سجاد ظہیر
سید سجاد ظہیر (پیدائش: 5 نومبر 1905ء– وفات: 11 ستمبر 1973ء) پاک و ہند کے نامور اردو ادیب، انقلابی اور مارکسی دانشور تھے۔
سجاد ظہیر | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 5 نومبر 1905ء لکھنؤ |
وفات | 13 ستمبر 1973ء (68 سال)[1] الماتی |
شہریت | برطانوی ہند (–14 اگست 1947) پاکستان (15 اگست 1947–1955) بھارت (1955–) |
جماعت | کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا |
زوجہ | رضیہ سجاد ظہیر |
اولاد | نادرہ ببر |
عملی زندگی | |
مادر علمی | نیو کالج، اوکسفرڈ لکھنؤ یونیورسٹی جامعہ لندن |
پیشہ | مصنف ، سیاست دان ، شاعر |
مادری زبان | اردو |
پیشہ ورانہ زبان | اردو [2] |
تحریک | ترقی پسند تحریک |
درستی - ترمیم |
پیدائش
ترمیم5 نومبر 1905ء کو ریاست اودھ کے چیف جسٹس سر وزیر خاں کے گھر پیدا ہوئے۔
تعلیم
ترمیملکھنؤ یونیورسٹی سے ادب پڑھنے کے بعد والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انھوں نے برطانیہ جاکر آکسفورڈ یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور بیرسٹر بن کر لوٹے۔ یہاں انھوں نے قانون کے ساتھ ادب کا بھی مطالعہ کیا۔
عملی زندگی
ترمیمانھوں نے ’ترقی پسند رائٹرس ایسوسیشن ‘ (PWA)کی بنیاد رکھی ۔ ہندوستان لوٹتے ہی اپریل 1936 میں انھوں نے لکھنؤ میں PWA کی پہلی کل ہند کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں وہ پی ڈبلیو اے کے پہلے سیکریٹری منتخب ہوئے ۔ انھوں نے اردو میں پہلا مارکسی ادبی جریدہ ’چنگاری ‘ سوہن سنگھ جوش کے ساتھ مل کر شروع کیا اور سن 1935 میں ’لندن ‘ کی ایک رات نام کی ناول اور ’نقوش زنداں‘ ( جیل سے اپنی اہلیہ کو لکھے خطوط) مجموعہ سن 1940 میں شائع کیا۔
اس کے علاوہ انھوں نے ’روشنائی( 1956 )‘ ، ’ذکر حافظ (1958)‘، شاعری کا مجموعہ ’پگھلتے نیلم (1964)‘ جیسی کتابیں بھی شائع کیں۔ لیکن وہ ہمیشہ ایک کمیونسٹ پارٹی ورکر اور آرگنائزر کے طور پر کام کرتے رہے۔ چونکہ ان کے نہرو خاندان سے خاندانی تعلقات تھے اس وجہ سے انھوں نے تھوڑے عرصہ تک بطور سکریٹری جواہر لعل کے ساتھ 1930 کی دہائی میں کام کیا۔ لیکن وہ جلد ہی کانگریس پارٹی سے بے دخل کر دیے گئے جس کے بعد وہ باقاعدہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ارکان ہو گئے۔ جس کی سنٹرل کمیٹی کے بھی وہ رکن رہے
سرگرمیاں
ترمیمسجاد ظہیر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانی ارکان میں سے تھے۔ بعد ازاں 1948ء میں انھوں نے فیض احمد فیض کے ساتھ مل کر کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی بنیاد رکھی۔ دونوں رہنما بعد میں راولپنڈی سازش کیس کے تحت گرفتار کر لیے گئے۔ محمد حسین عطا اور ظفراللہ پشنی سمیت کئی افراد اس مقدمے میں گرفتار ہوئے۔ میجر جنرل اکبر خان اس سازش کے مبینہ سرغنہ تھے۔ 1954ء میں انھیں بھارت جلاوطن کر دیا گیا۔ وہاں انھوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین، انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن اور ایفرو ایشین رائٹرز ایسوسی ایشن کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ سجاد ظہیر ناصرف ان تینوں تنظیموں کے روح رواں تھے بلکہ ان کے بانیوں میں سے تھے۔
باقیات
ترمیمسال 2005ء کو دنیا بھر کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی طرف سے سجاد ظہیر کے صد سالہ سال پیدائش کے طور پر منایا گیا۔1932میں افسانوی مجموعہ “انگارے“ جس میں علی احمد، رشید خان، محمد الظفر اور سید سجاد ظہیر کے افسانے شامل تھے، برطانوی راج نے اہل ہندوستان کے مذہبی ابہامات کو نشانہ بنانے کے الزام میں ضبط کر لیا گیا۔
ان کی اہلیہ رضیہ سجاد ظہیر بھی اردو کی جانی پہچانی ناول نگار ہیں۔ ان کی چار صاحبزادیاں ہیں۔ ان کی صاحبزادی نادرہ ظہیر بائیں بازو کی سیاسی کارکن ہیں، ان کی شادی بالی ووڈ کے نامور فلمی ستارے اور سیاسی کارکن راج ببر سے ہوئی۔ آریہ ببر اور جوہی ببر ان کی اولادیں ہیں۔
ادبی آثار
ترمیم- ناول: “لندن کی ایک رات“
- “روشنی“، ترقی پسند ادب اور تحریک پر ادبی مضامین
- “ذکر حافظ“، فارسی شاعرحافظ پر ملفوظات۔
- “پگھلتا نیلم“، آخری شعری مجموعہ
وفات
ترمیمسجاد ظہیر نے 11 ستمبر 1973ء کو الماتے، (قازقستان)، جو تب سوویت یونین کا حصہ تھا، میں ایفرو ایشیائی مصنفین کی تنظیم کے ایک اجلاس کے دوران وفات پائی۔
تراجم
ترمیم- اوتھیلو
- کینڈائڈ
- گورا، (ٹیگور)
- “پیغمبر“، جبران خلیل جبران
مزید دیکھیے
ترمیم- ↑ ناشر: کتب خانہ کانگریس — ربط: کتب خانہ کانگریس اتھارٹی آئی ڈی — اخذ شدہ بتاریخ: 22 اکتوبر 2019
- ↑ عنوان : Identifiants et Référentiels — ایس یو ڈی او سی اتھارٹیز: https://www.idref.fr/112821170 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 مارچ 2020