محمد اقبال قاسم Mohammad Iqbal Qasim (پیدائش: 6 اگست 1953ء کراچی، سندھ) سابق پاکستانی کرکٹر ہیں[1] جنھوں نے 1975ء سے 1988ء تک 50 ٹیسٹ میچز اور 15 ایک بین الاقوامی ایک روزہ میچز کھیلے۔ اقبال قاسم بائیں ہاتھ کے بیٹسمین اور لیفٹ آرم سلو بولر تھے۔ انھوں نے پاکستان کے علاوہ کراچی' نیشنل بینک آف پاکستان اور سندھ کی طرف سے بھی کرکٹ مقابلوں میں حصہ لیا۔

اقبال قاسم ٹیسٹ کیپ نمبر75
ذاتی معلومات
پیدائش (1953-08-06) 6 اگست 1953 (عمر 71 برس)
کراچی، پاکستان
بلے بازیبائیں ہاتھ کا بلے باز
گیند بازیبائیں ہاتھ کا سلو گیند باز
بین الاقوامی کرکٹ
قومی ٹیم
پہلا ٹیسٹ (کیپ 75)24 دسمبر 1976  بمقابلہ  آسٹریلیا
آخری ٹیسٹ07 اکتوبر 1988  بمقابلہ  آسٹریلیا
پہلا ایک روزہ (کیپ 24)30 دسمبر 1977  بمقابلہ  انگلینڈ
آخری ایک روزہ29 اکتوبر 1988  بمقابلہ  بنگلہ دیش
کیریئر اعداد و شمار
مقابلہ ٹیسٹ ایک روزہ فرسٹ کلاس لسٹ اے
میچ 50 15 246 95
رنز بنائے 549 39 2432 329
بیٹنگ اوسط 13.07 6.50 14.47 10.61
100s/50s -/1 -/- -/3 -/-
ٹاپ اسکور 56 13 61 23
گیندیں کرائیں 13019 664 55387 4223
وکٹ 171 12 999 119
بالنگ اوسط 28.11 41.66 20.48 20.54
اننگز میں 5 وکٹ 8 68 2
میچ میں 10 وکٹ 2 n/a 14 n/a
بہترین بولنگ 7/49 3/13 9/80 6/25
کیچ/سٹمپ 42/- 3/- 172/- 27/-
ماخذ: [1]، 4 فروری 2006

ٹیسٹ کرکٹ کیرئیر

ترمیم

اقبال قاسم نے ٹیسٹ کیرئیر کا آغاز آسٹریلیا کے خلاف 77-1976ء میں ایڈیلیڈ کے مقام پر کیا تھا اور اپنے ٹیسٹ کیرئیر کا اختتام 88-1987ء میں آسٹریلیا کے خلاف ہی کیا تھا اولین ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں 56 رنز کے عوض کوئی وکٹ نہ لے سکے تھے مگر دوسری باری میں انھوں نے 76/4 کی کارکردگی دکھائی رک میک کوسکر اس کی پہلی وکٹ بنے جسے وکٹوں کے پیچھے وسیم باری نے کیچ کی صورت تھاما لیکن اس سے اگلا ٹیسٹ ان کی بہتریں گیند بازی کا مظہر ٹھہرا جب انھوں نے آسٹریلیا کے خلاف میلبورن کرکٹ گراونڈ پر ٹیسٹ میں 230 رنز کے عوض 7 کھلاڑیوں کو اپنا نشانہ بنایا تھا یہ ٹیسٹ آسٹریلیا نے 341 رنز سے جیت لیا تھا 517 رنز 8 کھلاڑیوں پر ڈیکلئیر اننگ میں گیری کوزیئر 168 اور گریگ چیپل 121 کی بڑی اننگز شامل تھیں اقبال قاسم 111/4 اور آصف اقبال 52/3 کے ساتھ نمایاں باولر تھے پاکستان نے جواب میں 333 رنز بنائے تھے جس میں صادق محمد کے 105 اور ظہیر عباس کے 90 رنز اہم تھے اقبال قاسم نے دوسری اننگ میں 119 رنز کے عوض 3 کھلاڑیوں کے لیے مشکلات پیدا کی تھیں سیریز کے آخری معرکے میں وہ وکٹ سے محروم رہے جبکہ ویسٹ انڈیز کے خلاف مارچ 1977ء سے شروع ہونے والی سیریز میں ہورٹ اف اسپینکے دو اولین ٹیسٹوں میں صرف 2 وکٹوں کے مالک بن گئے لیکن 78-1977ء میں انگلستان کے خلاف ہوم سیریز میں لاہور ٹیسٹ اس کی شاندار کارکردگی کا آئینہ دار ٹھہرا جب ایک ڈرا ٹیسٹ میں پاکستان نے 407/9 پر پاکستان نے اننگ ختم کر دی ہارون رشید 122،مدثر نذر 114 اور میانداد 71 اس میں نمایاں تھے جواب میں انگلش ٹیم 286 رنز بنا سکی جیف ملر محض دو رنز کی کمی سے سنچری سی محروم رہے۔ اقبال قاسم نے 32 اوورز میں 12 میڈن پھینک کر 57/3 کی کارکردگی پیش کی لیکن اگر سرفراز نواز 68/4 کے ساتھ گیند بازی سے شکار نہ کرتے تو شاید انگلش کھلاڑی اتنی جلدی ہمت نہ ہارتے۔ پاکستان نے دوسری اننگ میں ابھی 3 وکٹوں پر 106 رنز بنائے تھے کہ میچ کا وقت ختم۔ہو گیا حیدرآباد کے ٹیسٹ میں وہ کوئی وکٹ نہ لے سکے مگر کراچی کے تیسرے ٹیسٹ میں 107 رنز دے کر 5 وکٹ لینے میں کامیاب رہے۔