تاج محل
تاج محل یعنی مقبرہ ملکہ ممتاز محل زوجہ شاہ جہاں (1627ء – 1659ء) بھارت کے شہر آگرہ میں واقع سنگ مرمر سے بنی ایک عظیم الشان عمارت ہے جسے مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنی زوجہ کی محبت کی لافانی یادگار کے طور پر دریائے جمنا کے ساحل پر بنایا تھا۔ تاج محل اپنے فنِ تعمیر کی خوبیوں اور خصوصیتوں کی بنا پر دنیا بھر میں مشہور ہے اور عجائبات عالم میں شمار ہوتا ہے۔ ہر سال لاکھوں سیاح اس کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ دنیا کی مختلف زبانوں کے نظم و نثر میں تاج محل اور اس کے عجائب پر اس قدر لکھا جا چکا ہے کہ ان سب کا احاطہ بے حد مشکل ہے۔
تاج محل کا جنوبی نظارہ | |
مقام | آگرہ ، بھارت |
---|---|
متناسقات | 27°10′30″N 78°02′31″E / 27.17500°N 78.04194°E |
اونچائی | 171 m (561 ft) |
تعمیر | 1632–1653[حوالہ درکار] |
طرزِ تعمیر | مغلیہ طرزِ تعمیر |
سیاح | 3 ملین سے زیادہ (2003ء میں) |
قسم | ثقافتی |
معیار | i |
نامزد کردہ | 1983 (7th session) |
حوالہ #۔ | 252 |
ملک | بھارت |
خطّہ | ایشیا بحر الکاہل |
تاج محل مغل طرز تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس کی تعمیراتی طرز فارسی، ترک، بھارتی اور اسلامی طرز تعمیر کے اجزاء کا انوکھا ملاپ ہے۔ 1983ء میں تاج محل کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور کلچر نے عالمی ثقافتی ورثے میں شمار کیا۔ اس کے ساتھ ہی اسے عالمی ثقافتی ورثہ کی جامع تعریف حاصل کرنے والی، بہترین تعمیرات میں سے ایک بتایا گیا۔ تاج محل کو بھارت کے اسلامی فن کا عملی اور نایاب نمونہ بھی کہا گیا ہے۔ یہ تقریباً 1648ء میں مکمل تعمیر کیا گیا۔ استاد احمد لاهوری کو عام طور پر اس کا معمار خیال کیا جاتا ہے۔
تعمیر
ترمیممغل بادشاہ شاہجہان کی بیوی ممتاز محل کا مقبرہ جو بھارت کے شہر آگرہ میں واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عیسیٰ شیرازی نامی ایک ایرانی انجینئر نے اس کا نقشہ تیار کیا تھا، لیکن بادشاہ نامے میں لکھا ہے کہ خود شاہ جہاں نے اس کا خاکہ تیار کیا۔ یہ عمارت 1632ء سے 1650ء تک کل25 سال میں مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر میں ساڑھے چار کروڑ روپے صرف ہوئے اور بیس ہزار معماروں اور مزدوروں نے اس کی تکمیل میں حصہ لیا۔ تمام عمارت سنگ مرمر کی ہے۔ اس کی لمبائی اور چوڑائی 130 فٹ اور بلندی 200 فٹ ہے۔ عمارت کی مرمری دیواروں پر رنگ برنگے پتھروں سے نہایت خوبصورت پچی کاری کی ہوئی ہے۔ مقبرے کے اندر اور باہر پچی کاری کی صورت میں قرآن شریف کی آیات نقش ہیں۔ عمارت کے چاروں کونوں پر ایک ایک مینار ہے۔ عمارت کا چبوترا، جو سطح زمین سے 7 میٹر اونچا ہے، سنگ سرخ کا ہے۔ اس کی پشت پر دریائے جمنا بہتا ہے اور سامنے کی طرف، کرسی کے نیچے ایک حوض ہے۔ جس میں فوارے لگے ہوئے ہیں اور مغلیہ طرز کا خوبصورت باغ بھی ہے اس مقبرے کے اندر ملکہ ممتاز محل اور شاہجہان کی قبریں ہیں۔
سیاحت
ترمیمہر سال اس تاریخی یادگار کو 30 لاکھ افراد دیکھنے آتے ہیں۔ یہ تعداد بھارت کے کسی بھی سیاحتی مقام پر آنے والے افراد کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ تاج محل مغلیہ دور کے فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار ہے اور ایک ایسی بے مثال عمارت ہے جو تعمیر کے بعد ہی سے دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی۔ محبت کی یہ لازوال نشانی شاعروں، ادیبوں، مصوروں اور فنکاروں کے لیے اگرچہ وجدان کا محرک رہی ہے لیکن حقیقت میں ایک مقبرہ ہے۔ سن 1874 میں برطانوی سیاح ایڈورڈ لئیر نے کہا تھا کہ
دنیا کے باشندوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ایک وہ جنھوں نے تاج محل کا دیدار کیا اور دوسرے جو اس سے محروم رہے ۔
پیلا تاج محل
ترمیمآگرہ میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے باعث محبت کی اس عظیم یادگار کی رنگت سفید سے پیلی ہو گئی ہے۔ یہ بات مئی 2007ء میں بھارتی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں بتائی گئی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آگرہ میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی سے تاج محل کے جگمگاتے سفید سنگ مر مر کو نقصان پہنچا۔ آلودگی کے باعث اس تاریخی یادگار کی حقیقی خوبصورتی متاثر ہو رہی ہے۔ رپورٹ میں تاج محل کی خوبصورتی بچانے اور سنگ مر مر کو اس کی اصل شکل میں برقرار رکھنے کے لیے اسے صاف کرنے کی سفارش کی گئی۔[1]
عجوبہ
ترمیم2007 میں ایک بین الاقوامی مقابلے کے ذریعے طے پانے والے دورِ جدید کے سات عجائبات میں آگرہ کے تاج محل کو بھی شامل کیا گیا۔[2]
تاج محل کی نقل میں تعمیرات
ترمیمتاج محل کو نقل کرتے ہوئے دنیا بھر میں کئی عمارتیں تعمیر کی گئیں، ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
-
بیبی كا مقبرہ 1651-1661
-
Trump Taj Mahal 1990
-
مزار قائد عوام in گڑھی خدا بخش, Sindh, Pakistan 1993-1997
-
Taj Mahal Bangladesh 2008
-
مسجد صدیقہ فاطمہ زہرا, Kuwait 2008-2011
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیمویکی ذخائر پر تاج محل سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |