درانی خاندان
- اس کا شجرہ نصب نعمت اللہ ہروی نورزئی لکھتا ہیں کہ ترین بن شرجنون بن سربنی بن قیس کے تین لڑکے تھے۔ ایک کا رنگ کالا تھا، ترین نے اس کا نام ’تور‘ (کالا) رکھا۔ دوسرے کا رنگ گورا تھا، اس کانام سپین سفید رکھااور تیسرے کا نام اودل تھا۔[2] روایات کے مطابق ترین کے چار لڑکے سپین ترین، تور ترین، ژر ترین، بور ترین تھے۔ لیکن بور ترین کے لیے ابدالی کی اصطلاح رائج العام ہو گئی ہے اور کبھی کبھار یہ اصطلاح نورزئیوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو توبہ کے علاقہ تک محدود ہو گئے ہیں۔[3]
- معارف اسلامیہ میں ہے کہ ابتل یا ہفتل = (اودال و ابدال) = ھبطل و یقتل یعنی ہنوں سے ان کا نسلی تعلق ہے۔[4] مگر میرا گمان ہے کہ مسلمانوں کی آمد سے پہلے اس علاقے میں آباد ترک نژاد باشندے جو اوغو یا اوغہ کہلاتے تھے۔ (دیکھے۔ افغان) اس لیے غالب امکان یہی ہے کہ اوغہ + ال =اوغال یعنی اوغوں کی اولاد۔ یہ بعد میں رفتہ رفتہ امتداد زمانہ سے اودال ہو گیا۔ جس کا افغانوں کے لشکر میں ترین کے لڑکے کی حیثیت سے ذکر آیا ہے۔ بعد میں اودال کا ’و‘ ’ب‘ میں بدل گیا جس کا آریائی زبانوں میں عام رواج ہے۔
- پشتون قبیلہ ابدالی و درانی کی شاخوں کا اصل مرکز پنجپائی اور زیرک ہے جس کا اصل کردار احمد شاہ ابدالی کی تاجپوشی سے شروع ہوتا ہے جب سردار نصراللہ خان نورزئی نے احمد شاہ کو افغان باچا۔بادشاہ۔ مقرر کیا تو بہت سے سرداروں نے احمد شاہ کو بادشاہ ماننے سے انکار کر دیا لیکن سردار نصراللہ خان نورزئی ایک طاقتور اور اثر رسوخ والا سردار تھا اس لیے باقی سرداروں نے تھوڑی سی پیچ و خم کہا کر احمد شاہ کے ہاتھ پر بیعت کی احمد شاہ کو اس کی رسم تاجپوشی کے وقت دُر دوران کا خطاب سردار نصراللہ خان نورزئی نے دیا اُس وقت کے بعد سے احمد شاہ ابدالی احمد شاہ درانی کہلانے لگے اور اسی نسبت سے احمد شاہ کی اولاد بھی درانی کہلانے لگی
جنرل سردار احمد خان نورزئی ایک افغان سردار تھا سردار احمد خان نورزئی کیساتھ 1765ء میں افغان پشتون فوج کی جوانوں کی چالیس ہزار دسته تھاسردار احمد خان نورزئی نے 1765ء میں کندهار سے لشکرکشی شروع کی اور ملتان کے سارے علاقوں کو فتح کی اور احمدپور شرقیه جنرل احمد خان نورزئی کے نام پر بنایا گیا افغان تاریخ میں سردار احمد خان نورزئی کو ایک عزت کی نگاه سے دیکھا جاتاهے
حاجی خان مندهانی کی بغاوت جنرل احمد خان نورزئی کا یلغار ترميم
بمطابق1765 میں گڑھی اختیار خان کے رئیس حاجی خان مندهانی نے گڑ بڑ پیدا کی اور شجاع الملک نے احمد خان نورزئی کو اس کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔ احمد خان نورزئی نے دریائے سندھ پار کیا اور ساہنووالا و نوشہرہ کے قلعوں پرقبضہ کیا۔ اگرچہ حاجی خان نے اظہار اطاعت کر دیا لیکن نواب احمد خان نورزئی نے اس کے ماتحت علاقوں کا الحاق کر لیا اور صرف اس کے علاقے کا غیر مفتوحہ حصہ ہی چھوڑا۔ 1768 میں تیمور شاہ کا پانچواں بیٹا شاه شجاع الملک ڈیرہ جانے کے امور سلجھانے کے لیے دریائے سنده کی جانب بڑھا اور مخدوم حامد بخش ، فضل علی خان ہالانی، اسلام خان کہرائی اور حاجی خان مندهانی نواب احمد خان نورزئی کے خلاف شکایات کے ساتھ راجن پور میں اس کے منتظر تھے۔ انھوں نے اصرار کیا کہ ان کے مفتوح علاقے نواب سے واپس لیے جائیں ۔ شجاع الملک نے احمد خان نورزئی کو ان علاقوں کا نواب بنایا اور ڈھاکا کا علاقہ احمد خان نورزئی کے حوالے کیا لیکن احمد خان نورزئی جلد ہی کابل واپس آیا اور حاجی خان کو اپنی بے وفائی کا خمیازہ بھگتنا پڑا، کیونکہ احمد خان نورزئی نے ڈھاکا پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور گڑھی اختیار خان کا محاصرہ کرنے کے لیے ایک دستہ روانہ کیا۔ محاصرے سے ہیبت زدہ حاجی خان مندهانی نے رضامندی دے دی کہ اختیار واہ سے مشرق کی طرف اس کے علاوہ علاقہ نواب احمد خان نورزئی کی اقلیم میں شامل کر دیا جائے گا اور صرف مغربی طرف کا علاقہ اس کے پاس رہے گا۔ بایں ہمہ 1769ء میں حاجی خان نے فضل علی خان ہالانی اور قادر بخش خان کہرانی نے دوبارہ بغاوت کر دی اور 14 محرم کو سردارگڑھ پر قبضہ کر لیا، جس پرنواب احمد خان نورزئی نے ناصر خان گوریج اور فتح محمد خان غوری کی زیر قیادت ایک فوج بھیجی تا کہ گڑھی اختیار خان پر حملہ کیا جا سکے۔ 21 محرم کو ہونے والی لڑائی میں باغیوں نے خود کو قلعے میں بند کر لیا۔ طویل محاصرے کے بعد نواب کے کمانڈروں نے گڑھی اختیار خان کے بالمقابل ایک قلعہ تعمیر کیا اور اس کا نام فتح گڑھ رکھا۔ 20 ربیع الثانی کو اس قلعے سے توپوں نے گڑھی اختیار خان پر اس قدر زبردست گولہ باری کی کہ محصورین صلح کی بات چیت کرنے پر مان گئے اور نواب نے ان پر درج ذیل شرائط عائد کیں حاجی خان مندهانی ، اس کے بیٹے اور بھائی پیش ہو کر اظہار اطاعت کریں گے۔ گڑھی اختیار خان کے قلعے کی ایک دیوار بالکل مسمار کر دی جائے گی حاجی خان جنگ کے زرتلافی کے طور پر دو لاکھ روپے ادا کرے گا۔ اس کے بیٹوں میں سے ایک نواب کے دربار میں بطور یرغمال رہے گا۔ گڑھی اختیار خان کا کاردار تعینات کرنے کا اختیار نواب کے پاس رہے گا اور اس کے حصولات مساوی تقسیم ہوں گے۔ حاجی خان نے شروع میں تو ان شرائط کومسترد کر دیا لیکن انجام کار ناصرخان نے اسے پکڑ کر فتح گڑھ کے قلع میں قید کر دیا۔ فضل علی خان ہالانی اور دیگر سرداروں نے میدان جنگ چھوڑ دیا اور 29 رمضان کو ناصر خان نے گڑھی اختیار کے قلعے کو زمین کے برابر کیا اور پھر احمد پور ایسٹ / اشرقیہ احمد خان نورزئی کے نام کر دیا اورواپس آ گیا۔ یوں گڑھی اختیار کا علاقہ نواب احمد خان نورزئی کی اقلیم میں شامل ہو گیا۔* ابدالیوں نے ہی موجودہ افغانستان کی بنیاد رکھی تھی۔ احمد شاہ ابدالی المعروف درانی اس مملکت کا بانی تھا اور افغانستان کی تاریخ کا سب سے بڑا حکمران گذرا ہے۔ اس کی مملکت کی حدودیں 1773ء میں جب وہ فوت ہوا تو دریائے آمو سے لے کر دریائے سندھ اور تبت سے لے کر خراسان تک پہلی ہوئی تھیں۔ مگر اس کے جانشین اس عظیم الشان سلطنت کو نہیں سنبھال سکے اور یہ موجودہ افغانستان تک محدود رہے گئی۔[5]