نماز کا وقت ہونا شرائط نماز میں سے ہے ہر نماز ایک وقت مقرر میں فرض کی گئی ہے۔

  • فجر کی نماز کا وقت فجر صادق کے طلوع سے شروع ہوتا ہے اور طلوع آفتاب تک رہتا ہے
  • ظہر کی نماز کا وقت سورج کے استواء اور نصف النہار سے زوال کے بعد شروع ہوتا ہے (اور دو مثل سایہ تک رہتا ہے) اور
  • عصر کا وقت دو مثل سائے کے بعد شروع ہوتا ہے اور غروب آفتاب تک رہتا ہے اور
  • مغرب کا وقت غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور سرخی کے بعد جو سفیدی ظاہر ہوتی ہے اس کے مکمل چھپنے تک رہتا ہے اور
  • عشاء کا وقت اس سفیدی کے چھپنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور فجر صادق کے طلوع تک رہتا ہے۔ [1]

'ایک نماز کے وقت میں دوسری نماز ادا کرنے کا عدم جواز'

چونکہ یہ اوقات، نمازوں کے لیے شرط ہیں اس لیے ہر نماز اپنے وقت میں ہوگی اور دوسری نماز کے وقت میں یا اپنا وقت آنے سے پہلے ادا نہیں ہوگی۔ ائمہ ثلاثہ یہ کہتے ہیں کہ سفر میں دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھا جا سکتا ہے۔ مثلا عصر کو ظہر کے وقت میں پڑھ لیاجائے یا عشاء کو مغرب کے وقت میں پڑھ لیا جائے‘ ہمارے نزدیک یہ جائز نہیں ہے کیونکہ دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنا اس آیت کے خلاف ہے‘ بعض احادیث صحیحہ میں حضرت عمر اور حضرت ابن عباس سے روایت ہیں کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو سفر میں جلدی ہوتی تو آپ ظہر اور عصر‘ یا مغرب اور عشاء جمع کرکے پڑھ لیتے۔[2][3] اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا بے شک نماز مسلمانوں پر وقتی تعیین کے ساتھ فرض ہے۔ یعنی جہاں تک ممکن ہو نماز کو اس کے وقت سے نہ ٹالا جائے کیونکہ نماز مسلمانوں پر فرض لازم ہے اور اس کا وقت معین ہے۔

مسئلہ : بالاتفاق ظہر کا وقت زوال کے بعد سے شروع ہو کر عصر تک رہتا ہے اور عصر کا وقت غروب آفتاب تک مگر سورج میں زردی آنے پر بالاجماع مکروہ تحریمی ہے۔ امام شافعی کے نزدیک جب ہر شے کا سایہ (اصلی سایہ کو چھوڑ کر) دو چند ہوجائے تو عصر کے لیے یہ وقت سب سے اعلیٰ ہے مغرب کا وقت غروب آفتاب کے بعد اور عشاء کا وقت غروب شفق کے بعد سے شروع ہو کر فجر چمکنے تک رہتا ہے لیکن بالاجماع آدھی رات سے زیادہ تاخیر نہ کرنا مستحب ہے۔ فجر کا وقت صبح کی پَو پھیلنے سے طلوع آفتاب تک ہے۔ ظہر اور مغرب کا آخر وقت کہاں تک ہے اس میں ائمہ کا اختلاف ہے جمہور کے نزدیک ظہر کا وقت اس وقت تک رہتا ہے جب ہر چیز کا سایۂ زوال کو چھوڑ کر ایک مثل ہوجائے اور مغرب کا وقت غروب شفق تک رہتا ہے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک ہر چیز کا سایہ دو مثل ہونے تک ظہر کا وقت رہتا ہے۔ امام مالک اور شافعی کے ایک قول میں مغرب کی نماز غروب آفتاب کے بعد فوراً پڑھ لی جائے تاخیر نہ کی جائے۔ اوقات کی تعیین میں اصل ضابطہ وہ ہے جو حضرت ابن عباس کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کعبہ کے پاس دو بار جبرئیل (علیہ السلام) نے میری امامت کی۔ پہلی بار ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جب سایہ تسمہ کی طرح تھا پھر عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب ہر چیز اپنے سایہ کی مثل ہو گئی تھی (یعنی سایۂ اصلی کو چھوڑ کر ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہو چکا تھا) پھر مغرب کی نماز اس وقت پڑھائی جب سورج ڈوب چکتا ہے اور روزہ دار روزہ کھولتا ہے پھر عشاء کی نماز اس وقت پڑھائی جب شفق غائب ہو چکی تھی۔ پھر فجر کی نماز اس وقت پڑھائی جب روشنی کی پو پھٹتی ہے اور روزہ رکھنے والے کے لیے کھانا ممنوع ہوجاتا ہے۔

پھر دوبارہ ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جس وقت گذشتہ دن کے عصر کے وقت کی طرح ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہو گیا تھا اور عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ دو مثل ہو گیا تھا پھر مغرب اوّل وقت کی طرح پڑھائی اور عشا ایک تہائی رات گئے پڑھائی پھر فجر کی نماز اس وقت پڑھائی جب زمین زرد ہو گئی تھی۔ پھر میری طرف رخ کر کے جبرئیل ( علیہ السلام) نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) آپ سے پہلے انبیا کا یہی وقت ہے اور ان دونوں (وقتوں) کے درمیان نماز کا وقت ہے۔ رواہ ابو داؤد و ابن حبان فی صحیحہ۔[4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. موطا امام مالک‘ رقم الحدیث : 3،6،9
  2. صحیح بخاری رقم الحدیث : 1106،1107
  3. تفسیر تبیان القرآن ،غلام رسول سعیدی
  4. تفسیر مظہری،قاضی ثناء اللہ پانی پتی،سورہ النساء،آیت103