سرسوں کا ساگ
سرسوں کا ساگ ایک مشہور سبزی پکوان ہے جو عموماً پاکستان اور بھارت کے خطۂ پنجاب نیز دیگر ملحقہ علاقوں میں پکایا جاتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے سرسوں کا ساگ پنجاب کے دیہاتیوں کی غذا تھا۔ اس پر گھر کے بنے مکھن کا تڑکا پنجاب کے زرخیز کھیتوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کے لیے غذائیت سے بھرپور بہترین کھانا ہوا کرتا تھا۔
مکئی کی روٹی اور سرسوں کا ساگ | |
کھانے کا دور | Main course |
---|---|
اصلی وطن | پاکستان اور بھارت |
بنیادی اجزائے ترکیبی | سرسوں کے پتے |
روایتی طور پر سرسوں کے ساگ میں مصالحے نہیں ڈالے جاتے بس ہلکا سا نمک، ادرک، پالک، ہری مرچ، سرسوں کا ساگ، میتھی اور بھتورا کے ساتھ ملا کر پکایا جاتا ہے۔ عموماً اسے ہلکی آنچ پر پانی میں پکاتے ہیں۔ سرسوں کا ساگ پکاتے وقت اسے اس وقت تک ہاتھ سے چلایا جاتا ہے جب تک اس میں مطلوبہ لطافت نہ پیدا ہو جائے۔اترپردیش میں لوگ ساگ کو پہلے ہلکا سا تلتے ہیں پھر اس میں ٹماٹر اور دہی ڈال کر پکاتے ہیں، اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس کا تیز چٹپٹا اور تلخ ذائقہ کم ہو جاتا ہے۔
ساگ
ساگ ایک سبز رنگ کی ڈھیٹ قسم کی سبزی ہوتا ہے، ڈھیٹ اس لیے جس گھر میں گھس جائے دو دو ماہ پڑا رہتا ہے، سردیوں کے کچھ ماہ تو اس کی حیثیت گھر کے فرد جیسی ہوجاتی ہے، ناشتے، لنچ اور ڈنر میں ماوں کو اتنی فکر اپنے بچوں کی نہیں ہوتی جتنی ساگ کی ہوتی ہے
ساگ اور روزے سال میں ایک مہینہ ہر مسلمان مرد عورت پہ فرض ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ سائنسی اعتبار سے دیکھا جائے تو ساگ میں کلیشیم، پوٹاشیم، فولاد، فاسفورس اور آلو کافی مقدار میں موجود ہوتے ہیں، اکثر قدامت پسند گھروں میں ساگ میں آلو نہ ڈالنا ساگ کی بلاسفیمی سمجھا جاتا ہے،
بعض گھروں میں تو اتنے برتن بھی نہیں ہوتے جتنی قسموں کا وہاں ساگ بنا ہوتا ہے، سردیوں میں اکثر فریج کھولیں تو آلو ساگ، قیمہ ساگ، چکن ساگ، میتھی ساگ اور اسی طرح کے چند اور ساگوں سے فریج ساگو ساگ ہوا ہوتا ہے۔ مشہور فیس بکی مورخ گل خان اپنے ایک سٹیٹس میں فرماتے ہیں کہ ساگ کو چاہے پانچ منٹ پکاو چاہے پانچ گھنٹے پکاو یہ اپنا رنگ نہیں بدلتا، اگر اس کے کچھ اور کلرز مارکیٹ میں لانچ کردیے جائیں تو یہ ایک اچھی سبزی ثابت ہو سکتا ہے۔ ساگ کے متعلق عورتیں اتنی ایموشنل ہوتی ہیں کہ اگر آپ اپنی امی کے سامنے ساگ کی برائی کر دیں تو وہ رو بھی سکتی ہے۔
فی زمانہ اگر کوئی فرد یہ دعوی کرتا ہے کہ اس نے کبھی ساگ نہیں کھایا تو یا تو وہ جھوٹ بول رہا ہے یا پھر اس کے رشتے دار پنجاب میں موجود نہیں ہیں، پنجاب کے ضلع جھنگ کی چوڑیاں، مولوی اور ساگ پورے ملک میں مشہور ہیں۔ اگر کوئی دور پرے کا رشتے دار مہمان بن کر آئے اور ساگ ساتھ نہ لائے تو پھر یا تو وہ رشتے دار نہیں رہتا یا پھر مہمان نہیں رہتا۔
ساگ کی ایک اور خراب بات کہ یہ ایک دن پکاو تو ہفتہ ہفتہ چل جاتا ہے، جو لوگ ساگ کو قریب سے جانتے ہیں انھیں اچھی طرح علم ہوگا کہ اسے کھا کھا کر بندہ خراب ہو جائے تو ہو جائے یہ خود کبھی خراب نہیں ہوتا۔
بہرحال ہمارا ماننا تو یہ ہے کہ ساگ اور آگ جس گھر کو لگ جائے وہ مشکل سے ہی بچتے ہیں۔ ساگ کے متعلق تاریخ ایسے ہی خاموش ہے جیسے ہم ہر روز سامنے ساگ کو دیکھ کر خاموش ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر بات پاکستان کی ہو تو اس کے جھنڈے اور ساگ میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے یوں لگتا ہے جھنڈے کا ڈیزائن بنانے والا اس وقت ساگ کھا رہا تھا اس لیے ہوبہو ساگ والا رنگ دے دیا اور شاید ساگ میں مکھن بھی موجود تھا اس لیے ساتھ سفید رنگ بھی شامل کر دیا، وہ تو شکر ہے حفیظ جالندھری کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا تھا ورنہ قومی ترانہ بھی "ساگ سرزمین شاد باد" ہوجاتا۔
پکانے کی ترکیب
ترمیمروایتی طور پر ساگ درج ذیل اجزا اور ترکیب کے مطابق پکایا جاتا ہے[1]:
ااجزا
ترمیمعام طور پر درج ذیل چیزیں درکار ہوتی ہیں:
- سرسوں کا ساگ: چار پاؤنڈ
- پالک: دو پاؤنڈ
- میتھی کا ساگ : دو پاؤنڈ
- پانی : آدھا کپ
- ادرک : ایک انچ کا ٹکڑا
- مکئی کا آٹا : کھانے کے دو چمچے، ایک چوتھائی پانی میں حل کر لیں
- مکھن : حسب مرضی
- موٹی ہری مرچ : پانچ سے سات عدد
- نمک : حسب ذائقہ
ترکیب
ترمیمدرج بالا اجزا کی روشنی میں سرسوں کا ساگ پکانے کے لیے ایک بڑی دیگچی میں آدھا کپ پانی لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس میں تمام دیگر اجزا شامل کیے جاتے ہیں جو اوپر درج ہیں، پھر 15 سے 20 منٹ تک پکایا جاتا ہے۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیمپیش نظر صفحہ پاکستانی پکوان سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |