بدعت (اسلام)
ابوبکر صدیقبریلوی مکتب فکربریلوی مکتب فکربریلوی مکتب فکربریلوی مکتب فکربریلوی مکتب فکر
اس مضمون میں ممکنہ طور پر اصل تحقیق پیش کی گئی ہے۔ (جانیں کہ اس سانچہ پیغام کو کیسے اور کب ختم کیا جائے) |
بدعت بنیادی طور پر عربی لفظ "بدعة" سے ماخوذ ہے جو "بَدَعَ" سے مشتق ہے جس کے معنی وجود میں لانا یا وقوع پزیر ہونا کے ہیں۔ کسی شے کے عدم سے وجود میں آنے کو بدعت کہتے ہیں۔ اس طرح بدعت کرنے والے فاعل کو مبتدع یا بدعتی اور عربی میں "بَدِيع" کہا جاتا ہے۔ لغوی اصطلاح میں بدعت کسی مفعول کے عدم سے وجود میں آنے اور مبتدع اُسے وجود میں لانے والے فاعل کے لیے استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ [1]
ترجمہ: (وہی اللہ) موجد (نیا پیدا کرنے والا) ہے آسمانوں اور زمین کااس آیتِ میں اللہ نے آسمانوں اور زمین کے وجود میں آنے کا بیان کرتے ہوئے اپنی ذات کو آسمانوں اور زمین کا بدیع یعنی مبدع (وجود میں لانے والا) کہا۔ اسی وجہ سے اللہ کا ایک صفاتی نام "البَدِيع" یعنی مبتدع(وجود میں لانے والا) بھی ہے۔ شرعی اصطلاح میں بدعت کا حکم ہر اُس فعل یا مفعول کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کا وجود قرآن و سنت کی نص سے ثابت نہ ہو اور وہ مابعد قرآن و سنت ظاہر ہو۔
علما نے بدعت کی مختلف تعریفات کی ہیں جن میں ابن تیمیہ، علامہ سیوطی اور شاطبی اور دیگر کئی علما وفقہا ہیں۔ ابو اسحاق شاطبی لکھتے ہیں: البدعة اذن طريقة فى الدين مخترعة تضاهي الشريعة يقصد بالسلوك عليها المبالغة فى التعبد لله سبحانه ”بدعت ایک ایسا راستہ ہے جسے دین میں ایجاد کر لیا گیا ہو اور شریعت کے مخالف ہو اور اس پر چلنے کا مقصد زیادہ عبارت ہو۔“ [2]
بدعت کے بارے میں موقف
بدعت کے بارے میں مسلمانوں کے مختلف مکاتبِ فکر مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں بعض اسے معتدل انداز میں لیتے ہیں اور کچھ اسے یکسر مسترد کرتے ہیں۔ ذیل میں مختلف مکاتبِ فکر کا موقف پیشِ نظر ہے۔
بریلوی موقف
بریلوی بدعت کے لغوی معنی ہیں نئی چیزاصطلاح شریعت میں بدعت کہتے ہیں دین میں نیا کام جو ثواب کے لیے ایجاد کیا جائے اگر یہ کام خلاف دین ہو تو حرام ہے اور اگر اس کے خلاف نہ ہو تودرست یہ دونوں معنی قرآن شریف میں استعمال ہوئے ہیں۔
- بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضِ ؕ
وہ اللہ آسمانوں اور زمین کا ایجاد فرمانے والا ہے ۔[3]
- قُلْ مَا کُنۡتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ
فرمادو کہ میں انوکھا رسول نہیں ہوں۔ [4]
ان دونوں آیتو ں میں بدعت لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی انوکھا نیا رب تعالیٰ فرماتا ہے :
وَ جَعَلْنَا فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ رَاۡفَۃً وَّ رَحْمَۃً ؕ وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابْتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبْنٰہَا عَلَیۡہِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللہِ فَمَا رَعَوْہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ۚ فَاٰتَیۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنْہُمْ اَجْرَہُمْ ۚ وَکَثِیۡرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوۡنَ ﴿27﴾
اور عیسیٰ علیہ السلام کے پیروؤں کے دل میں ہم نے نرمی اور رحمت رکھی اور ترک دنیا یہ بات جو انھوں نے دین میں اپنی طر ف سے نکالی۔ ہم نے ان پر مقرر نہ کی تھی ہاں یہ بدعت انھوں نے اللہ کی رضا چاہنے کو پیدا کی پھر اسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا تو ان کے مومنوں کو ہم نے ان کا ثواب عطا کیا اور ان میں سے بہت سے فاسق ہیں۔ [5]