1978ء میں دورہ انگلستان ان کے لیے کچھ بہتر نہ رہا کیونکہ وہ 3 ٹیسٹوں میں صرف 4 وکٹ لے سکے جس میں 101/3 کے ساتھ لارڈذ کے تاریخی میدان میں ان کی گیندیں بارآور ثابت ہوئیں 79-1978ء میں بھارت کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا مگر اس بار وہ 3 ٹیسٹوں میں دو ہی وکٹوں کے مالک بن سکے اس کے بعد پاکستان کے جوابی دورہ بھارت میں اقبال قاسم کی نمایاں کارکردگی ممبئی کے ٹیسٹ میں سامنے آئی۔ سیریز کے اولین ٹیسٹ بنگلور میں وہ 75 رنز کے عوض کوئی وکٹ نہ لے سکے تھے اور دلی کے دوسرے ٹیسٹ میں بھی ان کے ہاتھ صرف ایک وکٹ آئی مگر بمبئی کا تیسرا ٹیسٹ ان کے لیے ہوا کا خوشگوار جھونکا ثابت ہوا۔ بھارت نے پہلے کھیلتے ہوئے 334 رنز بنائے۔ کپل دیو 69، دلیپ ونگسارکر 58، وشواناتھ 47 اور سید کرمانی 41 رنز کے ساتھ نمایاں رہے۔ سکندر بخت 55/5 کے ساتھ اقبال قاسم نے 44 اوورز میں 15 میڈن کے ساتھ 135/4 کا کام دکھایا۔ انھوں نے دلیپ ونگسارکر، وشواناتھ، یشپال شرما اور راجر بنی کی وکٹیں سمیٹں۔ پاکستان کی ٹیم محض 173 رنز بنا سکی۔ عبد القادر 29 رنز کے ساتھ ٹاپ سکورر بنے۔ دلیپ دوشی، راجر بنی اور شیو لال یادیو 3,3 وکٹوں کے ساتھ پاکستانی بلے بازوں کے لیے مشکلات کھڑی کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ دوسری اننگ میں بھارت کا بھی حال ایسا ہی ہوا اور اس کے کھلاڑی 160 تک محدود رہے۔ سنیل گواسکر 48، ونگسارکر 45 نے ٹیم کو مکمل تباہی سے بچا لیا تھا۔ اس بار اقبال قاسم 40/6 کی بہترین کارکردگی دکھائی تھی۔ پاکستان کی پہلی اننگ میں کم سکور کرنے کی بنا پر جیتنے کے لیے 322 رنز کا ہدف ملا جو خاصا مشکل تھا۔ نتیجہ کے طور پر پوری ٹیم 190 رنز پر ہی ڈھیر ہو گئی۔ جاوید میانداد 64 رنز کے ساتھ کریز پر قیام کو طویل کر گئے لیکن ان کے علاوہ کوئی بھی کھلاڑی بھارتی بولنگ کے آگے نہ ٹھہر سکا۔ کرسن گھاوری اس بار 4 وکٹوں کے ساتھ بھارتی فتح کے معماروں میں شمار ہوئے۔ اقبال قاسم کانپور کے اگلے ٹیسٹ میں بغیر کسی وکٹ کے ہی باہر لوٹے لیکن چنئی اور کولکتہ کے آخری 2 ٹیسٹوں میں 3,3 وکٹوں کے مالک بن کر انھوں نے سیریز میں مجموعی طور پر 17 وکٹوں کے ساتھ اچھا اختتام کیا۔

1980-81ء کا ٹیسٹ سیزن

ترمیم

اس سیزن میں آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ کراچی کے پہلے ٹیسٹ میں پاکستان نے 7 وکٹوں سے فتح حاصل کرکے سیریز میں 0-1 کی برتری حاصل کرلی۔ کم ہیوز کے 85 کی بدولت آسٹریلیا کا سکور 225 تک پہنچ گیا۔ اقبال قاسم 69/4 اور توصیف احمد 64/4 نے آسٹریلیا کے لیے مشکلات کھڑی کر دیں۔ جواب میں پاکستان نے ماجد خان 89، تسلیم عارف 58 اور میانداد کے 40 رنز کی بدولت 292 رنز سکور کیے۔ رے رائٹ کی تعریف کرنا پڑے گی جس نے 87/7 کے ساتھ بولنگ میں بڑی ذمہ داری دکھائی۔ آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم دوسری اننگ میں بھی پاکستانی سپنرز کے غیظ و غضب کا شکار ہوئی جب اقبال قاسم 49/7 اور توصیف احمد 62/3 نے پوری ٹیم کو ہی پویلین بھجوانے کا کام بانٹ لیا تھا۔ اقبال قاسم نے 42 اوورز میں 22 ایسے اوورز کیے جن میں کوئی بھی رن نہ بن سکا۔ پاکستان کو جیتنے کے لیے محض 74 رنز بنانا تھا جو انھوں نے 3 وکٹوں پر بنا لیے تھے۔ 7 وکٹوں سے اس کامیابی نے سیریز میں پاکستان کو 1-0 کی برتری دلوا دی تھی لیکن فیصل آباد میں منعقدہ دوسرا ٹیسٹ اقبال قاسم سمیت تمام پاکستانی بولرز کے لیے ایک ڈرائونا خواب ثابت ہوا کیونکہ یہ ٹیسٹ خالصتاً بلے بازوں کا ٹیسٹ تھا۔ پہلے آسٹریلیا نے 617 کا بڑا مجموعہ بنایا جس میں کپتان گریگ چیپل کے 235، گراہم یلپ 172 اور وکٹ کیپر بیٹسمین روڈنی مارش 71 رنز کی بڑی اہم اننگ کے ساتھ اس سکور کو آسمان تک لے گئے تھے۔ وسیم راجا 100/3، توصیف 77/3 نے کسی نہ کسی طرح وکٹیں نکال ہی لی تھیں لیکن اقبال قاسم 156 رنز دے کر بھی کسی ایک کھلاڑی کی اننگ کا گلا نہ گھونٹ سکے۔ تسلیم عارف 210 اور جاوید میانداد 106 رنز کی مدد سے پاکستان نے ابھی 383 رنز ہی بنائے تھے کہ میچ کا وقت ختم ہو گیا۔ لاہور کے تیسرے ٹیسٹ میں اقبال قاسم نے ایک بار پھر بیٹسمینوں کے لیے معاون پچ پر اپنی سی کوشش کی۔ ایلن بارڈر کے 150، جولین وائنر 93 اور گریگ چیپل 56 کی معاونت سے 407 رنز 7 کھلاڑیوں کے نقصان پر آسٹریلیا نے اننگ کے خاتمے کا اعلان کیا۔ اقبال قاسم 90/4 اور عمران خان 86/2 بولنگ میں نمایاں تھے۔ پاکستان کی طرف سے ماجد خان نے 110 رنز بنائے۔ انھیں مدثر نذر 59 اور عظمت رانا 49 کی مدد حاصل تھی۔ اس طرح پاکستان نے بھی 420 رنز 9 کھلاڑیوں کے نقصان پر اننگ ڈکلیئر کردی۔ رے رائٹ نے سپن گیندوں نے پاکستان کے 5 کھلاڑیوں کو اپنے چنگل میں پھنسا لیا تھا مگر 172 رنز کا خسارہ ان کی اس کارکردگی کو دھندلا دینے کے مترادف تھا۔ شہرہ آفاق فاسٹ بولر ڈینس للی 114/3 کے ساتھ دوسرے نمایاں بولر تھے۔ دوسری اننگ میں آسٹریلیا 391/8 کے ساتھ میچ کو برابری پر لے گیا کیونکہ پاکستان کی دوسری اننگ میں باری ہی نہیں آئی تاہم اس میچ کی ایک خاص بات ایلن بارڈر کی دوسری اننگ میں بھی 153 عمدہ رنز کی بہترین کارکردگی تھی۔ یوں انھوں نے میچ کی دونوں اننگز میں تیسرے ہندسے تک رسائی حاصل کی۔

ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز

ترمیم

اس دورہ میں اقبال قاسم اپنی بولنگ کو بہت اعلیٰ درجے پر لے گئے۔ سیریز کے 4 ٹیسٹ میچوں میں انھوں نے 17 وکٹ لیے۔ فیصل آباد ٹیسٹ میں 143/8 ان کی بہترین بولنگ رہی۔ کراچی میں 48/4 اور ملتان میں 96/4 کے ساتھ بھی انھوں نے ویسٹ انڈیز کے بلے بازوں کو خاصا پریشان کیا تاہم بیٹنگ میں ان کی کارکردگی مایوس کن تھی۔ فیصل آباد ٹیسٹ بہت لو سکورنگ میچ تھا۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم 235 اور 242 رنز بنا سکی لیکن پاکستان کی ٹیم نے بہت زیادہ مایوس کن میچ کا اختتام کیا اور یہ ٹیسٹ 156 رنز سے ویسٹ انڈیز کی جھولی میں ڈال دیا۔

1981-82ء کا سیزن اور آگے

ترمیم

پاکستان کی ٹیم اس سیزن میں آسٹریلیا کے دورے پر تھی۔ پرتھ ٹیسٹ میں اقبال قاسم 87/3 کے ساتھ ٹیم کی مدد کو آئے لیکن میلبورن کے اگلے ٹیسٹ میں ان کی بولنگ مزید چمکدار ہو گئی جب انھوں نے 16 ناقابل شکست رنز بنانے کے ساتھ ساتھ پہلی اننگ میں 104/3 کی کارکردگی دکھائی پاکستان نے 8 وکٹوں کے نقصان پر 500 رنز کا سکور ڈکلیئر کر دیا۔ اس کے بعد عمران خان اور اقبال قاسم نے آسٹریلیا کو 293 رنز پر محدود کرکے فالوآن پر مجبور کیا۔ عمران خان کی اعلیٰ کارکردگی کے سبب پاکستان اس میچ میں ایک اننگ اور 82 رنز سے کامیاب قرار پایا۔ مدثر نذر 95، ظہیر عباس 90، ماجد خان 74، عمران خان 70 اور میانداد 62 کے ساتھ اننگ کو ایک اچھے مقام پر لے گئے تھے۔ بروس یارڈلے کو 187/7 کی بڑی مار پڑی۔ آسٹریلیا کی ٹیم گراہم ووڈ کی سنچری 100 کے باوجود 293 تک ہی محدود رہی۔ عمران خان بولنگ میں بھی 41/3 متاثر کر گئے۔ اقبال قاسم نے 104/3 کے ساتھ ان کی معاونت کے فرائض انجام دیے تھے۔ دوسری اننگ میں آسٹریلیا صرف 125 رنز بنا سکا۔اقبال قاسم 24 میں سے 11 اوورز میڈن کیے اور 44/4 کی کارکردگی کے ساتھ پاکستان کی فتح میں اہم کردار ادا کیا مگر اس ٹیسٹ میں سرفراز نواز ہی تھے جنھوں نے 15 اوورز میں 10 میڈن کے ساتھ صرف 11 رنز دے کر 3 آسٹریلوی کھلاڑی کریز سے ہٹائے۔ 1982ء میں سری لنکا کی ٹیم پاکستان کے دورہ پر آئی۔ کراچی میں اقبال قاسم نے 115/6، فیصل آباد ٹیسٹ میں 192/8، لاہور میں 22/1 جبکہ اس کے بعد آسٹریلیا کے خلاف کراچی اور فیصل آباد کے دو ٹیسٹوں میں 8 وکٹ حاصل کیے۔ انھوں نے کراچی ٹیسٹ میں 103/4 اور فیصل آباد میں 125/4 سے اپنی صلاحیتوں کا خوب اظہار کیا۔ 1983ء میں جب بھارت نے پاکستان کا دورہ کیا تو حیدرآباد اور لاہور کے دونوں ٹیسٹ ان کی صرف 3 وکٹوں تک رسائی کا ذریعہ بنے جبکہ بھارت کے دورے میں بنگلور کے واحد ٹیسٹ میں وہ 47 رنز کے عوض کوئی وکٹ نہ لے سکے تاہم 85-1984ء میں نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان میں توقعات کے عین مطابق چھا ہی گئے۔اس سیریز میں انھوں نے کل ملا کر 22 وکٹیں لیں۔ لاہور کے اولین ٹیسٹ میں انھوں نے پاکستان کی 6 وکٹوں سے فتح کا مزہ چکھا۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم 157 اور 241 رنز ہی سکور کرسکی۔ مدثر نذر 3/8 کے ساتھ موثر ثابت ہوئے تاہم اقبال قاسم نے 4/41 کی کارکردگی سے کیوی ٹیم کے لیے رنز بنانا مشکل بنا دیا۔ دوسری اننگز میں بھی 4/65 کے اعداد و شمار کے ساتھ اقبال قاسم نے نیوزی لینڈ کو مشکلات سے دوچار کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور اس میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔ حیدرآباد کے دوسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں عبد القادر 5/108 نمایاں تھے تاہم اقبال قاسم 1/80 کے ساتھ جدوجہد میں مصروف دکھائی دیے لیکن دوسری اننگ میں 5/78 کے ساتھ وہ کھیل میں واپس آئے اور پاکستان کی 7 وکٹوں سے کامیابی میں معاون ثابت ہوئے۔ کراچی کے ٹیسٹ میں 4/133 کے ساتھ یہ سیریز ان کی اچھی کارکردگی پر ختم ہوئی جبکہ جوابی دورے میں وہ نیوزی لینڈ کے خلاف صرف ولنگٹن ٹیسٹ میں ہی شامل ہو سکے جہاں انھوں نے 4 کھلاڑیوں کو اپنا نشانہ بنایا۔ 2 سال کے وقفے کے بعد 1987ء میں پاکستان کی ٹیم نے بھارت کا دورہ کیا۔ یہ وہ سیریز تھی جس میں پاکستان نے ایک یادگار ٹیسٹ بنگلور کے مقام پر جیتا۔ بھارت کے خلاف اس جیت کو پاک بھارت مقابلوں میں آج بھی ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے اور بلاشبہ اس جیت کے بعد پاکستان نے بھارت میں اپنے مداح پیدا کیے۔ جے پور کے پہلے ٹیسٹ میں اقبال قاسم 183/2 کے ساتھ 20رنز اور ایک کیچ بھی ٹیم کو دے گئے۔ اس کے بعد احمد آباد کے دوسرے ٹیسٹ میں انھیں صرف ایک وکٹ 63 رنز کے عوض ملی مگر فیلڈ میں 3 کھلاڑیوں کو کیچ کرکے سب کو متاثر کرگئے۔

