انفلیشن ٹیکس inflation tax ایک ایسا عجیب وغریب ٹیکس ہے جو کوئی بھی ادا نہیں کرتا مگر یہ پھر بھی ادا ہو جاتا ہے اور حکومت اسے پورا پورا وصول کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ یہ ٹیکس stealth tax اور hidden tax کی ایک قسم ہے۔ جب حکومت نوٹ چھاپتی ہے تو حکومت کو تو مزید رقم خرچ کرنے کو مل جاتی ہے لیکن اس کا آخر کار نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک میں افراط زر کی وجہ سے اس کرنسی کی قوت خرید میں کمی آ جاتی ہے۔ اس طرح حکومت بغیر ٹیکس نافذ کیے یہ ٹیکس وصول کر لیتی ہے اور عوام کو نتیجہ مہنگائ کی صورت میں ملتا ہے۔

یہ کیسے کام کرتا ہے

ترمیم

اگر حکومت ایک سال میں اتنے نوٹ چھاپے کہ پہلے سے زیر گردش نوٹوں کی مالیت میں %20 اضافہ ہو جائے تو وہ چیز جو پچھلے سال 100 روپے کی تھی ہو وہ اس سال بازار میں 120 روپے کی ملے گی۔ یہ %20 ٹیکس ادا کرنے کے مترادف ہے۔
اگر کسی کی جیب میں ہزار روپے ہیں تو آج وہ ہزار روپے کی کوئی چیز خرید سکتا ہے مگر چند سال بعد اسی ہزار روپے میں محض وہ چیز خریدی جا سکے گی جو آج پانچ سو روپے کی ہے۔

اگر حکومت نوٹ چھاپنے کی بجائے یہ ٹیکس نافذ کر کے وصول کرنے کی کوشش کرے تو حکومت کی مقبولیت میں کمی آ جاتی ہے اور سرکاری اداروں کی کرپشن کی وجہ سے پورا ٹیکس وصول بھی نہیں ہو پاتا۔

یہ ٹیکس صرف Fiat currency پر ہی لاگو ہو سکتا ہے۔ چونکہ ہارڈ کرنسی Hard currency میں افراط زر inflation نہیں ہوتا اس لیے اس پر انفلیشن ٹیکس بھی نہیں لگ سکتا۔

کون زیادہ متاثر ہوتا ہے

ترمیم

سمجھا جاتا ہے کہ یہ ٹیکس ایک regressive tax ہے یعنی آمدنی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو غریبوں کو یہ ٹیکس زیادہ دینا پڑتا ہے اور امیروں کو کم۔
تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے کیونکہ اس کی آمدنی مستقل رہتی ہے۔

اسی طرح جس کے پاس زیادہ نقد رقم یا بانڈ ہوں گے وہ زیادہ متاثر ہو گا۔

جس نے کوئی رقم قرض دی ہوئی ہو گی وہ بھی نقصان میں رہے گا کیونکہ قرض کی واپسی پر مہنگائ کی وجہ سے اس کی رقم کی قوت خرید گر چکی ہو گی۔

کون فائدے میں رہتا ہے

ترمیم

قرض لینے والا فائدے میں رہتا ہے کیونکہ رقم کی قوت خرید گر جانے کی وجہ سے اب یہ رقم کم محنت کر کے کمائ جا سکتی ہے۔ چونکہ حکومت ہمیشہ مقروض ہوتی ہے اس لیے جب وہ نوٹ چھاپتی ہے تو نہ صرف براہ راست اس کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ پرانے قرضوں کا بوجھ بھی ہلکا ہو جاتا ہے۔

بینک میں رکھی رقم

ترمیم

بینک میں رکھی رقم پر چونکہ سود یا منافع ملتا رہتا ہے اس لیے یہ رقم افراط زر سے کم متاثر ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں حقیقی افراط زر سود یا منافع سے بھی زیادہ ہے سرمایہ لگانے والا نقصان میں ہی رہتا ہے۔ دس سال میں ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکٹ سے رقم کئی گنا ہو جاتی ہے مگر اب یہ اتنا سونا نہیں خرید سکتی جتنا دس سال پہلے خرید سکتی تھی کیونکہ دس سال میں سونا زیادہ مہنگا ہو جاتا ہے۔ یہ منفی شرح سود کا ثبوت ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

بیرونی ربط

ترمیم