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسیحیوں نے رہبانیت اور تارک الدنیا ہونا اپنی طر ف سے ایجاد کیا۔ رب تعالیٰ نے ان کو اس کا حکم نہ دیا۔ بد عت حسنہ کے طور پر انھوں نے یہ عبادت ایجاد کی اللہ تعالیٰ نے انھیں اس بدعت کا ثواب دیا مگر جو اسے نباہ نہ سکے یا جو ایمان سے پھر گئے وہ عذاب کے مستحق ہو گئے معلوم ہوا کہ دین میں نئی بدعتیں ایجاد کرنا جو دین کے خلاف نہ ہوں ثواب کا با عث ہیں مگر انھیں ہمیشہ کرنا چاہیے جیسے چھ کلمے، نماز میں زبان سے نیت، قرآن کے رکوع وغیرہ، علم حدیث، محفل میلا د شریف، اور ختم بزرگان کہ یہ دینی چیزیں اگر چہ حضور صلی ا للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے بعد ایجاد ہوئیں مگر چونکہ دین کے خلاف نہیں اور ان سے دینی فائدہ ہے لہٰذا باعث ثواب ہیں جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ جو اسلام میں اچھا طریقہ ایجاد کرے اسے بہت ثواب ہوگا۔ بریلوی مکتب فکر کے نقطہ نظر کے مطابق بدعت کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں ایک بدعتِ حسنہ یعنی احسن بدعت اور دوسری بدعتِ سیئۃ یعنی بری بدعت جیسا کہ ذیل کی حدیث نبوی میں بیان کیا گيا ہے۔
” | مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَلَهُ أَجْرُهَا، وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ، وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً، كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ، رواہ جامع صحیح مسلم[6]
ترجمہ : جو آدمی اسلام میں کوئی اچھا کام جاری کرے پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا جائے تو جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان کے اجر کی مثل اس (جاری کرنے والے) کے لیے بھی لکھا جائے گا اور خود ان عمل کرنے والوں کے اجر میں سے کچھ کم نہ ہوگا۔ اور جو کوئی اسلام میں کوئی برا کام جاری کرے پھر اس کے بعد لوگ اپنے عمل میں لائیں تو ان سب کو جو گناہ ہوگا وہ اس (جاری کرنے والے) کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا، جبکہ عمل کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی۔ |
“ |
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے دین میں کوئی نیا اچھا عمل جاری کرنا جو شریعت کے بنیادی اصولوں کے مخالف نہ ہو نہ صرف جائز بلکہ مستحب عمل ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رمضان المبارک میں باجماعت نمازِ تراویح شروع کرنے کے اپنے عمل کو از خود ( قَالَ عُمَرُ نِعْمَ الْبِدْعَۃُ ھَذِھِ۔ یہ اچھی بدعت ہے، بخاری[7]) فرماکر نبیِ کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی حدیثِ مبارکہ کی عملی تشریح کی۔
اسی طرح بہت سے ایسے افعال جو محمد بن عبد اللہ کی زندگی میں اس طرح سے نہیں تھے اور ان کے صحابہ کرام یا اَن کے بعد امتِ مسلمہ میں مروج ہوئے جیسے قرآنِ مجید کو خلیفہ اول ابو بکر صدیق کے دور خلافت میں کتابی شکل میں جمع کرنا یا بعد ازاں حجاج بن یوسف کے دور میں قرآنِ پاک پر اعراب لگانا، فقہ، نحو، عید میلاد النبی، درود و سلام، ایمانِ مفصل و ایمانِ مجمل، چھ کلمے، مساجد میں مینار گنبد و محراب، تصوف و طریقت و معرفت، ایصال ٹواب کے مروجہ طریقے، عرس اور گیارہویں شریف وغیرہ ایسے افعال ہیں جو امت میں مروج ہوئے اور کسی شرعی حکم سے ٹکراؤ اور مخالفت نہ رکھنے کے باعث یہ افعال حدیثِ نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی روشنی میں بدعتِ حسنہ کے ضِمن میں آتے ہیں۔
