جوہر (خودکشی)
ہندوستان میں راجپوتوں میں یہ رسم تھی کہ اگر جنگ کے حالات میں شکست یقینی ہو چکی ہو تو دشمن کے ہاتھوں زندہ گرفتار ہونے کی بجائے خودکشی کر لی جائے۔ ایسے حالات میں امرا طبقے کی خواتین اپنے بچوں سمیت آگ میں کود جاتی تھیں یا زہر کھا لیتی تھیں۔
یہ رسم عام طور پر رات کو انجام دی جاتی تھی اور اسے قربانی سمجھا جاتا تھا۔ خواتین اپنی شادی کے لباس پہن کر اسے انجام دیتی تھیں۔ اس موقع پر برہمن پجاری وید کے منتر پڑھا کرتے تھے۔ اگلی صبح ان کے مرد نہا دھو کر کیسری (زعفرانی) رنگ کے کپڑے پہن کر اپنی بیویوں اور بچوں کی چتا سے راکھ اپنے ماتھے پر لگا کر قلعے سے باہر نکلتے تھے اور مرنے کے ارادے کے ساتھ دشمن پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ خواتین کا اس طرح مرنا جوہر کہلاتا تھا جبکہ مردوں کا لڑتے ہوئے مارا جانا ساکا کہلاتا تھا۔ یہ دونوں رسمیں یکے بعد دیگرے ایک ساتھ انجام پاتی تھیں۔ مردوں کا میدان جنگ میں لڑتے ہوئے مارا جانا عزت کا اعلیٰ ترین درجہ قرار پاتا تھا۔
جوہر کی رسم ستی سے اس طرح مختلف تھی کہ ستی کے وقت نہ جنگی ماحول ہوتا تھا نہ خاوند زندہ ہوتا تھا۔
روایت ہے کہ علاء الدین خلجی نے جب جیسلمیر کے قلعے کا محاصرہ کیا تھا تو سات ماہ کے محاصرے کے بعد 24000 خواتین نے جوہر کی رسم میں خودکشی کی۔ مگر مؤرخین اس واقعے پر کافی شک کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ اس کی بڑی بڑی وجہ پدماوتی یا پدمنی، جسے اس جنگ کا محرک مانا گیا ہے، اس کے وجود کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