حیات جاوید
حیات جاوید مولانا الطاف حسین حالی کی لکھی ہوئی سوانح عمری ہے۔جو 1901 میں شائع ہوئی تھی۔اس میں مولانا حالی نے مشہور و معروف نثر نگار اور علی گڑھ تحریک کے بانی سرسید احمد خان کے حالات زندگی اور ان کے علمی و ادبی کارناموں کا مفصل احوال درج کیا ہے ۔
حیات ِجاوید
ترمیمسوانح حیات اس تصنیف کو کہیں گے جس میں کسی شخص کی زندگی کے واقعات مفصل طور پر بیان کیے گئے ہوں۔ چمیبرس انسائیکلو پیڈیا میں سوانح نگاری کا اطلاق انسان اور افرادکی زندگی کی تاریخ ہی کیا گیا ہے اور اس کو ادب کی ایک شاخ کہا گیا ہے۔
ایک بڑے اور اچھے سوانح نگاری کو اپنے ہیروسے مکمل آگاہی، اپنے ہیرو سے ہمدردی ،خلوص اور ہرقسم کے تعصبات سے بالاتر ہونا چاہیے۔ جبکہ ایک اچھی سوانح عمری میں جزئیات میں داخلی اور باطنی تصویر، ابتدا ءسے لے انتہا تک جامعیت، معنی خیز واقعات کا انتخاب جو کسی تحریک یا حرکت سے تعلق رکھنے والے ہوں، ہونے چاہیے۔
اردو ادب میں سوانح عمریوں کا ذخیرہ بہت کم ہے اور یہ صنف اردو میں انگریزی ادب کے حوالے سے داخل ہوئی۔ اردو نثر کی ابتداءسے لے کر دور ِ متاخرین تک اردو میں کوئی قابلِ ذکر سوانح عمری نہیں ہے۔ البتہ شعراءکے تذکرے موجود ہیں۔ ان کے علاوہ سیرت رسول اکرم اور صحابہ کرام اور اولیاءکرام کے سوانح حیات ملتے ہیں۔ اردو ادب میں سوانح عمر ی کی باقاعدہ ابتداءسرسید تحریک سے ہوئی۔ جس کا مقصد لوگوں کو اپنے بزرگوں کے کارناموں اور زندگی سے آگاہ کرنا تھا۔ تاکہ وہ ان راستوں کو اپنا کر ملک و قوم کے لیے ترقی کا سبب بن سکیں۔ اس مقصد کے لیے حالی، شبلی اور سرسید وغیرہ نے اعلیٰ پائے کی سوانح عمریاں لکھیں۔ لیکن ان میں سب سے بڑااور اہم نام مولانا حالی کا ہے جنھوں نے ”حکیم ناصر خسرو“، ” مولانا عبد الرحمن“”حیات سعدی “، ”یادگارِ غالب“، ”حیات جاوید “ جیسی سوانح لکھ کر اردو ادب کا دامن اس صنف سے بھر دیا۔ لیکن ان سوانح میں سب سے زیادہ شہرت حیات جاوید کے حصے میں آئی ۔
حیات ِ جاوید کا فن
ترمیم مولوی عبد الحق حیات جاوید کے بارے میں لکھتے ہیں
” حیات ِ جاویدحالی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ اس میں صرف سرسید احمد خان کی سیرت، اس کے حالات اور کارناموں کا بیان نہیں بلکہ ایک اعتبار سے مسلمانوں کے ایک صدی کے تمدن کی تاریخ ہے۔
ایک اور جگہ مولوی عبد الحق لکھتے ہیں:
”ہماری زبان میں یہ اعلی اور مکمل نمونہ سوانح نگاری کی مثال ہے“
بقول ڈاکٹر سید عبد اللہ:
” یہ امر بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت تک اردو زبان میں جتنی سوانح عمریاں لکھی گئی ہیں ان میں شاید” حیات جاوید“ بہترین سوانح عمری ہے۔