اسی طرح جو افعال شریعت سے ٹکراو رکھتے ہیں وہ بدعتِ سیئۃ یعنی بری بدعت کے زمرے میں آتے ہیں اور شرعی لحاظ سے ممنوع ہیں۔
اہل حدیث موقف
بدعت کے بارے میں اہل حدیث مکتب فکر کا موقف بدعت کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور اسے صرف جہنم میں لے جانے والا عمل گردانا جاتا ہے۔
اہل حدیث بدعات کے رد میں درج ذیل دلائل پیش کرتے ہیں :
- جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دیتے تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے جیسے کہ اس کا حق ہے۔ پھر فرماتے جیسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں۔ یقین رکھو سب سے سچی کتاب اللہ کی کتاب اور سب سے بہتر طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ ہے۔ سب سے بری چیز (دین میں) نئی چیز پیدا کرنا ہے اور ہر نئی چیز بدعت ہے ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہیی جہنم میں لے جائے گی۔ [8]
- عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واياكم ومحدثات الأمور فان كل محدثة بدعة ”اور تم نئی ایجاد شدہ چیزوں سے بچنا اس لئے کہ ہر ایجاد شدہ چیز بدعت ہے۔[9]
- اور جابر بن عبد اللہ کی روایت میں ہے: وشر الأمور محدثاتها وكل محدثة بدعة ”اور سب سے بری چیز نئی ایجاد شدہ چیزیں ہیں اور ہر نئی ایجاد شدہ چیز (جو دین میں ہو) بدعت ہے۔[10]
- ایک اور روایت میں پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لكل عمل شرة ولكل شرة فترة فمن كانت فترته الى سنتي فقد اهتدى ومن كانت فترته الى غير ذلك هلك کہ ہر عمل کے لئے برائی ہے اور ہر برائی کے لیے کچھ وقت ہے تو جس کا وقت سنت کی طرف ہو تو وہ ہدایت یافتہ ہے اور جس کا اس کے علاوہ ہو تو وہ ہلاک ہے۔[11]
- ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان الله صحبا التوبة عن كل صاحب بدعة حتى يدع بدعته کہ اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب بدعت کی توبہ کو قبول کرنے سے روک دیا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی بدعت کو چھوڑ دے۔[12]
دیوبندی مکتب فکر
مفتی کفایت اللہ (متوفی 1372ھ) لکھتے ہیں :
بدعت ان چیزوں کو کہتے ہیں جن کی اصل شریعت سے ثابت نہ ہو، یعنی قرآن مجید اور احادیث شریفہ میں اس کا ثبوت نہ ملے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم، صحابہ کرم رض، تابعین اور تبع تابعین کی زمانہ میں ان کا وجود نہ ہو اور اسے دین (ثواب) کا کام سمجھ کر کیا جائے۔[13]
- جس فعل شرعی کا سبب اور محرک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود ہو اور کوئی مانع بھی نہ ہو اس کے باوجود نہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو نہ صحابہٴ کرام کو اس کے کرنے کا حکم دیا ہو۔ اور نہ ترغیب دی ہو، دین سمجھ کر ایسا کام کرنا بدعت ہے، جیسے مروجہ میلاد کا سبب (حضور کے زمانہ میں) موجود تھا۔ اور صحابہٴ کرام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گہرا عشق اور عقیدت و محبت تھی اس کے باوجود کسی نے آپ کا یوم ولادت منایا نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا۔
- شریعت نے جو چیز مطلق رکھی ہے اس میں اپنی طرف سے قیودات لگانا بدعت ہے، جیسا کہ زیارت کے لیے وقت مقرر کرنا، ایصالِ ثواب کے لیے وقت متعین کرنا، مثلاً سیوم(تیجا)، چہلم(چالیسواں)۔
- جو کام بذاتِ خود مستحب و مندوب ہے، مگر اس کا ایسا التزام کرنا کہ رفتہ رفتہ اس کو ضروری سمجھا جانے لگے اور اس کے تارک کی ملامت کی جانے لگے تو وہ کام مستحب کی بجائے بدعت بن جاتا ہے۔ مثلاً نماز جمعہ، پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری رکعت میں ہل اتاک حدیث الغاشیة پڑھنا مسنون ہے، مگر اس کا التزام کرنا کہ لوگ اس کو ضروری سمجھنے لگیں، بدعت ہے۔
