رشوت بد عنوانی کی ایک قسم ہے جس میں پیسے یا تحفہ دینے سے وصول کنندہ کا طرزِ عمل تبدیل ہوتا ہے۔ رشوت کو جُرم سمجھا جاتا ہے۔ قانونی لغتی معنوں میں کسی سرکاری افسر یا کسی عوامی یا قانونی امور کے مجاز کے عمل کو متاثر کرنے کے لیے کسی قدر کی شے کی پیشکش، دینا، وصولی یا مانگنا رشوت کہلاتا ہے۔ رشوت کا مقصد وصول کنندہ کے اعمال پر اثر انداز ہونا ہوتا ہے۔ رشوت پیسہ، چیز، جائداد، ترجیح، استحقاق، معاوضہ، قدر کی شے، فائدہ یا محض کسی سرکاری یا عوامی اہلکار کے عمل یا ووٹ پر اثر انداز ہونے یا ترغیب دینے کا وعدہ یا عہد، کسی بھی شکل میں دی جا سکتی ہے۔

بدعنوانی کے خلاف اقوام متحدہ کا کنونشن

کسی صاحب اختیار مال پیش کرنا تاکہ وہ اس کے حق میں یا اس کے مخالف کے خلاف فیصلہ دے۔شریعت میں جس کام کا معاوضہ لینا درست نہ ہو یعنی اپنے فرض منصبی کی ادائیگی پریا اس کے ترک کرنے پرکسی سے کچھ معاوضہ لینا رشوت کہلاتا ہے۔

آسان الفاظ میں رشوت اس مال کو کہتے ہیں، جو کسی کے حق کو باطل کرنے کے لیے یا کسی باطل کو حاصل کرنے کے لیے دیا جائے۔

رشوت کے عام ہونے کی وجہ

ترمیم

جب عدل و انصاف ختم ہو جائے اور لوگوں کو ان کے حقوق جائز طریقے سے نہ مل سکی تو یقینا رشوت کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔

اسلام کی روشنی میں رشوت

ترمیم

رشوت کا وبال

ترمیم

رشوت خوروں کے متعلق ارشاد ربانی ہے: أَکَّالُونَ لِلسُّحْت [1]

یہ لوگ سُحت کھانے والے ہیں۔
سُحت کے لفظی معنی کسی چیز کو جڑ، بنیاد سے کھود کر برباد کرنے کے ہیں۔ اس معنی میں قرآن کریم نے فرمایا: فَیُسحتکم بعذاب

اگر تم اپنی حرکت سے باز نہ آؤ گے تو الله تعالیٰ اپنے عذاب سے تمہارا استیصال کر دے گا، یعنی تمہاری جڑ، بنیاد ختم کر دی جائے گی ۔
قرآن مجید میں اس جگہ لفظ سُحت سے مراد رشوت ہے، حضرت علی نے اس کی تفسیر رشوت کی ہے۔

اثرات

ترمیم

رشوت کو سُحت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف لینے دینے والوں کو برباد کرتی ہے، بلکہ پورے ملک وملت کی جڑ، بنیاد اورامن عامہ کو تباہ کرنے والی ہے۔ جس ملک یا محکمہ میں رشوت چل جائے، وہاں قانون معطل ہو کر رہ جاتا ہے اور قانونِ ملک ہی وہ چیز ہے، جس سے ملک و ملت کا امن برقرار رکھا جاتا ہے، وہ معطل ہو گیا ، تو نہ کسی کی جان محفوظ رہتی ہے ، نہ آبرو، نہ مال۔ اس لیے شریعتِ اسلام میں اس کو سُحت فرماکر اشد حرام قرار دیا ہے اور اس کے دروازہ کو بند کرنے کے لیے امرا وحکام کو ہدیے اور تحفے پیش کیے جاتے ہیں، ان کو بھی صحیح حدیث میں رشوت قرار دے کر حرام کر دیا گیا ہے ۔

رشوت کے عمل کا انجام

ترمیم

الراشی والمرتشی کلاھما فی النار

ترجمہ: رشوت دینے والا رشوت لینے والا دونوں آگ میں ہیں

اس حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے رشوت لینے اور دینے کو حرام قرار دیا ہے۔

نبی اکرم ﷺ نے رشوت دینے والے اور لینے والوں دونوں کو جہنمی قرار دیا جب کہ دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ گویا دونوں اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔

اس حدیث کا عملی زندگی سے تعلق

ترمیم

آپ ﷺ نے علم کی قباحت کے پیش نظر اس بات پر عمل پیرا ہونے والوں کو جہنم کی وعید سنائی ہے۔ کیونکہ رشوت لینا اور دینا دونوں ایسے جرائم ہیں، جو معاشرے میں دیگر کئی خرابیوں کی جڑ ہیں۔اسی لیے آپ ﷺ نے بڑی سختی سے اپنی امت کو اس کے برے انجام سے آگاہ فرما دیا تاکہ مسلمان اس لعنت سے بچ سکیں۔

 
رابرٹ کلائیو نے میر جعفر کو رشوت دے کر 1757ء میں جنگ پلاسی کے میدان میں سراج الدولہ کو شکست دی اور اس کے بعد میر جعفر کو بنگال کا نواب بنا دیا۔

دنیا میں رواج

ترمیم

دنیا کے مختلف حصوں میں بعض قسم کی رشوت کو قدرے قبولیت حاصل ہے۔ مثلاً امریکا میں سیاست دانوں کو نقد رقوم بطور سیاسی مدد دی جا سکتی ہیں جو بعض دوسرے ممالک میں غیر قانونی رشوت تصور ہوگی۔ عرب ممالک میں اہلکاروں کو "بخشش" ادا کی جاتی ہے جو غیر قانونی نہیں سمجھی جاتی۔ بد ترین قسم کی رشوت وہ ہے جو قیدیوں کے لواحقین سے وصول کی جاتی ہے اور اس کے بدلے قیدیوں سے بدسلوکی نہیں کی جاتی۔ اس کا رواج پرانے زمانہ میں برطانیہ جیسے ممالک میں بھی رہا ہے[2] اور موجودہ زمانہ میں پاکستان اور ہندوستان جیسے ممالک میں بھی ملتا ہے۔[3]

 
زیمبیا میں رشوت کی روک تھام کے لیے مہم

فہرست متعلقہ مضامین برازیل

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. (المائدہ:42)
  2. neal stephenson, "The System of the World (The Baroque Cycle, Vol. 3)", 2004
  3. بی بی سی، 24 جون 2010ء "دعا کرو مجھے موت آجائے"