اشعری
اشعری مسلمانوں کا ایک فرقہ جس کی بنیاد ابوالحسن اشعری نے رکھی۔[1] چالیس سال کی عمر تک اپنے استاد شیخ علی الجبانی معتزلہ کا پیرو رہا مگر بعد میں مسئلہ خلق القرآن پر جو معتزلہ کا بنیادی عقیدہ تھا۔ اپنے استاد کے نظریات سے برگشتہ ہو گیا اور ایک نئے مسلک کی بنیاد ڈالی۔ اس فرقے کا اس دور کے دوسرے فرقوں کے برعکس خیال تھا کہ انسان کچھ مجبور ہے اور کچھ مختار۔ اور یہی مسلک عام مسلمانوں کا تھا۔ ان کے علاوہ دوسرے فرقوں میں معتزلہ انسان کو مختار کل مانتے تھے اور جبریہ مجبور محض۔
| ||||
---|---|---|---|---|
مذہب | الإسلام | |||
رہنما | ابو الحسن اشعری | |||
اشخاص | فخر الدين الرازي • الجويني • العز بن عبد السلام • البيهقي | |||
بانی | أبو الحسن الأشعري | |||
ارکان | إثبات عقيدة السلف بحجج كلامية استخدام العقل في توضيح النقل |
|||
ابتدا | أهل السنة والجماعة | |||
قریبی عقائد والے مذاہب | ماتريدية • صوفية • أثرية | |||
دنیا میں | شمال إفريقيا وسط وجنوب شرق آسيا مختلف مناطق العالم الإسلامي |
|||
درستی - ترمیم |
اس فرقے نے معتزلہ کی شدید مخالفت کی اور کوئی تین صد کتب لکھیں۔ جن میں سے آج بہت کم موجود ہیں۔ بہت سے مسلمان ان کے گرد جمع ہو گئے۔ خصوصا شافعیوں میں اس فرقے نے بڑی مقبولیت حاصل کی۔ امام غزالی اسی کے مقلدین میں سے تھے۔ ابو الحسن کو علم کلام کا بانی کہنا چاہیے۔ اس نے مقابل فرقوں کا چراغ گل کر دیا۔ بعد میں آنے والے علما نے اُسی کے اقوال کی تشریح کی ہے۔ حنبلیوں میں اُسے قبولیت حاصل نہ ہو سکی۔ غزالی کی تصانیف نے اس فرقے کو بڑی قبولیت بخشی۔[2]