جہمیہ

جہم بن صفوان کی دینیات

جہمیہ یہ جہم بن صفوان کے ساتھی ہیں۔
اس فرقے کا بانی جہم بن صفوان تھا ان کا عقیدہ تھا کہ انسان اپنے افعال میں مجبور محض ہے نہ اس میں قدرت پائی جاتی ہے نہ ارادہ اور نہ اختیار ۔(جمادات کی طرح کوئی قدرت نہیں رکھتے)ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ نے انسان کو جبرا گناہو ں پر لگا رکھا ہے۔ ایمان کے بارے میں اس کا عقیدہ تھا کہ ایمان صرف معرفت کا نام ہے جو یہودی نبی ﷺ کے اوصاف سے با خبر ہیں وہ مومن ہیں یہ فرقہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا منکر تھا۔ یہ کہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کو ان اوصاف سے متصف نہیں کیا جا سکتا جن کا اطلاق مخلوق پر ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا انکار کرنا توحید ہے۔ جنت و دوزخ میں لوگوں کو داخل کر کے فنا کر دیا جائے گااس کے بعد فقط اللہ کی ذات باقی رہے گی۔[1]

فرقہ جہمیہ کے عقائد

ترمیم

فرقہ جہمیہ کے چند اصولی اور بنیادی عقائد کا ذکر کیا جاتا ہے جو اہل سنت کے عقائد سے الگ ہیں ۔

  • (1) ایمان صرف معرفت قلب کا نام ہے اگر وہ حاصل ہے تو انکار لسان کے باوجود بندہ کامل الایمان ہے ۔
  • (2) ایمان کے بعد اعمال صالحہ کی کوئی ضرورت نہیں اور افعال سیۂ سے بھی ایمان متا ثر نہیں ہوتا ۔
  • (3) تمام افعال کا اللہ تعالیٰ ہی خالق ہے ۔
  • (4) بندہ مجبور محض ہے اسے کوئی اختیار نہیں ۔
  • (5) کلام اللہ حادث اور مخلوق ہے ۔
  • (6) اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی چیز قدیم نہیں ۔
  • (7) رؤیت باری تعالیٰ محال اور قطعا نا ممکن ہے ۔
  • (8) انبیا اور ان کے امتیوں کا ایمان یکساں اور ایک درجہ کا ہے اس میں کوئی تفاوت نہیں ۔
  • (9) اللہ تعالیٰ کا علم حادث ہے کسی چیز کے وجود اور اس کی خلقت سے پہلے اللہ کو اس کا علم نہیں ہوتا ۔
  • (10) جنت اور جہنم کو ان کے مستحقین کے داخل ہو نے کے بعد فنا کر دیا جائیگا قرآن کریم وحدیث میں خالدین وغیرہ جیسے الفاظ کثرت کے معنیٰ میں وارد ہوئی ہیں ۔
  • (11) اللہ کو کسی ایسی صفت کے ساتھ متصف کرنا جائز نہیں جو بندوں میں پائی جاتی ہو یہی وجہ ہے کہ جہمیہ نے اللہ تعالیٰ کے حی اور عالم ہو نے کا انکار کر دیا کیونکہ یہ بندوں کے بھی اوصاف ہیں اور اللہ تعالیٰ کو صرف فاعل وقادر قراردیا کیونکہ یہ بندوں کے اوصاف نہیں ہیں ۔
  • (12) جہمیہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا صراحتا انکار کرتے ہیں ۔
  • (13) معتزلہ کی طرح یہ بھی ہر اس غیبی خارق عادت ثابت شدہ امر کا ناکار کرتے ہیں جو ان کی عقل سے با ہر ہو ۔
  • (14) باری تعالیٰ کے لیے تحیز با لمکان کے قائل ہیں۔[2]

علمائے کرام کی آرا

ترمیم

امام ابن تیمیہ بیان کرتے ہیں :”جو کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ علم و قدرت رکھتا ہے ،یا اُسے آخرت میں دیکھا جائے گا ،یا یہ کہے کہ قرآن اللہ کی طرف نازل ہونے والا کلام ہے جو مخلوق نہیں، جہمیہ کے نزدیک وہ شخص موحد نہیں بلکہ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دینے والا یعنی مُشَبَّہ ہے ۔“[3]

جہمیہ کا کہنا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی تمام صفات مخلوق ہیں،وہ ایک ایسے خیالی خدا پر ایمان رکھتے ہیں جس کا تصور کرنا ذہن ہی میں ممکن ہے کیونکہ حقیقت میں جو بھی چیز وجود رکھتی ہے اُس کی صفات ہوتی ہے۔ صفات سے علاحدہ کسی ذات کا حقیقت میں وجود نہیں ہے۔ صفات کے انکار میں غلو کا یہ حال تھا کہ وہ اللہ کے بارے میں یہ بھی کہنا جائز نہیں سمجھتے تھے کہ اللہ ایک شے ہے۔

ابو الحسن اشعری فرماتے ہیں :

جہم کا کہنا تھا :اللہ تعالیٰ کو شے کہنا جائز نہیں، کیونکہ شے اُس مخلوق کو کہتے ہیں جس جیسا کوئی اور پایا جاتا ہو۔ جبکہ تمام مسلمانوں کا یہ کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ شيء ہے مگر وہ دیگر اشیاء کی مانند نہیں ہے“۔[4]

اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

  • ﴿قُلْ اَيُّ شَيْءٍ اَكْبَرُ شَہَادَۃً۝0ۭ قُلِ اللہُ۝0ۣۙ شَہِيْدٌۢ بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ۝0ۣ ﴾ (الانعام :19)

پوچھیے سب سے بڑھ کر سچی گواہی کس شَيْءٍ کی ہو سکتی ہے؟ کہہ دیجیے اللہ کی جو میرے اور تمھارے درمیان میں گواہ ہے ۔

حقیقت میں جہمیہ کا اللہ کے اسماء و صفات کا عقیدہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار ہے۔ امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں :

تعطیل کرنے والے جہمیہ کاعقیدہ حقیقت میں وہی عقیدہ ہے جو فرعون کے ہاں پایا جاتا تھا۔ وہ خالق، اُس کے کلام اور دین کا انکار کرتا تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے :

  • ﴿ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرِيْ۝0ۚ﴾(القصص: 38)
  • ﴿فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى۝24ۡۖ ﴾(النٰزعٰت: 24)

فرعون'' جہمیہ کی طرح موسی ؈ کے اللہ سے ہم کلام ہونے کا انکاری تھا، اسی طرح وہ اس بات کا منکر بھی تھا کہ آسمانوں کے اوپر موسیٰ ؈ کا کوئی معبود ہے ۔[5]

اسی لیے جہمیہ کے عقیدہ نے حلول کی بنیاد رکھی جو اللہ رب العالمین کے ساتھ صریح کفر ہے :

ابن تیمیہ فرماتے ہیں :

”جہمیہ کے جمہور عبادت گزارصوفیاء حلول کے عقیدہ کا اظہار کرتے تھے … اس لیے اللہ کی صفات کی نفی کرنے والے جہمیہ شرک کی ایک قسم میں داخل ہیں۔ ہر معطل (صفات کا انکار کرنے والا )مشرک ہوتا ہے جبکہ ہر مشرک کا معطل ہونا ضروری نہیں ہے، جہمیہ کا عقیدہ تعطیل کو لازم کرتا ہے ۔“[6]

سلام بن ابی مطیع کہتے ہیں جہمیہ کفار ہیں۔ یزید بن ہارون کہتے ہیں جہمیہ کفار ہیں۔[7]

البتہ وہ لوگ جو جہمی عقائد سے متاثر تو ہیں مگر غالی نہیں ملت اسلام سے خارج نہیں ہیں بلکہ اُن کا شمار 72 گروہوں میں ہوتا ہے۔

چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں:

امام احمد نے جہمیہ کے (تمام) اعیان کو کافر نہیں کہا، نہ ہر اس شخص کو کافر کہا جس نے یہ کہا کہ وہ جہمی ہے۔ نہ اسے جس نے جہمیہ کی بعض بدعات میں ان کی موافقت کی۔ بلکہ آپ نے (قرآن کو مخلوق کہنے والے) اُن جہمیہ کے پیچھے نماز پڑھی جو اپنی بدعت کی طرف بلانے والے ،اس پر لوگوں کا امتحان لینے والے اور جو ان کی موافقت نہ کرے اس کو سخت سزائیں پہنچانے والے تھے۔ آپ ان کو مومن مانتے اور ان کی امارت تسلیم کرتے اور ان کے لیے دعا کرتے تھے۔[8]

حوالہ جات

ترمیم
  1. خزائن التعریفات، محمد انس رضا قادری، صفحہ 124،والضحیٰ پبلیکیشنز لاہور
  2. فرقہ جہمیہ | الغزالی[مردہ ربط]
  3. مجموع الفتاوی:3/99
  4. مقالات الاسلامیین 1/259
  5. مجموع الفتاوی13/185
  6. درء التعارض 10/288،289
  7. الرد علی الجہمیۃ :111
  8. مجموع الفتاویٰ: 507,508/7