ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1800ء میں بنگال میں زمینوں کا ٹیکس وصول کرنے کے لیے ایک نئے قانون کے تحت ایک نیا زمینداری نظام شروع کیا جو بندوبست دوامی (Permanent Settlement) کہلاتا ہے۔

ایسٹ انڈیا کپمنی کی حکمرانی سے پہلے ہندوستان میں مغلیہ حکومت اپنی سلطنت کے مختلف علاقے ایک ایک سال کے لیے پٹے (لیز) پر دیا کرتی تھی اور ہر سال یہ علاقے نیلام ہوا کرتے تھے۔ جو سب سے زیادہ بولی لگاتا اسے ایک سال کے لیے اس علاقے کی زمینداری مل جاتی تھی۔ مغل حکمرانوں کے تربیت یافتہ دیوان نہ صرف بولی لگانے والے زمینداروں سے ٹیکس وصول کرتے تھے بلکہ اس پر بھی نظر رکھتے تھے کہ وہ رعایا کے ساتھ غیر ضروری سختی نہ برتیں۔ دیوان کو یہ اختیار ہوتا تھا کہ وہ عوامی بے چینی کی صورت حال میں زمیندار کی زمینداری ختم کر دیں۔

1764ء میں بکسر کی جنگ میں انگریزوں کی کامیابی کے بعد معاہدہ الٰہ باد میں شاہ عالم دوّم نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو پورے بنگال کی دیوانی عطا کی۔ اس وقت اس علاقے کا رقبہ چار لاکھ مربع کلومیٹر تھا جس میں بہار، اڑیسہ، مغربی بنگال، جھارکھنڈ اور اترپردیش بھی شامل تھے۔ یہ پورے ہندوستان کا آٹھواں حصہ بنتا تھا۔ اس کے علاوہ 50 لاکھ روپے بطور تاوان جنگ بھی انگریزوں کو ادا کیے گئے۔ اس طرح انگریزوں کو ٹیکس اکٹھا کرنے کا قانونی اختیار مل گیا جس کے لیے انھوں نے محمد رضا خان کو مامور کیا۔ لیکن ماہر اسٹاف کی کمی کی وجہ سے انگریزوں کو ٹیکس جمع کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 1770 کے قحط نے انتظامیہ کی دوراندیشی سے عاری حکمت عملیوں کو اجاگر کیا۔ گورنر جنرل وارن ہیسٹنگز نے ہر پانچ سال پر زمینوں کے معائینے کا پروگرام بنایا لیکن بہت سارے کمپنی کے ملازمین ٹیکس کی رقم لے کر بھاگ گئے۔ 1786ء میں لارڈ چارلس کارنوالس کو جو 19 اکتوبر 1781 میں امریکا کی جنگ آزادی میں شکست کھا کر واپس آیا تھا، گورنر جنرل بنا کر ہندوستان بھیجا گیا۔ 1790 میں اس نے دس سال کے لیے بندوبست دوامی (Permanent Settlement) کا نظام نافذ کیا جسے 1800 میں مستقل کر دیا گیا۔ اس نظام میں ہر سال نیلامی کی بجائے ایک بار نیلامی اور آئندہ ہر سال اسی بولی کو زمین کا ٹیکس مقرر کر دیا گیا۔

اس نظام میں زمینداروں کے اختیارات میں بڑا اضافہ ہو گیا۔ ٹیکس چونکہ بڑھ گیا تھا اس لیے کسانوں پر بوجھ بھی بڑھ گیا۔ اب زمین ہر سال نیلام نہیں ہوتی تھی بلکہ جس نے ایک دفعہ زمین حاصل کر لی اب وہ اور اس کی اولادیں اس زمین کی مالک تھیں بشرطیکہ وہ ہر سال 31 دسمبر تک سورج غروب ہونے سے پہلے اگلے سال کے لیے اتنا ہی ٹیکس حکومت کے خزانے میں جمع کروا دیا کریں۔ ایک دن کی بھی دیر ہونے سے ان کی زمینداری کے حقوق ضبط ہو جاتے تھے اور زمین دوبارہ نیلام ہو جاتی تھی۔ کسانوں سے وصول کی گئی رقم میں سے 89 فیصد حکومت کا حصہ ہوتی تھی اور 11 فیصد زمیندار کا۔ سیلاب، قحط یا دوسری کسی آفت کی صورت میں بھی ٹیکس کم نہیں ہوتا تھا۔

اس نظام نے ایک طرف کسان طبقے کو کچل کر رکھ دیا اور دوسری طرف حکومت کے وفادار زمینداروں کی تعداد میں بڑا اضافہ کیا۔ کسانوں کو چاول اور گندم کی بجائے نقد فصلیں (کپاس، نیل) اگانے پر مجبور کیا گیا جس کے نتیجے میں قحط کے دوران بڑے ہولناک نتائج برامد ہوئے۔ اس نظام نے ہندوستان کی صدیوں پرانی تہذیب کو شدید متاثر کیا۔

مزید دیکھے

ترمیم

بیرونی ربط

ترمیم