رقیہ بنت محمد
رُقَیۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم (24ق.ھ / 2ھ) آپ اعلان نبوت سے سات برس پہلے جب کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عمر شریف کا تینتیسواں سال تھا پیدا ہوئیں اور ابتدا اسلام ہی میں مشرف بہ اسلام ہو گئیں۔ پہلے آپ کا نکاح ابولہب کے بیٹے ”عتبہ” سے ہوا تھا لیکن ابھی آپ کی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ ”سورہ تبت یدا” نازل ہو گئی۔ ابو لہب قرآن میں اپنی اس دائمی رسوائی کا بیان سن کر غصہ میں آگ بگولا ہو گیا اور اپنے بیٹے عتبہ کو مجبور کر دیا کہ وہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو طلاق دے دے۔ چنانچہ عتبہ نے طلاق دے دی۔ اس کے بعد حضور اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کر دیا۔ نکاح کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ساتھ لے کر مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی پھر حبشہ سے مکہ واپس آ کر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اور یہ میاں بیوی دونوں ”صاحب الہجرتین” (دو ہجرتوں والے)کے معزز لقب سے سرفراز ہو گئے۔ جنگ ِ بدر کے دنوں میں حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بہت سخت بیمار تھیں۔ چنانچہ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جنگ ِ بدر میں شریک ہونے سے روک دیا اور یہ حکم دیا کہ وہ حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تیمارداری کریں۔حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس دن جنگ ِ بدر میں مسلمانوں کی فتح مبین کی خوشخبری لے کر مدینہ پہنچے اسی دن حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیس سال کی عمر پا کر وفات پائی۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ ِ بدر کے سبب سے ان کے جنازہ میں شریک نہ ہو سکے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ جنگ ِ بدر میں شریک نہ ہوئے لیکن حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو جنگ ِ بدر کے مجاہدین میں شمار فرمایا اور جنگ ِ بدر کے مالِ غنیمت میں سے ان کو مجاہدین کے برابر حصہ بھی عطا فرمایا اور شرکاء جنگ ِ بدر کے برابر اجر عظیم کی بشارت بھی دی۔ حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شکم مبارک سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک فرزند بھی پیدا ہوئے تھے جن کا نام ”عبدﷲ” تھا۔ یہ اپنی ماں کے بعد سن 4ھ میں چھ برس کی عمر پا کر انتقال کرگئے۔[5][6]
رقيّة بنت محمد | |
---|---|
بنت محمد بن عبد الله بن عبد المطلب | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 598ء [1][2] مکہ [1][2] |
وفات | 14 مارچ 624ء (25–26 سال) مدینہ منورہ |
مدفن | جنت البقیع، مدینہ منورہ |
لقب | ذات الهجرتين |
شوہر | عثمان بن عفان |
اولاد | عبد اللہ بن عثمان بن عفان (مات صغيرًا) |
والد | محمد بن عبداللہ [3][4] |
والدہ | خدیجہ بنت خویلد [3][4] |
بہن/بھائی | |
رشتے دار | والد: محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم والدہ: خدیجہ بنت خویلد بھائی اور بہنیں: القاسم، عبد الله، ابراہيم، ام كلثوم، زينب، فاطمہ الزهراء |
عملی زندگی | |
تاریخ قبول اسلام | من السابقين |
درستی - ترمیم |
مقالہ بہ سلسلۂ مضامین اولادِ محمد |
حضرت محمد کے بیٹے |
حضرت محمد کی بیٹیاں |
حضرت فاطمہ کی اولاد |
بیٹے |
حضرت فاطمہ کی اولاد |
بیٹیاں |
اہل سنت اور اہل تشیع کا نظریہ
اہل سنت کی نظر میں رقیہ پیغمبر اکرمؐ اور خدیجہ کی اولاد میں سے ہیں۔[7]لیکن شیعہ علما سے رقیہ کے نسب کے بارے میں تین نظریات منقول ہوئے ہیں:
- رقیہ، (عثمان کی زوجہ) خدیجہ کی بہن ہالہ کی بیٹی اور پیغمبر اکرمؐ کی لے پالک بیٹی تھی جبکہ پیغمبر اکرمؐ کی بیٹی رقیہ بعثت کے بعد متولد ہوئی ہے۔[8]
- رقیہ، خدیجہ کی بیٹی ہے، پیغمبر کی نہیں، چونکہ خدیجہ کی پیغمبر اکرمؐ سے شادی سے پہلے کسی اور سے شادی ہو چکی تھی۔
- رقیہ پیغمبر اکرمؐ اور حضرت خدیجہ کی بیٹی تھی۔
نام و نسب
حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صاحبزادی ہیں۔اور یہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے چھوٹی ہیں۔حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ کا نام حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت خویلد بن اسد ہے۔یہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے تین برس بعد پیدا ہوئیں۔اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک تقریبا تینتیس برس تھی۔مشہور روایت کے مطابق یہ رسول اللہ ﷺ کی دوسری صاحبزادی ہیں جو 33ھ ہجری قبلِ نبوّت میں پیدا ہوئیں۔ [9]
اسلام
حضرت رقیہ بنت محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوش میں پرورش پائی۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو اس وقت حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر سات سال تھی۔جب حضر ت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اسلام قبول کیا۔تو ان کے ساتھ آ پکی صاحبزادیوں نے بھی اسلام قبول کیا۔تو ابولہب نے بیٹوں کو جمع کرکے کہا: ’’ اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں سے علیحدگی اختیار نہیں کرتے تو تمھارے ساتھ میرا اُٹھنا بیٹھنا حرام ہے، دونوں بیٹوں نے باپ کے حکم کی تعمیل کی۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی شادی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کردی۔ [10][11]
شادی اور ہجرت
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی پہلے ابولہب کے بیٹے عتبہ سے شادی ہوئی یہ قبلِ نبوّت کا واقعہ ہے، آنحضرت ﷺ کی تیسری صاحب زادی اُمّ کلثومؓ کی شادی ابولہب کے دوسرے بیٹے عُتیبہ سے ہوئی تھی۔ رقیہ نے عتبہ بن ابی لہب سے شادی کی لیکن «تَبَّتْ یدَا أَبِی لَہَبٍ وَتَبَّ»،[12] نازل ہونے کے بعد عتبہ نے اپنے باپ کے حکم سے رقیہ کو طلاق دی۔[13] اس کے بعد پھر عثمان بن عفان سے شادی کی اور ان کے ساتھ حبشہ کو ہجرت کی۔ آنحضرتؐ کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے وقت وہ بھی حبشہ سے مدینہ آئی۔[14]
تاریخِ اسلام کی کتابوں میں رقیہ اور عثمان بن عفان سے عبد اللہ نامی ایک بیٹے کا ذکر ہوتا ہے جو بچپنے میں ہی فوت ہوا۔[15]
جب خدیجہ پیغمبر اکرمؐ پر ایمان لے آئیں تو رقیہ بھی مسلمان ہوئیں اور جب خواتین نے آنحضرتؐ کی بیعت کی تو رقیہ نے بھی ان کے ساتھ بیعت کی۔[16]
رسول اللہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کی نبوت سے قبل ابو لہب کے بیٹے عتبہ سے رقیہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کا نکاح ہوا لیکن رخصتی سے قبل ہی طلاق ہوئی۔ جس کے لیے ایک روایت یہ ہے کہ اسلام مخالفت کی بنا پر ہوئی اور ایک روایت کے مطابق عتبہ نے اپنے والدین کے اظہار ناراضی پر طلاق دی۔
آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نبوت کے منصب پر فائز ہوئے تو رقیہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ عثمان غنی رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے بھی ابتدائی سالوں میں اسلام قبول کیا تھا۔ ان کے اسلام لانے کے بعد رقیہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کا نکاح عثمان غنی رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سے ہو گیا۔
نبوت کے پانچویں سال پہلی ہجرت حبشہ میں یہ رقیہ اور عثمان بھی شامل تھے۔ حبشہ میں ایک عرصے تک رہنے کے بعد دونوں مکہ گئے لیکن تھوڑے دن بعد مدینہ منورہ چلے گئے۔
رقیہ سے ایک بیٹے عبد اللہ پیدا ہوئے لیکن کم عمری میں انتقال کیا۔ اس کے بعد کوئی اولاد نہ ہوئی۔ 2 ہجری میں غزوۂ بدر کے موقع پر رقیہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا بیمار تھیں۔ ان کی تیمار داری کی خاطر عثمان رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا غزوہ میں شریک نہ ہو سکے اور اسی سال آپ کا انتقال ہو گیا۔
اظہار نبوت سے سات برس قبل جب کہ حضور ﷺ کی عمر شریف کا تینتیسواں سال تھا یہ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں پہلے ان کا نکاح ابولہب کے بیٹے عتبہ سے ہوا تھا مگر ابھی رخصتی بھی نہیں ہوئی تھی کہ سورۂ تبت یدا نازل ہوئی اس غصہ میں ابو لہب کے بیٹے عتبہ نے رقیہ کو طلاق دے دی اس کے بعد حضور اکرم ﷺ نے عثمان غنی سے ان کا نکاح کر دیا اور ان دونوں میاں بیوی نے حبشہ کی طرف اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کی اور دونوں صاحب الہجرتین (دو ہجرتوں والے) کے معزز لقب سے سرفراز ہوئے۔[17][18][19][20] ,[21][19][20]
مدینہ کی طرف ہجرت
جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا کہ نبہ کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف ہجرت فرمانے والے ہیں تو حضرت عثمان چند صحابہ کرام کے ساتھ مکہ آئے اسی دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے جا چکے تھے ۔ ہجرت حبشہ کے بعد حضرت عثمان ہجرت مدینہ کے لیے تیار ہو گئے اور اپنی بیوی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سمیت مدینہ کی طرف دوسری ہجرت فرمائی ۔ [22] جنگ بدر کے دنوں میں رقیہ زیادہ بیمار تھیں چنانچہ حضور ﷺنے عثمان کو ان کی تیمارداری کے لیے مدینہ میں رہنے کا حکم دے دیا اور جنگ بدر میں جانے سے روک دیا۔ زید بن حارثہ جس دن جنگ بدر میں فتح مبین کی خوشخبری لے کر مدینہ پہنچے اسی دن بی بی رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے بیس برس کی عمر پاکر مدینہ میں انتقال کیا۔ حضور ﷺ جنگ بدر کی وجہ سے ان کے جنازہ میں شریک نہ ہو سکے۔ عثمان غنی اگر چہ جنگ بدر میں شریک نہیں ہوئے مگر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کو جنگ بدر کے مجاہدین میں شمار فرمایا اور مجاہدین کے برابر مال غنیمت میں سے حصہ بھی عطا فرمایا ۔[23][24]
وفات
2ھ ہجری میں جو غزوۂ بدر کا سال تھا۔ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے دانے نکلے اور نہایت سخت تکلیف ہوئی، آنحضرت ﷺ اس زمانہ میں بدر کی تیاریاں کر رہے تھے۔ غزوہ کو روانہ ہوئے تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو تیمار داری کے لیے چھوڑ دیا ۔ عین اسی دن جس دن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں آکر فتح کا مژدہ سنایا، حضرت رقیہؓ نے وفات پائی۔ آنحضرت ﷺ غزوہ کی وجہ سے ان کے جنازہ میں شریک نہ ہو سکے لیکن جب واپس آئے اور اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو نہایت رنجیدہ ہو کر قبر پر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: ’’عثمان ابن مظعونؓ پہلے جاچکے اب تم بھی ان کے پاس چلی جاؤ۔‘‘ اس فقرہ نے عورتوں میں کہرام برپا کر دیا حضرت عمرؓ کوڑا لے کر مارنے کے لیے اُٹھے، آپ نے ہاتھ پکڑلیا اور فرمایا: ’’رونے میں کچھ حرج نہیں لیکن نوحہ و بین شیطانی حرکت ہے اس سے قطعاً بچنا چاہیے۔‘‘ سیّدۂ عالم حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا بھی بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئیں وہ قبر کے پاس بیٹھ کر روتی جاتی تھیں اور آنحضرتﷺ کپڑے سے ان کے آنسو پونچتے جاتے تھے۔ [25] رقیہ دو ہجری، رمضان میں جنگ بدر کے فتح کے دن وفات پائی۔[26] [17][27][28][20]
اولاد
حبشہ کے زمانہ میں ایک لڑکا پیدا ہوا تھا جس کا نام عبد اللہ تھا، حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ کی کنیت ابو عبد اللہ اسی کے نام پر تھی چھ سال تک زندہ رہا۔ ایک مرتبہ ایک مرغ نے اس کے چہرہ پر چونچ ماری اور جاں بحق تسلیم ہو گیا، یہ جمادی الاولیٰ 4ھ ہجری کا واقعہ ہے۔ عبد اللہ کے بعد حضرت رقیہ بنت محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
حلیہ
حضرت رقیہ بنت محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہا خوب رو اور موزون اندام تھیں۔ زرقانی میں ہے: کَانَتْ بَارِعَۃَ الْجَمَالِ۔ ’’وہ نہایت جمیل تھیں۔‘‘ [29] [30] [31]
مقام دفن
پیغمبر اکرمؐ کے کہنے پر رقیہ کو بقیع میں دفن کیا۔[32] بقیع میں ائمہ بقیع کے مقبرے کے شمال اور ازواج نبی کے مقبرے کے جنوب مغرب میں پیغمبر اکرمؐ کی بیٹیوں سے منسوب ایک مقبرہ تھا جس پر قدیم زمانے میں ایک ضریح بھی نصب تھی۔[33]
مزید دیکھیے
حوالہ جات
- ^ ا ب https://www.wikitree.com/wiki/Bint_Muhammed-1 — اخذ شدہ بتاریخ: 14 جون 2019
- ^ ا ب https://www.wikitree.com/wiki/Bint_Muhammed-1 — اخذ شدہ بتاریخ: 16 جولائی 2019
- ^ ا ب عنوان : Рукайя бинт Мухаммад
- ^ ا ب عنوان : Хадиджа бинт Хувайлид
- ↑ (زرقانی جلد 3 ص198 تا 199)
- ↑ أبو نعيم الأصبهاني (1998)۔ معرفة الصحابة۔ السادس (الأولى ایڈیشن)۔ دار الوطن۔ صفحہ: 3197
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، 1412ق، ج4، ص1839.
- ↑ عاملی، الصحیح من سیرہ النبی، 1402ق، ج1، ص125-123.
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، 1412ق، ج4، ص1839.
- ↑ ( طبقات ابن سعد ج 8 ص 24 ۔ الاصابہ لابن حجر )
- ↑ شهاب الدين القسطلاني۔ المواهب اللدنية بالمنح المحمدية۔ مصر: المكتبة التوفيقية۔ صفحہ: 479-480، جزء 1۔ 31 مايو 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مايو 2015
- ↑ مسد، آیہ1
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ق، ج1، ص401.
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، 11412ق، ج3، ص1038 و ج4، ص1139-1140؛ کحّالہ، اعلام النساء، 1412ق، ج1، ص457؛ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1418ق، ج8، ص35.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1418ق، ج8، ص35؛ ابن عبد البر، الاستیعاب، 1412ق، ج4، ص1840 و ج3، ص1037.
- ↑ صالحي دمشقي، سبل الہدى و الرشاد، 1414، ج11، ص33.
- ^ ا ب ابن عبد البر (1992)۔ الاستيعاب في معرفة الأصحاب (الأولى ایڈیشن)۔ لبنان: دار الجيل۔ صفحہ: 1839-1843، جزء 4۔ 2 مايو 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مايو 2015
- ↑ Ibn Ishaq/Guillaume pp. 146, 314.
- ^ ا ب Ibn Saad/Bewley p. 25.
- ^ ا ب پ Tabari/Landau-Tasseron p. 162.
- ↑ Ibn Ishaq/Guillaume p. 146.
- ↑ الاصابہ لابن حجر ج 4 ص 298
- ↑ شرح العلامۃ الزرقانی، الفصل الثانی فی ذکر اولادہ الکرام علیہ وعلیہم الصلوۃ والسلام، ج4،ص322۔323
- ↑ جنتی زیور، عبد المصطفٰی اعظمی، صفحہ501،ناشرمکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، 1412ق، ج3، ص 1038.
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، 1412ق، ج3، ص1038.
- ↑ Ibn Ishaq/Guillaume p. 328.
- ↑ Muhammad ibn Umar al-Waqidi. Kitab al-Maghazi. Translated by Faizer, R., Ismail, A., & Tayob, A. K. (2011). The Life of Muhammad, p. 51. Oxford & New York: Routledge.
- ↑ استيعاب ج 2 ص ٤٧
- ↑ طبقات ابن سعد ج ٨ ص ٢٤ واسد الغابه ج ٥ ص 456 ، 457
- ↑ زرقانی ج ٣ ص ٢٦٢
- ↑ ابن شبہ، تاریخ المدینة المنورہ، 1410ق، ج1، ص103؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1418ق، ج8، ص37.
- ↑ جعفریان، پنجاہ سفرنامہ حج قاجاری، 1389ش، ج5، ص241.
مآخذ
- ابن سعد، الطبقات الكبری، بہ كوشش محمد عبد القادر، بیروت، دارالكتب العلمیہ، 1418ق.
- ابن شبّہ، تاریخالمدینةالمنورہ، بہ كوشش شلتوت، قم، دارالفكر، 1410ق.
- ابن عبد البر، یوسف بن عبد اللہ،الاستیعاب فی معرفة الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دارالجیل، ط الأولی، 1412/ق1992م.
- امین، سید محسن، أعیانالشیعة، تحقیق حسن الأمین، دارالتعارف للمطبوعات، بیروت، بی تا.
- بلاذری، احمدبن یحیی بن جابر، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زكار و ریاض زركلی، بیروت، دارالفكر، 1417ق.
- جعفریان، رسول، پنجاہ سفرنامہ حج قاجاری، تہران، نشر علم، 1389ش.
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تہران، دارالكتب الإسلامیہ، 1365ش.
- سیوطی، جلال الدین، تاریخ الخلفا، محقق حمدی الدمرداش، بی جا، مکتبة نزار مصطفی الباز، 1425ق.
- صالحی دمشقی، سبل الہدى و الرشاد، بیروت، دارالکتب العلمیة، 1414ق.
- عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیرةالنبی الاعظم، قم، انتشارات جامعہ مدرسین، 1402ق.
- کحّالہ، عمر رضا، اعلام النساء، بیروت، موسسة الرسالة، طبعة العاشرة، 1412ق/1991م.
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق علی اکبر غفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1407ق.
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، موسسہ وفا، الطبعة الثانية، 1403ق.