حنفی
حنفی (عربی: حنفي) اہل سنت کے چار فقہی مذاہب میں سے ایک ہے۔[1] یہ ابو حنیفہ النعمان بن ثابت (م 150ھ) کے نام پر ہے، جن کا شمار تابعین یا تبع تابعین میں ہوتا ہے، ان کے شرعی نظریات ان کے دو شاگردوں ابو یوسف اور محمد الشیبانی نے محفوظ کیے تھے۔ اہل سنت میں شریعت کے دوسرے اہم مذاہب مالکی، شافعی اور حنبلی ہیں۔[2][3]
اہل سنت میں حنفی فقہ کے پیروکار سب سے زیادہ تعداد میں ہیں۔[4] یہ تاریخی ریاستوں کا بنیادی مذہب تھا: عثمانی سلطنت، مغل سلطنت، برصغیر میں ترک حکمراں کی سلطنتیں، شمال مغربی چین اور وسطی ایشیا۔[4][5][6]
ابو حنیفہ کا طریق اجتہاد
ترمیمامام ابو حنیفہ قرآن مجید اور حدیث مبارکہ کی روشنی میں قیاس اور رائے سے کام لے کر اجتہاد اور استنباط مسائل کرتے ہیں۔ امام اعظم اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں:
إني آخذ بكتاب الله إذا وجدته، فما لم أجده فيه أخذت بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم والآثار الصحاح عنه التي فشت في أيدي الثقات، فإذا لم أجد في كتاب الله وسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم أخذت بقول أصحابه، آخذ بقول من شئت، ثم لا أخرج عن قولهم إلى قول غيرهم۔ فإذا انتهى الأمر إلى إبراهيم والشعبي وابن المسيب (وعدّد رجالاً)، فلي أن أجتهد كما اجتهدوا ۔ سبحان الله الإمام الأعظم أبي حنيفة رحمہ الله کے مذهب کے اس عظیم اصول کوپڑهیں، فرمایا میں سب سے پہلے کتاب الله سے ( مسئلہ وحکم ) لیتا ہوں، اگرکتاب الله میں نہ ملے تو پھر سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم اور احادیث صحیحہ کی طرف رجوع کرتا ہوں اور اگر كتاب الله وسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم میں بھی نہ ملے تو پھر میں اقوال صحابہ کرام کی طرف رجوع کرتا ہوں اور میں صحابہ کرام کے اقوال سے باهر نہیں نکلتا اور جب معاملہ إبراهيم، والشعبي والحسن وابن سيرين وسعيد بن المسيب تک پہنچ جائے تو پھر میں بھی اجتهاد کرتا ہوں جیسا کہ انهوں نے اجتهاد کیا ۔ یہ ہے وه عظیم الشان اصول وبنیاد جس کے اوپر فقہ حنفی قائم ہے، امام اعظم کے نزدیک قرآن مجید فقہی مسائل کا پہلا مصدر ہے،پھردوسرا مصدر سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم اور احادیث صحیحہ هیں حتی کہ امام اعظم دیگرائمہ میں واحد امام هیں جو ضعیف حدیث کو بھی قیاس شرعی پرمقدم کرتے هیں جب کہ دیگرائمہ کا یہ اصول نہیں ہے، پھر تیسرا مصدرامام اعظم کے نزدیک صحابہ کرام اقوال وفتاوی هیں ،اس کے بعد جب تابعین تک معاملہ پہنچتا ہے تو امام اعظم اجتهاد کرتے هیں ،کیونکہ امام اعظم خود بھی تابعی هیں۔امام اعظم کے ماننے والے اس وقت پوری دنیا میں موجود ہیں۔حنفی مذہب ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔
فقہ حنفی کی تدوین و ترویج
ترمیمامام ابوحنیفہ اور ان کے شاگردوں امام قاضی ابو یوسف اور امام محمد بن حسن شیبانی نے حنفی فقہ کی باضابطہ تدوین کی۔ قاضی ابو یوسف کو ہارون نے مملکت کا قاضی القضاۃ بنا دیا تھا۔ فقہ حنفی کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ خود تابعین میں سے تھے۔ اس لحاظ سے امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام مالک کی نسبت امام اعظم ابو حنیفہ کا زمانہ رسول کریم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے قریب تر ہے۔ یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ آپ کے پیروکار دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔
آپ کے اجتہادی مسائل تقریبًا بارہ سو سال سے تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتوں میں آپ ہی کے مسائل، قانون سلطنت تھے اور آج بھی اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ آپ ہی کے فقہی مذہب کا پیرو کار ہے۔
عباسی خلفا کے عہد میں سرکاری فقہ حنفی تھی۔ یہ فقہ مشرقی ملکوں بالخصوص غیر عربوں میں زیادہ مقبول ہوئی۔ عثمانی ترک بھی حنفی تھے۔ بخارا، خراسان اور بغداد ان کے خاص مرکز تھے۔
آج کے دور میں
ترمیماس وقت بھی پاکستان، بھارت، افغانستان، چینی ترکستان، وسطی ایشیا اور ترکی وغیرہ میں مسلمانوں کی غالب اکثریت حنفی فقہ پر کاربند ہے۔
امام ابوحنیفہ کی اہم تصانیف
ترمیمآپ کی چند مشہور کتابیں درج ذیل ہیں :
- الفقه الأکبر
- الفقه الأبسط
- العالم والمتعلم
- رسالة الإمام أبي حنيفة إلی عثمان البتی
- وصية الامام أبي حنيفة
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Hisham M. Ramadan (2006), Understanding Islamic Law: From Classical to Contemporary, Rowman Altamira, آئی ایس بی این 978-0759109919, pp. 24–29
- ↑ Gregory Mack, Jurisprudence, in Gerhard Böwering et al (2012), The Princeton Encyclopedia of Islamic Political Thought, Princeton University Press, آئی ایس بی این 978-0691134840, p. 289
- ↑ Sunnite Encyclopædia Britannica (2014)
- ^ ا ب Jurisprudence and Law – Islam Reorienting the Veil, University of North Carolina (2009)
- ↑ Siegbert Uhlig (2005), "Hanafism" in Encyclopaedia Aethiopica: D-Ha, Vol 2, Otto Harrassowitz Verlag, آئی ایس بی این 978-3447052382, pp. 997–99
- ↑ Abu Umar Faruq Ahmad (2010), Theory and Practice of Modern Islamic Finance, آئی ایس بی این 978-1599425177, pp. 77–78