بنگلور ٹیسٹ کا فتح گر

ترمیم

13 مارچ 1987ء کو بنگلور میں جب ٹیسٹ شروع ہوا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ بھارت کو ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد اس میچ میں شکست ہوگی خاص طور پر جب پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے بہت ہی غیر معیاری کھیل کا مظاہرہ کیا اور ساری ٹیم 49.2 اوورز میں 116 رنز پر ہی ڈھیر ہو گئی۔ سلیم ملک 33، رمیز راجا 22 اور اقبال قاسم 19 رنز کے ساتھ اننگ کے ٹاپ سکورر تھے۔ پاکستان کو اس حال میں پہنچانے والے منندر سنگھ تھے جنھوں نے صرف 27 رنز کے عوض 7 کھلاڑیوں کو پویلین بھجوایا۔ ان کے 18.2 اوورز میں سے 8 اوورز ایسے تھے جن میں کوئی رن نہ بن سکا۔ کپل دیو 2، روی شاستری نے ایک کھلاڑی کو آئوٹ کیا۔ بھارت کی ٹیم نے جب اننگ کا آغاز کیا تو ان کو بھی رنز بنانے میں مشکلات کا سامنا رہا۔ دلیپ ونگسارکر 50 رنز کے ساتھ ٹیم کی مدد نہ کرتے تو ان کا حشر بھی پاکستان جیسا ہوتا۔ سنیل گواسکر 21، کرشنا سری کانت 21 اور مہندر امرناتھ کے 13 رنز بھی سکور کو 145 تک لے جانے میں معاون بنے تھے۔ اقبال قاسم 48/5 اور توصیف احمد 54/5 کے ساتھ پوری ٹیم کو کریز سے ہٹانے میں اپنا اہم کردار ادا کرگئے تھے۔ پاکستان کی بیٹنگ دوسری اننگ میں کچھ سنبھلی اور انھوں نے 249 رنز بنائے۔ رمیز راجا 47، سلیم یوسف 41، عمران خان 39، سلیم ملک 33 اور اقبال قاسم نے 26 رنز کے ساتھ میچ میں ٹیم کو واپس لانے کا مرحلہ طے کیا۔ روی شاستری 4 ،منندر سنگھ 3 وکٹیں لے کر کامیاب رہے۔ اس طرح پاکستان نے بھارت کو جیتنے کے لیے 221 رنز کا ہدف دیا۔ پاکستان کو 15 رنز پر سری کانت اور مہندر امر ناتھ کی وکٹیں مل گئی تھیں جنہیں وسیم اکرم نے اپنے چنگل میں پھنسایا تھا تاہم پھر دلیپ ونگسارکر اور سنیل گواسکر کے درمیان 49 رنز کی پارٹنر شپ قائم ہوئی۔ 64 کے سکور پر دلیپ ونگسارکر اور 80 کے سکور پر کرن مورے ٹیم کا ساتھ چھوڑ گئے۔ محمد اظہر الدین 26، روی شاستری 4، کپتان کپل دیو 2 اور راجر بنی 15 کے ساتھ آئوٹ ہوکر انڈیا کے لیے مشکلات کا باعث بنے۔ دوسری طرف سنیل گواسکر کریز پر ڈٹے ہوئے تھے مگر دوسری طرف سے کھلاڑی آئوٹ ہوتے جا رہے تھے۔ لیکن جب بھارت کا سکور 180 ہوا تو سنیل گواسکر بھی 96 رنز کی باری کھیل کر اقبال قاسم کا شکار ہوئے جن کی گیند پر رضوان الزماں نے انھیں آئوٹ کرکے پاکستان کی فتح امید دلا دی۔ نویں آئوٹ ہونے والے کھلاڑی شیو لال یادیو تھے جو 4 رنز بنا سکے۔ اب سب امیدیں بھارت کی آخری جوڑی راجر بنی اور منندر سنگھ پر ٹک گئی تھیں کیونکہ بھارت کو جیتنے کے لیے صرف 26 رنز درکار تھے۔ میچ میں سنسنی پیدا ہو چکی تھی اور پاکستانی بولرز اپنی انتھک کوشش میں مصروف ہو گئے تھے۔ بالآخر توصیف کا دائو چل گیا اور اس نے راجر بنی کو 15 رنز پر وکٹوں کے پیچھے سلیم یوسف کے ہاتھوں کیچ کروا کے ایک تاریخی کامیابی کا دروازہ کھولا۔ توصیف احمد نے 45.5 اوورز میں 12 میڈن پھینک کر 85 رنز دیے۔ ان کی 4 وکٹیں بلاشبہ اس فتح کی ضامن تھی مگر اقبال قاسم 73/4 اور وسیم اکرم 19/2 کے ساتھ بھی تعریف کے قابل تھے جنھوں نے روایتی حریف بھارت کو اس شرمناک ہزیمت سے دوچار کیا۔