حیات ِ جاوید دو حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلا حصہ جو 300صفحات پر مشتمل ہے۔ سرسید کے خاندان اور ان کے خاندانی حالات کے لیے مخصوص ہے۔ جن میں ان کے بچپن کے حالات لکھے گئے ہیں۔ ان کے عفوان شباب کا بھی نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس حصے میں ان کی ملازمت اور خطاب ِ شاہی کا بھی ذکر ہے۔ جبکہ ایام ِ غد ر میں سرسید کی انگریز دوستی کا بھی احوال موجود ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ جو ٨٥٥ صفحات پر مشتمل ہے اس میں سرسید کے کاموں پر ریویو ہے۔ ان کی ترقی کے اسباب بیان کیے گئے ہیں۔ ان کی بے غرضی، دیانت داری آزادی، بے تعصبی اور وفاکیشی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تیکنیکی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو حالی کی یہ سوانح عمری پہلی دو سوانح عمریوں سے بہتر ہے۔ کیونکہ اس میں فن سوانح نگاری کے تمام لوازمات کو برتا گیا ہے۔ آئیے اس کی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں۔
مواد:۔
ترمیمحالی نے سرسید کی سوانح حیات لکھنے کا اس وقت فیصلہ کر لیاتھا جب انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کی بنیاد ڈالی۔ حالی نے اس مقصد کے لیے منصوبہ بندی بھی کی اور مختلف ذرائع سے پورا پورا فائدہ اُٹھایا۔ انھوں نے کرنل گراہم کی سوانح عمری کا مطالعہ کیا۔ منشی سراج الدین کے مسودے سے بھی فائدہ اٹھایا۔ مواد کی فراہمی کے لیے خود علی گڑھ میں طویل قیام کیا۔ ”علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ “ ،”تہذیب الاخلاق“ اور سرسید کی جملہ تصانیف سے بھی استفادہ کیا۔ سرسید کے خطوط بھی ذہن میں رکھے، دوسروں کے بیانات پر بھی غور کیا۔ مواقف اور مخالف رسالوں انگریزی اخبارات اور سرکاری رپورٹوں سے بھی مدد لی اور دیگر مدیران ِ سلطنت کی تحریروں کو بھی مدنظررکھا۔ مواد کی فراہمی کے لیے اتنی زبردست جدوجہد صرف مغربی مصنفین ہی کرتے ہیں۔
بے مثال اور یادگار کارنامہ :۔
ترمیم حالی کی حیات جاوید اردو ادب میں ایک بہت بڑا کارنامہ ہے کیونکہ سوانح لکھتے وقت ان کے سامنے کوئی نمونہ موجود نہیں تھا۔ اگرچہ”حیات سعدی“ اور ”یادگارِ غالب“ موجود تھیں مگر یہ تو خود حالی کے قائم کردہ نمونے اور اصولوں کے تحت وجود میں آئی تھیں۔ اور ان میں مکمل سوانح عمری کی تشنگی کا احساس ہوتا تھا۔ ان کی فنی کمزوریوں کاتدارک کسی حد تک حالی نے ”حیات ِ جاوید “ میں کردیاہے۔ اس میں ضبط و نظم کی پابندی، شعور کی پختگی اور واقعات کی تفتیش و تفحص کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ اس لیے مہدی افادی اس بارے میں لکھتے ہیں:
” اس میں شک نہیں کہ حالی نے سرسید کی صرف کثیر الاورا ق لائف نہیں لکھدی بلکہ یہ اردو لڑیچر میں ایسا اضافہ ہے جو حالی کی ذات پر ختم ہو گیا ہے۔
مقصدیت:۔
ترمیم”حیات جاوید“ میں حالی کی کوششیں صرف سرسید کی شخصیت تک محدود نہیں رہیں۔ بلکہ ”حیات ِ جاوید“ شخصیت نگاری ،سوانح نگاری اور تاریخ نویسی کے بین بین ایک متوازن اور قابل قدر سعی کا نام دیا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ سرسید کی عظیم شخصیت کے کا رہائے نمایاں سے متاثر ہو کر حالی نے مسلمانان ہند کے سامنے وہ جیتی جاگتی مثال پیش کی جس کی مساعی سے ہندوستان مسلمانوں کی سیاسی، سماجی، مذہبی، تمدنی، فکری، تعلیمی اور ادبی زندگی میں ایک انقلا ب آگیا۔ اس شخصیت میں کتنی کوتاہیاں سہی مگر مسلمانوں کے فکری اور ذہنی انجماد کو توڑ کر ان کی سیمابیت کو پھرسے بحال کردینا سرسید کا بے مثال کارنامہ ہے۔ سرسید کی شخصیت کو اس طرح توصیفی انداز میں پیش کرکے حالی نے قوم کو اپنے محسنوں کو زندہ جاوید بنانے کی تلقین و تبلیغ کی ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک مجسمہ سازی گناہ ہے جبکہ دوسری قومیں اپنے محسنوں کے بت اور مجسمے بنا کر ان کے احسانات کو زندہ رکھتی ہیں۔ حالی نے اپنے محسنوں کے کارناموں کو زندہ رکھنے کا یہ علمی انداز قوم کو سکھایا۔ اور لوگوں کو ان کی پیروی کی تلقین کی ہے۔
صداقت اور حقیقت نگاری :۔
ترمیمسرسید کی حیات کی کوئی اہم تفصیل حالی نے نظر انداز نہیں کی۔ انھوں نے اپنے ہیرو کے متعلق وہ باتیں بھی لکھ دیں ہیں جو اردو کے دوسرے سوانح نگار اُس دور میں اپنے ہیرو کے متعلق لکھنا کبھی گوارا نہ کرتے۔ مثلاً انگریزوں سے ان کے میل جول کی سرگزشت گردن مروڑی مرغی کا جائزہ ہونا۔ مغربی تمدن کے متعلق ان کا اتنہا پسندانہ نظریہ۔ مذہبی اجتہاد میں ان کی بے راہ روی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حالی نے کسی امر واقعہ کو نہیں چھپایا۔ اور ایک طرح سے حقیقت اور صداقت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
مشکلات:۔
ترمیم بقول ِ ایک نقاد :
” بے چارے خوش صفات خامو ش مزاج سنجیدہ دماغ حالی کے حصہ میں دو ایسی سوانح عمریاں آئیں جن کے اشخاص ان کے معاصرین تھے اور اپنی سطح سے بلند تھے۔
ایسی سوانح عمری لکھتے وقت اور بھی دقت پیش آتی ہے جبکہ مصنف کی اپنی فطرت حددرجہ عیب پوشی اور درگزر کرنے والی ہو۔ اس تمام کشمکش اور مشکلات کے باوجود ”حیات جاوید“ سچ مچ ایک کرامت ہے جس قدر اس پر ریسرچ کی جاتی ہے اس کے خصائص بھر کر سامنے آتے ہیں۔ حیات ِ جاوید لکھتے وقت مولانا حالی نے فیصلہ کر لیا کہوہ سرسید کی زندگی کے تمام پہلوئوں کو اجاگر کریں گے اور نکتہ چینی سے بھی حتی الامکان گریز نہیں کریں گے۔ اس طرح انھوں نے سوانح عمری لکھتے وقت بڑے سلیقے اوراحتیاط سے تمام ذرائع استعمال کیے جو ”حیات جاوید “ کے لکھنے کے سلسلے میں کام آسکتے تھے۔ اور جن کے توسط سے ایک معیاری سوانح عمری وجود میں آئی ۔
ژوف نگاہی:۔
ترمیم”حیات سعدی “ اور ”یادگارِغالب“ لکھتے وقت حالی ان دو شخصیات سے مرغوب ہو گئے لیکن ”حیات ِ جاوید “ میں ایسی صورت ِ حال پیدا نہیں ہونے دی۔ حالی سرسید کے معاصر تھے۔ حالی نے انھیں بہت قریب سے دیکھا۔ جانا اور پرکھا تھا۔ اس لیے ”حیات ِ جاوید لکھتے وقت انھوں نے مسلمانوں کی پچاس سالہ مذہبی، عملی ،سماجی اور ادبی تاریخ بھی لکھدی۔ حالی سرسید کے رفیق ہی نہ تھے بلکہ ان کی تحریک کے اہم رکن تھے۔ اس لیے سرسید اور حالی کے نقطہ نظر میں بھی ہم آہنگی تھی۔ ”حیاتِ جاوید“ کی ترتیب میں حالی نے مغربی سوانح نگاروں کی طرح جانکاہی، ژوف نگاہی اور دیدہ ریزی سے کام لیا ہے۔
جامعیت:۔
ترمیمحیا ت ِ جاوید کی عظمت اور بلند پائیگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ایک مکمل سوانح عمری ہے۔ حالی نے اس میں اتنی جزئیات بھر دی ہیں کہ کہیں بھی تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔ جامعیت اور فن کے لحاظ سے بھی واقعی ایک مکمل کتاب ہے۔ اس میں سرسید کی جیتی جاگتی اور چلتی پھرتی تصویریں ہیں جو فلم کی طرح ہماری آنکھوں کے سامنے روزمرہ زندگی کے تمام معمولات کو سر انجام دیتی نظرآتی ہیں۔ واقعات کی تفصیل و جزئیات پس منظر میں رہ کر ہیرو کی شخصیت محترک اور محو عمل دکھائی دیتی نظرآتی ہے۔ حالات و واقعات کا سلسلہ شخصیت کو نہیں چلا رہا بلکہ شخصیت کے ذوق و شوق حرکت و عمل اور سعی و کاش کے نتیجے میں حالات بن اور بگڑ رہے ہیں۔
اسلوب:۔
ترمیم اصولی اور فنی لوازم و مباحث سے ہٹ کر ”حیاتِ جاوید “ اسلوبِ بیان کے اعتبار سے بھی ایک بہترین سوانح عمری ہے۔ جو حالی کے اسلوب کا بہترین شاہکار ہے۔ اس میں حالی کے قلم نے بڑی ہمہ گیری، قدرت اور وسیع تصرف کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔ “حیات جاوید“ میں بیان کی وہ خوبیاں پائی جاتی ہیں جو صرف حالی کے اسلوب سے مخصوص ہیں۔ حالی کی شخصیت کا ایک شانداررخ، جو ان کے اسلوب میں نمایاں ہے وہ اپنی ذات کی پردہ پوشی ہے۔ یہ غیر شخصی انداز ان کی سب تصانیف میں پایا جاتا ہے۔ مگر”حیات ِ جاوید “میں ا س کی جلوہ گری کچھ زیادہ ہی ہے۔ اگرچہ طرز بیان میں حالی سرسید سے مماثلت رکھتے ہیں۔ مگر ان کے اور سرسید کے طرز میں بڑا فرق ہے۔ حالی کے یہاں ناہموار ترکیبوں اور ناگوار الفاظ سے بچنے کا خیال ہے۔
”حیات ِ جاوید “ میں بیانیہ نگاری کا وہ اسلوب پایا جاتا ہے۔ کہ اگر اس کا حصہ اول حصہ دوم سے مختلف نہ ہوتا تو اس کو سچا ناول یا حقیقی داستان کہنے میں کوئی حجاب نہ ہوتا۔ غرض بیان کے لحاظ سے بھی ”حیاتِ جاوید “ ایک بلند تصنیف ہے۔
یک رخی تصویر:۔
ترمیم حیات جاوید کے متعلق مولانا شبلی کا خیال ہے کہ یہ کتاب مغربی طریق کار کی ملمع سازی کے اصول پر لکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بھی حیات جاوید پر کئی قسم کے اعتراضات کیے گئے جن میں سب پہلے ہم جنگ آزادی کے 1857ءکے سلسلے میں سرسید کے کردار کو لیتے ہیں۔ آج کے دور میں سرسید کا یہ رویہ قابلِ تعریف نہیں ہے اور حالی کا قلم جانبدارانہ ہے۔ انھوں نے سرسید کے ہر فعل کا جواز پیش کیا ہے۔ اس دور کے غدار آج کے دور کی آزادی کے بڑے مجاہد ہیں۔ حالی سرسید کے تقلید میں بجنور کے امیر اور حاکم محمود خاں کو نامحمود خاں کہتے ہیں اور حالی سرسید کی پیروی میں نامحمود خاں ہی لکھتے ہیں۔
دوسری بات سرسید کے مذہبی خیالات کو حالی نے اس انداز میں توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے کہ پڑھنے والے کوبرے نہ لگیں۔ حالانکہ سرسید کے مذہبی خیالات عام مسلمانوں سے مختلف تھے۔ تیسری بات جس کی حالی نے بے جا حمایت کی ہے وہ سرسید کا سید محمود کو اپنی زندگی میں علی گڑھ کالج کا سیکرٹری بنانے کے لیے ٹرسٹی بل منظور کرانے کی کوشش کی ہے۔ جس سے ٹرسٹیوں میں اختلاف پیدا ہوا۔
ان اعتراضا ت کا کئی نقادوں نے جواب دیا ہے۔ اس بارے میں عبد السلام سندیلوی لکھتے ہیں:
” حالی اس دور کی پیدوار تھے جب اصلاح کی ہوائیں ہندوستان کی فضاءمیں چل رہی تھیں اور حالی کے ہاتھ میں اس اصلاح کا جھنڈا تھا۔ اس لیے حالی سرسید کے کردار میں خامیاں نکال ہی نہیں سکتے تھے۔ وہ سرسید کو ایک اعلیٰ نمونہ بنا کر پست قوم کے سامنے پیش کرنا چاہتے تھے۔ تاکہ اس میں دوبارہ ولولہ اور حوصلہ پیدا ہو سکے۔
شبلی کے اعتراضات کے متعلق پروفیسر عبد السلام آگے چل کر لکھتے ہیں
” حقیقت یہ ہے کہ سرسید کی تعریف یا مداحی شبلی کوناگواری گذری، کیونکہ آخر میں شبلی سرسید کو اپنا حریف سمجھنے لگے تھے۔ ابتداءمیں سرسید اور شبلی کے نظریات میں کچھ ہم آہنگی تھی۔ بعد میں شبلی سرسید کے نقطۂ نظر سے متفق نہ ہو سکے۔ اور انہی اختلافات کی بنیاد پر انھوں نے حیات ِ جاوید کو مدلل مداحی قرار دیا۔
اس متعلق آل احمد سرور لکھتے ہیں:” انھیں مصور (حالی ) پسند تھا، اس کی ایک تصویر ”حیات ِ جاوید“ پسند نہ تھی۔
اس لیے ان دلائل کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ حیات جاوید پر ہونے والے یہ اعتراضات زیادہ تر بے جاءہیں اور اس کتاب میں خامیوں سے زیادہ خوبیاں ہیں جو اس کتاب کی عظمت کی دلیل ہے۔
طوالت:۔
ترمیم”حیات ِ جاوید کی بے جاءطوالت اور ضخامت بھی گراں گزرتی ہے اور واقعات کی تکرار ذوقِ سلیم کو کھٹکتی ہے اور طوالت کا باعث بھی ہے۔ سب سے بڑی بات سوانح عمری میں تشریحی اندازِ بیان بھی محل ِ نظر ہے جو سوانح کے موضوع کے لیے موزوں نہیں ہے۔ اگرچہ علمی نقطہ نظر سے یہ تشریحی نوٹ اچھی بات ہے مگر سوانحی عمری کو تشریحی کتاب بنانے کی بجائے اسے ادبی درجہ دینا ہوتا ہے تاکہ قاری اسے پڑھتے ہوئے بوجھ محسوس کرنے کی بجائے اس سے حظ اُٹھائے۔ لیکن اس کے باوجود ہم اس کتا ب کو اردو ادب کی بہترین سوانح عمری میں شمار کرتے ہیں کیونکہ خامیوں سے زیادہ خوبیاں اس کتاب کی بنیادی خصوصیت ہے۔
مجموعی جائزہ:۔
ترمیم ”حیات ِ جاوید“ اردو زبان میں اپنی سوانح خوبیوں اور معنوی محاسن سے قطع نظر ادب آموزی اور تنقید و تبصرہ کی ایک یادگار تالیف ہے۔ جس میں حالی نے انتخاب مواد اور حسنِ اسلوب کے علاوہ تنقیدی شعو ر اور تجزیہ و تبصرہ نگاری کے بہترین نقو ش اجاگر کیے ہیں۔ جن کی رہنمائی میں مستقبل کے مصنف، مورخ اور او ر سوانح نگارکا کام آسان ہو گیا۔ مولانا حالی کے بارے میں ڈاکٹر سید عبد اللہ لکھتے ہیں:
” اردو میں سوانح نگاری بہت سے اہل قلم نے کی ہے مگر ان میں شایدکوئی بھی ایسا نہ تھا جس کے پاس سوانح نگار کا دل ہو، سوانح نگار کا دل صرف حالی کے حصہ میں آیا ہے۔“
مہدی افادی حیات جاوید کے بارے میں لکھتے ہیں:
”میرے نزدیک ”حیات ِ جاوید “ ایک حقیقی سوانح عمری ہے جو ایک شریف انسان نے اپنے سے شریف تر انسان کی لکھی ۔“