جمرود
جمرود (انگریزی: Jamrud) خیبر ایجنسی میں واقع ایک شہر ہے۔ یہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات میں شامل ہے۔ جمرود کا قصبہ درہ خیبر کے دروازے کے طور پر بھی مشہور ہے، یہ درہ ہندوکش سلسلے میں واقع ہے۔ جمرود کا پشاور اور ملک سے رابطہ سڑک اور ریلوے لائن کے ذریعے ہے، یہ قصبہ لنڈی کوتل کو پشاور اور بقیہ ملک سے ملانے کا بھی ذریعہ ہے۔ لنڈی کوتل پاک افغان سرحد پر واقع ہے۔
جمرود درہ خیبر کے سرے پر واقع ہے اور جنوبی ایشیاء اور وسطی ایشیاء کے درمیان تجارتی راہدری کے طور پر استعمال ہوتا آیا ہے۔ اسی لحاظ سے اس درے اور قصبے کی فوجی اہمیت بھی عیاں رہی ہے۔ جمرود سطح سمندر سے 1512 فٹ بلندی پر اور پشاور شہر سے تقریباً 17 کلومیٹر کے فاصلے پر مغرب میں واقع ہے۔
جمرود کے علاقے غنڈی میں واقع دار العلوم صدیقیہ اہمبدینی درس گا ہے، ہری سنگھ نلوہ نے 1837ء میں بعمر 45 برس جمرود دوران جنگ وفات پائی،
جمرود Jam | |
---|---|
قصبہ | |
سرکاری نام | |
جمرود کا محل وقوع | |
متناسقات: 34°00′N 71°23′E / 34.000°N 71.383°E | |
ملک | پاکستان |
صوبہ | خیبر پختونخوا |
ضلع | خیبر ایجنسی |
تحصیل | جمرود |
بلندی | 461 میل (1,512 فٹ) |
آبادی (خانہ و مردم شماری پاکستان 2017ء) | |
• کل | 63,843 |
تاریخ
ترمیمتحصیل جمرود میں آثار قدیمہ کے تقریباً 110 اہم مقامات دریافت ہوئے ہیں جن میں بعض مقامات 30 ہزار سال پرانے بتائے گئے ہیں ۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ آثار قدیمہ کے ماہرین نے خیبر ایجنسی کی پولیٹکل انتظامیہ کے تعاون سے قبائلی علاقے کی ایک تحصیل جمرود کا ابتدائی سروے ڈھائی ماہ میں مکمل کیا ہے جس میں قبل از تاریخ کے عہد کے آثار شامل ہیں ۔ خیبر ایجنسی کے اس راستے کو سکندر اعظم اور بدھ مت کے پیروکاروں کے علاوہ وسطی ایشا سے متعدد مسلمان حملہ آوروں نے استعمال کیا ہے ۔ خیبر پاس کا یہ علاقہ وسطی اور جنوبی ایشا کے درمیان پل کا کردار ادا کر تا رہا ہے اور یہ تجارت کا بڑا روٹ رہا ہے ۔
خیبر ایجنسی کے پولیٹکل ایجنٹ خالد محمود نے بی بی سی کو بتایا کہ خیبر ایجنسی تاریخی اعتبار سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس میں دلچسپی لی اور اس کا سروے مکمل کرایا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اب بھی خیبر ایجنسی میں انتہائی اہم آثار قدیمہ پڑے ہوئے ہیں۔ امریکا اور برطانیہ کے اہم رہنماؤں کے علاوہ عظیم باکسر محمد علی اس علاقے کا دورہ کر چکے ہیں ۔
برطانوی دور
ترمیمبرطانوی راج کے دوران جمرود اور اس کے نواحی علاقے کو اہم فوجی مرکز تسلیم کیا جاتا تھا، یہاں برطانوی فوج کے مراکز اور چھاؤنیاں قائم تھیں۔ 1878ء کے فوجی آپریشن کے دوران جمرود کی اہمیت اس وقت بڑھ گئی جب برطانوی فوج نے افغانستان کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے یہاں اپنے مراکز قائم کیے اور پھر بعد میں یہاں بیس کیمپ تشکیل دیے گئے۔ یہ خیبر رائفلز کا مرکز بھی رہا ہے اور درہ خیبر پر چونگی کی وصولی کا بڑا مرکز گردانا جاتا رہا۔ 1901ء کی مردم شماری میں جمرود کی کل آبادی 1848 نفوس پر مشتمل تھی۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیمجمرود: بمطابق امپیریل گزیٹیئیر آف انڈیا
معلومات پشاور، بمطابق گزئیٹیر آف انڈیا (پنجاب) صفحہ 74