الیشبع (یونانی: Ἐλισάβετ یا الیشبع؛ ماخذ عبرانی: אֱלִישֶׁבַע / אֱלִישָׁבַע "خُدا حلف اٹھاتا ہے "؛ معیاری عبرانی: Elišévaʿ Elišávaʿ، طبری عبرانیʾĔlîšéḇaʿ ʾĔlîšāḇaʿ؛ عربی: أليصابات) لوقا کی انجیل کے مطابق زکریا کی بیوی اور یوحنا اصطباغی کی ماں تھیں۔

مقدسہ الیشبع
الیشبع (بائیں) مریم کو ملنے آئیں۔
راست باز
پیدائشپہلی صدی ق م
حبرون
وفاتپہلی صدی ق م (یا ابتدائی ق م)
(ممکنہ حبرون)
قداستپری-کانگریگریشن
تہوار5 نومبر (رومن کیتھولک، لوتھری)
5 ستمبر (مشرقی راسخ الاعتقاد، انگلیکان)
سرپرستیحاملہ خواتین

مسیحیت میں

ترمیم

الیشبع زکریا کاہن کی بیوی جو خود بھی ہارون کی اولاد میں سے تھی۔[1] یہ میاں بیوی بڑے خدا پرست اور عمر رسیدہ تھے لیکن اُن کے ہاں اولاد نہ تھی۔ ایک مرتبہ کہانت کا کام انجام دینے کے لیے زکرؔیا کے نام قرعہ نکلا تو مَقدِس میں فرشتے نے اُسے خبر دی کہ اُس کی بیوی کے بیٹا ہوگا اور اُس کا نام یوحنا رکھیں۔[2] اُس کے بعد فرشتے نے مُقدسہ مریم کو یسوع کی خبر دی[3] اور بتایا کہ اُن کی رشتہ دار الیشبع کے بھی بڑھاپے میں بیٹا ہوگا۔[4] اس پر مُقدسہ مریم پہاڑی علاقے کے یہوداہ کے ایک شہر گئیں۔ جب انھوں نے الیشبع کو سلام کیا تو اس کا بچہ پیٹ میں خوشی سے اُچھلا۔ اُس نے مریم سے کہا ”مجھ پر یہ فضّل کہاں سے ہوا کہ میرے خداوند کی ماں میرے پاس آئی“۔ اِس کے جواب میں مُقدسہ مریم نے ایک گیت میں خدا کی تمجید کی۔[5]

اسلام میں

ترمیم

ایشاع بنت فاقوذ جو یحیٰی کی والدہ ہیں اور زکریا کی زوجہ تھیں۔ بعض جگہ اشیع بھی نام مذکور ہے۔ زکریا کی بیوی ایشاع بنت فاقوذ ابن قبیل تھی۔ یہ حنہ بنت فاقوذ کی بہن تھی، یہ طبری کا قول ہے۔ حنہ یہ مریم کی والدہ ہے۔ قتبی نے کہا : اس قول کی بنا پر یحییٰ کی خالہ کے بیٹے ہوں گے اور دوسرے قول کی بنا پر عیسیٰ کی والدہ کی خالہ کے بیٹے ہوں گے اور حدیث اسراء میں محمد صل للہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فلقیت ابنی الخالۃ یحییٰ و عیسیٰ میں خالہ کے بیٹوں یحییٰ اور عیسیٰ سے ملا۔[6] ایشاع مریم کی خالہ تھیں اور اس کے پیش نظر مفسرین قرآن اور مورخین اسلام کی کثیرتعداد نے اور اصحاب سیر نے ایشاع زوجہ زکریا اور حنہ زوجہ عمران کی ہمشیرہ لکھا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ایشاع سیدہ مریم کی خالہ تھیں۔[7]

حوالہ جات

ترمیم
  1. لوقا 1:5
  2. لوقا 22–1:8
  3. لوقا 35–1:26
  4. لوقا 1:36
  5. لوقا 55–1:46
  6. تفسیر قرطبی۔ ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ابوبکر قرطبی، مریم، 5
  7. تفسیر عروۃ الوثقی