- جو کام فی نفسہ جائز ہے اگر اس کو کرنے میں کفار و فجار اور گمراہ لوگوں کی مشابہت لازم ہو تو اس کا کرنا ناجائز ہے، اس قاعدہ سے معلوم کہ تمام وہ اعمال جو اہل بدعت کا شعار بن جائیں، اس کا ترک لازم ہے۔ ان سب کی مزید و مدلل تفصیل کے لیے (الاعتصام للعلامة الشاطبی) کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
بدعت سب ہی مذموم اور قابل ترک ہیں جو کسی نے اسے حسنہ سے تعبیر کر دیا تو اس سے لغوی معنی مراد ہیں۔
باقی بدعت حسنہ کو سنّت حسنہ (اچھا طریقہ) کی حدیث سے ثابت کرنا اس لیے صحیح نہیں کہ اس سنّت حسنہ (اچھا طریقہ) سے مراد دوسری حدیث سے سنت ہی ثابت ہے، جو (عملاً) مردہ ہو چکی تھی، اس (اچھے طریقہ) کو جاری (زندہ) کرنا ہے، نہ کی کوئی نیا طریقہ جاری کرنا مراد ہے :
کثیر بن عبد اللہ اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال بن حارث سے فرمایا کہ جان لو۔ انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا جان لوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ کہ جس نے میرے بعد کوئی ایسی سنت زندہ کی جو مردہ ہو چکی تھی تو اس کے لیے اتنا ہی اجر ہوگا جتنا اس پر عمل کرنے والے کے لیے۔ اس کے باوجود ان کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور جس نے گمراہانہ بدعت نکالی جسے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پسند نہیں کرتے تو اس پر اتنا ہی گناہ ہے جتنا اس برائی کا ارتکاب کرنے والوں پر ہے اور اس سے ان کے گناہوں کے بوجھ میں بالکل کمی نہیں آئے گی۔ یہ حدیث حسن ہے اور محمد بن عیینہ مصیصی شامی ہیں جبکہ کثیر بن عبد اللہ، عمرو بن عوف مزنی کے بیٹے ہیں۔ [14][15]
چند مشہور اور رائج عام بدعتیں
- ایمانِ مفصل و ایمانِ مجمل، چھ کلمے وغیرہ بعد کے ادوار کے بزرگان دین نے مرتب کیے اور آج بھی تعلیمات دین کا بنیادی جزو ہیں۔
- کچھ مکتب فکر کے نزدیک عید میلاد النبی، درود و سلام اور محافل نعت بدعتیں سمجھی جاتی ہیں جو باقاعدہ طور پر بعد ازاں جاری کی گئیں امت مسلمہ کے دلوں میں جذبہ محبت و عشق رسول موجزن رکھنے میں معاون ثابت ہوئیں۔
- مساجد میں محراب، گنبد اور محراب وغیرہ کا آغاز پہلی دفعہ فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں ہوا۔ یہ بدعت بھی تمام اسلامی ممالک میں آج تک مستعمل ہے۔
- کچھ مکتب فکر کے نزدیک 22 رجب نیاز امام جعفر صادق ایک بدعت سمجھی جاتی ہے۔
حوالہ جات
- ↑ القرآن، الانعام، 6 : 10
- ↑ الاعتصام للشاطبي 36/1-37
- ↑ (پ1،البقرۃ:117)
- ↑ (پ26،الاحقاف:9)
- ↑ (پ27،الحدید:27)
- ↑ (صحیح مسلم از امام مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ، باب الحث علي الصدقہ)
- ↑ (صحیح بخاری از امام بخاری۔ کتاب صلاۃ تراویح، بابُ فَضلِ مَن قامَ رَمَضَانَ)
- ↑ سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1583 (21514)، عیدین سے متعلقہ احادیث کی کتاب : خطبہ کیسے پڑھا جائے؟
- ↑ ابوداود 4607، ترمذي 2 297
- ↑ مسلم: 53/2 انووي
- ↑ صحيح الترغيب 52 باسناد حسن، واصله فى مسند احمد 188٫2
- ↑ صحيح الترغيب 54
- ↑ تعلیم الاسلام : حصہ چہارم، صفحہ 27)
- ↑ جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 588 علم کا بیان : سنت پر عمل اور بدعت سے اجتناب کے بارے میں
- ↑ سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 209, سنت کی پیروی کا بیان : جس نے مردہ سنت کو زندہ کیا