے زائد لوگوں کا اتفاق کرلینا۔ چنانچہ جب قوم کسی بات پر متفق ہوجاتی ہے تو کہا جاتا ہے، "إجمع القوم على كذا"۔ اس معنى کی رو سے کسی بھی جماعت کے کسی بھی دینی آیا دنیوی امر (بات) پر اتفاق کو اجماع کہا جاتا ہے، حتیٰ کہ یہود و نصاریٰ کے اجماع کو بھی۔[1][2]
اجماع کی اصطلاحی معنى
ترمیماجماع کی سب سے زیادہ جامع و مانع تعریف حضرت ابن السبکی ؒ کی ہے :
” | ہو إتفاق المجتهدي الأمة بعد وفاة محمد صلى الله عليه وسلم في عصر على أي أمر كان۔
یعنی اجماع، امت (محمدیہ) کے مجتہدین کے اس اتفاق کا نام ہے جو حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی زمانہ میں کسی بھی امر (بات) پر ہوا ہو۔ [3] |
“ |
تعریف کی وضاحت
ترمیم«أمة» کی قید سے دوسری امتوں کا اجماع خارج ہو گیا۔ اور امت سے مراد : امت اجابت (جو اسلام لاچکے ہیں) ہے، امت دعوت (جن کو دعوت_اسلام دی جائے) نہیں ۔
«مجتہدین» کی قید سے مراد ماہر علما مراد ہیں، جنہیں فقہا بھی کہتے ہیں .
«بعد وفاة محمد صلى الله عليه وسلم» کی قید سے مراد اجماع کی ابتدا کے وقت کا بیان ہے۔ جو اجماع نبی کریمﷺ کے زمانے میں ہوا ہو، اس کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ وہ تو نزول وحی کا زمانہ تھا۔ جس سے قطعی حکم نازل ہوجاتا تھا۔
«في عصر» کی قید سے مراد نبوت کے زمانے کے بعد کسی بھی زمانے میں کیا ہوا اجماع قابل قبول ہوگا، چاہے وہ صحابہ کے زمانے میں ہوا ہو یا اس کے بعد والے کسی زمانے میں۔
«على أي أمر كان» کی قید سے مراد صرف امر عام ہے۔ یعنی دینی امر کے ساتھ ساتھ عقلی یا دنیوی علوم و فنون میں اس علم و فن کے ماہروں کا اتفاق بھی اجماع میں شمار ہوگا۔
اس لیے مسائل فقہ میں فقہا کا اجماع، مسائل نحو (عربی گرامر) میں نحوییں کا اجماع، مسائل اصول میں اصولیین کا اجماع اور مسائل کلام میں متکلمین کا اجماع معتبر ہوگا۔
حجیتِ اجماع قرآن مجید سے
ترمیمجمہور مسلمین اجماع کی حجیت کے قائل ہیں، اجماع کی حجیت کتاب وسنت سے ثابت ہے، ارشادِ باری تعالٰیٰ ہے :
- يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم ۖ فَإِن تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ۚ ذٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا {4:59}
اے ایمان والو! حکم مانو اللہ (تعالٰیٰ) کا اور حکم مانو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اور اولولاَمر کا جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اسے لوٹاؤ اللہ (تعالٰیٰ) اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف، اگر تم ایمان (ویقین) رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر، یہ بات اچھی ہے اور بہتر ہے اس کا انجام۔(سورہ-النساء:٥٩)
اس آیات میں ادلہ اربعہ (چاروں دلیلوں) کی طرف اشارہ ہے : اَطِيْعُوا اللّٰهَ سے مراد "قرآن" ہے، اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ سے مراد "سنّت" ہے اور اُولِي الْاَمْرِ سے مراد "علما و فقہا" ہیں، ان میں اگر اختلاف و تنازع نہ ہو بلکہ اتفاق ہوجاتے تو اسے "اجماع_فقہاء" کہتے ہیں .(یعنی اجماع_فقہاء کو بھی مانو). اور اگر ان اُولِي الْاَمْرِ(علما و فقہا) میں اختلاف ہو تو ہر ایک"مجتہد" کے اجتہاد و استنباط کو "قیاس_شرعی" کہتے ہیں .
- وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَاتَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَاتَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا"۔ (النساء:115)
ترجمہ:جو شخص رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی مخالفت کرے گا اس کے بعد کہ اس پر ہدایت واضح ہو چکی ہو اور اہلِ ایمان کے راستے کے علاوہ دوسرے راستہ کی پیروی کرے گا تو ہم اس کو اس طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھرگیا اور اسے جہنم میں داخل کریں گے۔
آیت بال میں باری تعالٰیٰ نے رسول (صلى الله عليه وسلم) کی مخالفت اور سبیل مؤمنین کے علاوہ دوسروں کے سبیل کی اتباع پر وعید بیان فرمائی ہے اور جس چیز پر وعید بیان کی جائے وہ حرام ہوتی ہے ؛ لہٰذا رسول کی مخالفت اور غیر سبیل مؤمنین کی اتباع دونوں حرام ہوں گی اور جب یہ دونوں حرام ہیں تو ان کی ضد یعنی رسول کی موافقت اور سبیل مؤمنین کی اتباع واجب ہوگی اور مؤمنین کی سبیل اور اختیار کردہ راستہ کا نام ہی اجماع ہے ؛ لہٰذا اجماع کی اتباع کا واجب ہونا ثابت ہو گیا اور جب اجماع کا اتباع واجب ہے تو اس کا حجت ہونا بھی ثابت ہو گیا، قاضی ابویعلیؒ (متوفی:458ھ) اور علامہ آمدی نے اس آیت سے اجماع کی حجیت کے ثبوت پر بڑی نفیس بحث کی ہے جو لائقِ مطالعہ ہے۔ (الاحکام آمدی:1/287۔ اصول الفقہ ابوزہرہ:161۔ ارشاد الفحول:113)
حجیت اجماع احادیث سے
ترمیمحدیث: "عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَايَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْقَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ"۔
(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ، كِتَاب الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر:2093)
ترجمہ:حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:اللہ تعالٰیٰ میری امت کو یا (راوی نے کہا) کہ محمد صلى الله عليه وسلم کی اُمت کو ضلالت وگمراہی پر مجتمع نہیں کریگا۔
نیز آپ (صلى الله عليه وسلم) کا فرمان ہے : "فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَعِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ وَمَارَأَوْا سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ"۔ (مسندِاحمد، حدیث نمبر3600)
ترجمہ:جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے اور جس چیز کو مسلمان بُرا سمجھیں وہ اللہ تعالٰیٰ کے نزدیک بھی بری ہے۔
ایک اور موقع سے آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: "مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْراً فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ"(مشکوٰۃ:31)
ترجمہ:جوشخص جماعت سے بالشت برابر جدا ہوا تواس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے الگ کردی۔
ایک جگہ ارشاد ہے : "مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةِ مَاتَ مَيْتَةً جَاهِلِيَّةً"۔ (مصنف عبد الرزاق، كتاب الصلاة، باب الأمراء يؤخرون الصلاة، حدیث نمبر:3779)
ترجمہ:جو جماعت سے الگ ہو جائے تواس کی موت جاہلیت کے طرز پر ہوگی۔
یہ تمام احادیث قدرے مشترک اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ امت اجتماعی طور پر خطا سے محفوظ ہے، یعنی پوری امت خطا اور ضلالت پر اتفاق کرے ایسا نہیں ہو سکتا ہے اور جب ایسا ہو تو اجماع امت کے ماننے اور اس کے حجتِ شرعی ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے۔