1987-88ء میں کرکٹ کا آخری سیزن

ترمیم

بھارت کے تاریخی دورے کی واپسی کے بعد انگلستان نے پاکستان کا دورہ کیا۔ 3 ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں اقبال قاسم کے حصہ میں 10 وکٹیں آئیں۔ لاہور ٹیسٹ میں 3 کھلاڑی آئوٹ کیے۔ سیریز کا دوسرا ٹیسٹ فیصل آباد میں تھا یہ ٹیسٹ انگلستان کے کپتان مائیک گیٹنگ اور پاکستانی امپائر شکور رانا کے درمیان تنازع کے حوالے سے بہت مشہور تھا۔ مائیک گیٹنگ اور امپائر شکور رانا کے درمیان ہونے والی بحث نے کرکٹ کے حلقوں کی توجہ حاصل کرلی تھی۔ فیصل آباد کے دوسرے ٹیسٹ میں انگلستان کی کرکٹ ٹیم 292 رنز بنا کر آئوٹ ہوئی۔ کرس براڈ 116 اور مائیک گیٹنگ 79 رنز کے ساتھ نمایاں سکورر رہے۔ پاکستان کی طرف سے اقبال قاسم نے 83/5، عبد القادر نے 105/4 اور توصیف احمد نے 62/1 کے ساتھ انگلش وکٹیں مشترکہ طور پر بانٹ لیں۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم 191 رنز پر ہی ڈھیر ہو گئی۔ سیم ملک 60، عبد القادر 38 اور اقبال قاسم 24 کے ساتھ نمایاں سکورر تھے۔ نیل فاسٹر 42/4، جان ایمبری 49/3 اور نک کک نے 37/2 کے ساتھ پاکستانی ٹیم کو مشکلات سے دوچار کیا۔ دوسری باری میں انگلستان نے 6 وکٹوں پر 137 رنز بنا کر اننگ ڈکلیئر کردی۔ پاکستان کو جیتنے کے لیے 239 رنز کا ہدف ملا۔ اقبال قاسم نے دوسری اننگز میں 2 انگلش کھلاڑیوں کو 29 رنز کے عوض اپنے چنگل میں پھنسایا لیکن یہ عبد القادر ہی تھے جنھوں نے 45 رنز کے عوض 3 وکٹیں حاصل کیں۔ پاکستان نے میچ کا وقت ختم ہونے پر ایک وکٹ پر 51 رنز بنائے تھے۔ کراچی کے تیسرے ٹیسٹ میں اقبال قاسم کوئی وکٹ حاصل نہ کرسکے۔

آخری ٹیسٹ سیریز

ترمیم

اس سیزن میں آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا تو یہ اقبال قاسم کی آخری ٹیسٹ سیریز تھی۔ کراچی میں وہ ایک بار پھر اپنی گیندوں کے ساتھ آسٹریلوی کھلاڑیوں کو حیران کرتے نظر آئے۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 9 وکٹوں پر 469 رنز کا بھاری سکور بنا کر اننگ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جاوید میانداد کی 221 رنز کی ڈبل سنچری اور شعیب محمد کے 94 رنز اس اننگ کی اہم باریاں تھیں۔ جاوید میانداد اور شعیب محمد کے درمیان تیسری وکٹ کے لیے 196 رنز کی شراکت تخلیق ہوئی۔ بروس ریڈ 109/4 اور ٹم مے 97/4 نے آسٹریلوی بولنگ کا بھرم رکھا۔ کینگروز اقبال قاسم 35/5 کی غچہ دیتی ہوئی گیندوں کا مقابلہ نہ کرسکے۔ عبد القادر 54/2 اور توصیف 28/1 نے بھی اپنی عمدہ بولنگ سے آسٹریلوی ٹیم کو 165 رنز تک محدود کر دیا۔ اقبال قاسم کے اعداد و شمار حیران کرنے والے تھے۔ انھوں نے 39 اوورز میں سے 24 میڈن کیے اور صرف 35 رنز کے عوض آدھی آسٹریلوی ٹیم کو فالو آن پر مجبور کر دیا۔ فالو آن کے بعد دوسری اننگ میں بھی آسٹریلوی کھلاڑی کوئی مختلف کھیل پیش کرنے سے قاصر رہے۔ آئن ہیلی 21، کپتان ایلن بارڈر 18، جیف مارش 17 اور گریم ووڈ 15 پر ہی ہمت ہار گئے اور آسٹریلوی ٹیم 116 رنز پر آئوٹ ہوکر ایک اننگ اور 188 رنز سے پاکستانی فتح کا موجب بنی۔ دوسری اننگ میں اقبال قاسم 49/4، عبد القادر 34/3 اور توصیف احمد 16/2 پاکستان کی فتح کے معمار بنے۔ فیصل آباد کے ٹیسٹ میں ایک اور لاہور کے آخری ٹیسٹ میں اقبال قاسم نے 2 کھلاڑیوں کو آئوٹ کرکے اس سیریز میں مجموعی طور پر 12 وکٹ لے کر اپنے ٹیسٹ کیریئر کا بہترین اختتام کیا۔اقبال قاسم نے اپنے 50 ٹیسٹ میچوں میں 171 وکٹوں کو سمیٹا یوں انھوں نے ایک میچ میں تقریباً 3.5 وکٹیں حاصل کیں۔ اس کی درست باؤلنگ نے اس کی اکانومی ریٹ کو کم 2.21 پر اختتام پزید کیا۔اقبال قاسم نے اپنے متاثر کن کیرئیر میں گیند کو معمول سے زیادہ تیزی سے آگے بڑھایا اس نے محض زبردست ٹرن نہیں نکالا بلکہ رفتار اور رفتار میں تغیرات کے ذریعے بھی بلے بازوں کو دھوکا دیا۔

ون ڈے کیریئر

ترمیم

اقبال قاسم نے پاکستان کی طرف سے انگلستان کے خلاف 1977-78ء کی سیریز میں ڈیبیو کیا تھا۔ ٹیسٹ میچوں میں اپنی گھومتی گیندوں پر بیٹسمینوں کو پریشان کرنے والے اقبال قاسم ایک روزہ بین الاقوامی مقابلوں میں کوئی متاثر کن کارکردگی دکھانے سے قاصر رہے۔ انگلستان کے خلاف مانچسٹر میں ان کے بنائے 13 رنز ان کے ون ڈے کیریئر کا نمایاں سکور ہے اور 1988ء میں چٹوگرام کے مقام پر بنگلہ دیش کے خلاف 3/13 ان کی بہترین ون ڈے پرفارمنس ہے۔ انھوں نے اپنے پہلے میچ میں انگلستان کے خلاف سیالکوٹ میں 16 رنز دے کر 2 کھلاڑیوں کو اپنا نشانہ بنایا۔ 29 اکتوبر 1988ء کو بنگلہ دیش کے خلاف چٹوگرام کا ایک روزہ میچ ان کے ون ڈے کیریئر کا آخری میچ تھا۔

کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد

ترمیم

وہ 2012ء میں پاکستان کے چیف سلیکٹر بنے۔

اعداد و شمار

ترمیم

اقبال قاسم نے 50 ٹیسٹوں کی 57 اننگ میں 15 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 549 رنز سکور کیے جس میں 56 ان کی کسی ایک اننگ کا بہترین سکور تھا اور انھیں 13.07 کی اوسط حاصل ہوئی۔ 15 ایک روزہ مقابلوں کی 7 اننگز میں ایک دفعہ ناٹ آئوٹ رہ کر انھوں نے 39 رنز بنائے جس میں 13 ان کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ اقبال قاسم نے 246 فرسٹ کلاس میچوں کی 231 اننگز میں 63 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 2432 رنز کا مجموعہ تخلیق کیا۔ 61 ان کا کسی بھی اننگ کا بہترین سکور تھا جس کے لیے انھیں 14.47 کی اوسط حاصل ہوئی۔ اقبال قاسم نے ٹیسٹ میں 42' ایک روزہ بین الاقوامی مقابلوں میں 3 اور فرسٹ کلاس میچوں میں 173 کیچز پکڑے۔ بولنگ کے شعبے میں جس کے وہ ماہر تھے انھوں نے 50 ٹیسٹ میچوں میں 4807 رنز دے کر 171 کھلاڑیوں کی اننگز کا خاتمہ کیا۔ 49/7 ان کی کسی ایک اننگ میں بہترین کارکردگی اور 118/11 ان کی کسی ایک میچ میں بہترین کارکردگی تھی۔ انھوں نے 13 دفعہ 4 وکٹ' 8 دفعہ 5 یا اس سے زیادہ وکٹ اور 2 دفعہ ٹیسٹ میں 10 یا اس سے زائد وکٹیں حاصل کیں۔ ایک روزہ مقابلوں میں انھوں نے 500 رنز دے کر 12 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ 3/13 ان کی بہترین بولنگ قرار پائی۔ جس کے لیے انھوں نے 41.66 کی اوسط کو ممکن بنایا۔ فرسٹ کلاس میچوں میں انھوں نے 20465 رنز دے کر 999 وکٹوں کو اپنے نام لیا۔ 80/9 ان کی کسی ایک اننگ میں بہترین بولنگ تھی۔ انھیں 20.48 کی اوسط حاصل ہوئی کیونکہ انھوں نے 68 دفعہ کسی ایک اننگ میں 5 یا اس سے زائد وکٹ حاصل کیے جبکہ 14 دفعہ ان کے حصے میں 10 یا اس سے زائد وکٹ آئے[2]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم