منصف جنوبی بھارت کے شہر حیدرآباد سے شائع ہونے والا روزنامہ اخبار ہے۔ اس کے مدیر اعلٰی خان لطیف خان ہیں۔[1]

خان لطیف خان اسٹیٹ، جس میں کہ منصف کا دفتر واقع ہے۔

تاریخ

ترمیم

روز نامہ منصف کا آغاز محمود انصاری کی کاوشوں کا نتیجہ۔ وہ ایک پیدائشی قلم کار تھے۔ اپنی جوانی کے دور میں وہ بچوں کے لیے رسالہ بھی نکالتے تھے۔ حالاں کہ منصف اخبار حیدرآباد کے جانے مانے اردو اخبارات میں ایک تھا، مگر پزیرائی اور حلقۂ مطالعہ میں وہ سیاست اخبار کے ہم پلہ نہیں تھا۔ اس وجہ منصف کی ابتداًا اشاعت محدود تھے۔ اخبار کا عملہ بھی سیاست کے مقابلے کافی کم تھا۔ اخباری نمائندے، ضمیمے اور اسی طرح دیگر امور میں اخبار سیاست اس پر حاوی تھا۔ چوں کہ محمود انصاری اس اخبار کے مدیر اور اہم فیصلہ ساز شخص تھے، اس وجہ سے اس اخبار کے مالکانہ حقوق انھی کے پاس تھے۔ محمود انصاری لا ولد تھے۔ ان کی وفات کے بعد یہ حقوق ان کے بھائی مسعود انصاری کے پاس منتقل ہوئے۔ ان کی موت کے بعد یہ اخبار خان لطیف خان کو فروخت کیا گیا جو اس کے مدیراعلٰی بن گئے تھے۔

منصف کے ذریعے اردو صحافت کا نیا باب

ترمیم

خان لطیف خان بنیادی طور پر ایک صنعت کار ہیں۔ وہ ایک متمول غیر مقیم بھارتی بھی ہیں۔ وہ صحافت کے میدان میں اپنی ایک چھاپ چھوڑنے کے خوہش مند تھے، حالاں کہ دنیائے قلم سے ان کا خاص تعلق نہیں تھا۔ اس وجہ سے انھوں نے منصف اخبار میں اپنا کافی سرمایہ لگایا۔ 1990ء کے دہے سے پہلے اردو اخبارات میں صرف کاتبوں کے حسن خطاطی پر زور تھا۔ لطیف خان نے ارادہ ظاہر کیا کہ ان کی ادارت میں اخبار کمپیوٹر کے ذریعے چھاپا جائے۔ اس کے علاوہ اردو اخبارات میں رنگین صفحات بھی کم ہی ہوتے تھے۔ انھوں ںے کہا کہ اخبار رنگین صفحات پر مشتمل ہوگا۔ حیدرآباد کے اردو اخبارات میں صرف اتوار، عید اور کچھ خاص مواقع جیسے کہ بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر ضمیمے نکالے جاتے تھے۔ خان لطیف خان اسے ایک یومیہ کارروائی بنا دی۔ مہمان کالموں اور سنڈی کیٹ کالموں کو خاص جگہ دی۔ کئی اہم موضوعات، مثلًا کیریئر کی رہنمائی پر بھی خاص توجہ دی۔ اپنے صحافیوں کی تنخواہوں میں زبر دست اضافہ کیا۔ یہ سارے اصلاحات 1995ء سے رو بہ عمل لائے گئے۔ ان میں سے کئی اقدامات سیاست اخبار منصف اخبار کے نشاۃ ثانیہ کی خبر سننے کے ساتھ ساتھ رو بہ عمل لائے گئے۔

منصف اور سیاست اخبار کا تصادم

ترمیم

منصف کے نشاۃ ثانیہ کے ساتھ ساتھ سیاست اور منصف، دونوں اخباروں میں تصادم کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ منصف نے کئی سیاست کے تجربہ کار عملے کے افراد کو زیادہ اجرت پر ملازمت فراہم کی۔ یہ سلسلہ ایک کچھ عرسے تک جاری رہا۔ تاہم جب سیاست کے مدیر زاہد علی خان حیدرآباد، دکن کے پارلیمانی حلقے پر اسد الدین اویسی کے مد مقابل کھڑے ہوئے تھے، تب منصف اخبار ان کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہوا۔[2] اس کے علاوہ دونوں سیاست اور منصف روزنامہ اعتماد سے سیدھے ٹکراتے ہیں، جو آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کا ترجمان ہے۔

منصف ٹی وی

ترمیم

خان لطیف خان نے اشاعتی ذرائع سے آگے برقی ذرائع ابلاغ میں قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے منصف ٹی وی متعارف کیا۔[3] یہ کہا گیا کہ یہ ٹی وی دنیا کے سو سے زیادہ ممالک میں دست یاب ہے۔ تاہم حیدرآباد کے عوام میں یہ چینل زیادہ مقبول نہیں ہے۔ مقامی کیبل آپریٹر اسے نشر نہیں کرتے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "آرکائیو کاپی"۔ 14 اگست 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 مئی 2018 
  2. http://www.thehindu.com/todays-paper/tp-national/tp-andhrapradesh/Zahid-Ali-Khan-to-contest-Hyderabad-Parliament-seat/article16328481.ece
  3. "آرکائیو کاپی"۔ 15 اگست 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 مئی 2018 

خارجی روابط

ترمیم