جمہوری مرکزیت (انگریزی: democratic centralism) ایک جمہوری عمل ہے جس میں تمام سیاسی فیصلے پارٹی کے ارکان بذریعہ ووٹ لیتے ہیں۔ اس نظام میں مرکزی طور پر پالیسیاں طے ہوتی ہیں اور سب اس کے پابند ہوتے ہيں۔

جمہوری مرکزیت کا عمل

ترمیم

پارٹی کے اجلاس میں ایک نیا منصوبہ (موشن) پیش کیا جاتا ہے۔ یہ منصوبہ ایک نئی پالیسی، کوئی ہدف یا کوئی بھی سیاسی سوال ہو سکتا ہے۔اس منصوبہ پر ایک متعین مدت تک ضروری بحث ہوتی ہے۔پھر ارکان کی رائے لی جاتی ہے۔ایک دو اختیاروں میں سے کسی ایک اختیار کو 60 فیصد یا اس سے زیادہ ووٹ ملتے ہیں تو بقیہ تمام پارٹی ارکان اسی کے حق میں ووٹ دیتے ہیں اور اس کے خلاف جانے کا رواج عام طور پر نہیں ہے۔ایسا اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ پارٹی کے درمیان میں اتحاد برقرار رہے۔اگر پھر بھی پارٹی کے کچھ ارکان اس سے متفق نہیں ہیں تو جمہوری جمائندگی کے برخلاف پارٹی کے ارکان دو حصوں میں بنٹنے کی بجائے پھر سے اس موشن پر بحث کرتے ہیں تاآنکہ کوئی نتیجہ نکل آئے۔روس اور چین کی ترقی کی راہ میں اس عمل کا بڑا دخل ہے کیونکہ اس کے علاوہ جو دوسرا راستہ ہے وہ پرتشدد ہے جس میں فیصلے جلدی نہیں ہوتے ہیں۔ جمہوری مرکزیت کا اپنا ایک منفرد نظام اور ماحول ہے جس سے ارکان کو اس میں شامل ہونے اور بحث کرنے جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہاں اسپیکر بالکل غیر جانبدار ہوتا ہے اور کوئی بھی رکن اسپیکر پر کسی طرح کا الزام نہیں لگاتا ہے۔[1]

ولادیمیر لینن کا تصور اور عمل

ترمیم

1902ء کے مشہور متن کیا کیا جائے؟ میں جمہوری مرکزیت کی بنیاد ملتی ہے اور وہیں سے اس نظام کو ہوا ملی۔ اس دور میں جمہوری مرکزیت کو تحریکی پارٹی کے ارکان کو منظم کرنے کے لیے اصولوں کا مجموعہ سمجھا جاتا تھا۔ولادیمیر لینن جمہوری مرکزیت کا خیال سماجی جمہوری پارٹی، جرمنی سے آیا۔ لینن خود کو جمہوری مرکزیت کا پیروکار بتاتا تھا۔ اس کے مطابق اس نظام میں کیے جانے فیصلے بحث و مباحثہ کے بعد متحدانہ طور پر لیے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہاں بحث کی آزادی ہے اور آپسی اتحاد ہے۔ 3 اگست 1917ء کو سینٹ پیٹرز برگ میں روسی سماجی جمہوری جماعت مزدور کے چھٹے اجلاس میں جمہوری مرکزیت کو درج ذیل طریقے سے متعارف کرایا گیا ہے؛

  1. اوپر سے نیچے تک تمام ڈائریکٹر منتخب ہوں گے۔
  2. تمام پارٹی ارکان وقتا فوقتا اپنی اپنی پارٹی تنظیم کو اپنے کام کاج کا حساب دیں گے۔
  3. اقلیت سے اکثریت تک سب پارٹی کے اصولوں کو مضبوطی سے تھامے رہیں گے۔
  4. پارٹی کے تمام ارکان اعلیٰ عہدہ پر فائز ارکان کے فیصلوں پر عمل کریں گے۔

انقلاب اکتوبر اور روسی خانہ جنگی کے بعد اشتمالی جماعت سوویت اتحاد کے کامیاب نفاذ کے بعد بالیشوک پارٹی لے لیڈران جیسے لینن وغیرہ نے 1921ء میں دسویں کانگریس کے قرارداد نمبر 12 کے ذریعے پارٹی میں گروہوں پر پابندی لگادی۔[2] کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ پابندی عارضی تھی مگر قرارداد کے متن میں ایسا کچھ نہیں ملتا ہے۔[3]

آئین چین کے دفعہ 3 میں جمہوری مرکزیت کو یوں بیان کیا گیا ہے:

دفعہ 3۔ عوامی جمہوری چین کے ریاستی عناصر جمہوری مرکزیت کے اصول کو نافذ کرتے ہیں۔قومی عوامی کانگریس اور دیگر علاقائی کانگریس کا نفاذ جمہوری طرز کے انتخابات پر مبنی ہے۔یہ تمام لوگ عوام کے تئیں جوابدہ ہیں اور زیر نگرانی ہیں۔ تمام انتظامیہ، عدلیہ اور پروورٹریلیل عناصر عوام کی کانگریس کے ذریعے تخلیق ہوئے ہیں اور وہ عوام کے ذمہ دار ہیں اور اپنی اپنی اتنظامیہ کو جوابدہ ہیں۔ مرکزی اتھارٹی کے متحدہ قیادت کی بنیاد پر بنے اصولوں کی نگرانی میں علاقائی ریاستی عناصر اور مرکز کے درمیان میں کام اور طاقت کی تقسیم اس طرح کی گئی ہے کہ علاقائی اتھارٹیاں نئے فیصلے لینے میں حوصلہ افزا ہیں۔[4]

چین میں مرکزی جمہوریت قومی عوامی کانگریس کی عظمت کو برقرار رکھنے کی ضامن ہے۔ قومی عوامی کانگریس چینی عوام کی نمائندگی کرتی ہے اور ان کی طرف سے فیصلے لیتی ہے اور قانون بناتی ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Mao Tse Tung (1944)۔ "Mao Tse Tung Quotations from Mao Tse Tung 15. Democracy in the Three Main Fields"۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 اگست 2002 
  2. Protokoly (1933). ed. 585–7; 1963 ed. 571–573.
  3. Protokoly (1933) ed. 523–548.
  4. English language text of Constitution of the People's Republic of China adopted 4 December 1982. Chapter 1. Article 3. Retrieved 29 December 2014.