سلطان عبدالحکیم
سلطان عبد الحکیم سلسلہ قادریہ کے بزرگان میں شامل ہستی جن کے نام پر عبد الحکیم آباد ہے۔
ولادت
ترمیمسلطانُ العارفین سراجُ الصالحین عبد الحکیم کی پیدائش 11ربیع الاول 1075ھ بمطابق 24 اگست 1664ء کو ہوئی ۔آپ کے والد میاں غلام علی اور والدہ بی بی غلام فاطمہ دونوں تقویٰ و پرہیزگاری جیسی عظیم صفات سے مالامال اورراتیں اللہ کی عبادت میں گزارنے والے تھے۔
سلسلہ طریقت
ترمیمسلطان عبدالحکیم نے سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت سلطان ایوب عرف عمر جتی سلطان کے ہاتھ پر بیعت کی اور انہی سے سخی سلطان کا لقب پایا۔ آپ کے سلسلہ طریقت قادریہ کی تفصیل حسب ذیل ہے: سلطان عبد الحکیمؒ ، جمال اﷲ حیات، سید عبد الرزاق گیلانی ، سیدنا غوث الا عظم عبد القادر جیلانی ، ابو سعید مبارک مخذومیؒ، ابو الحسن ہکاریؒ، ابو الفراج طرطوسیؒ، خواجہ عبد الواحدؒ تمیمیؒ، شیخ ابو بکر شبلیؒ، خواجہ جنید بغدادیؒ، خواجہ سرسقطیؒ، خواجہ معروف کرجیؒ، شیخ دائود طائیؒ، خواجہ حبیب ؒ ، خواجہ حسن بصریؒ، امام حسن مجتبیٰؒ، سیدنا مولا علی ابن ابی طالب ؒاوروجہ تخلیق کائنات آقائے نامدار سیدنا حضرت محمد مصطفٰی احمد مجتبٰیﷺ۔ آپ کی تعلیمات ہمیں شریعت کا پابند بناتی ہیں آپ اوامر نواہی کا حکم دینے والے قائم الیل اور صائم النہار صوفی بزرگ تھے حصول رزق و حلال کوعین عبادت قرار دیتے آپ کا فرمان ہے کہ فلاح و فوز کا دارومدار اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے احکامات کی بجا آوری اور تقوٰی اختیار کرنے میں ہے آپ معاملات میں جبر کے قائل نہ تھے زہدو تقویٰ کی بناذکر و فکر کو قرار دیتے آپ اپنے پیروکاروں کو صوم و صلوۃ کی حد درجہ پابندی کا درس دیتے مہمان کی تکریم اور مہمان نوازی آپ کا طرہ امتیاز تھا۔ آپ کا فرمان ہے کی میرے آستانے سے کوئی بھی بھوکا نہ جائے آپ کا دسترخوان بہت وسیع تھاجو کہ ماضی کی طرح آج بھی اسی طرح کشادہ ہے کہ اسلاف کے دستر خوان کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ آپ جھوٹ کو سخت نا پسند کرتے راست گوئی ، صدق و صفا،ایمانداری سماجی عدل و انصاف اور شریعت کی پابندی آپ کی شخصیت کا خاصہ تھا آپ کا زہد و تقویٰ ضرب المثل کی حد تک معروف تھا،شب زندہ دارولی تھے۔ زیادہ وقت مسجد میں گزارتے ا ور بقیہ وقت مخلوق خدا کی خدمت میں صرف کرتے۔ آپ کے والد محترم غلام علیؒ پارچہ شوئی اور رنگریزی کے پیشے سے منسلک تھے آپ نے بھی اس پیشے کو زندگی کی زلفیں سنوارنے کے لیے اختیار کیامگر درحقیقت آپ قلوب کو توحید اور عشق رسول ﷺکے نہایت خوبصورت اور دائمی رنگوں میں رنگتے تھے۔ آپ کے روزانہ معمولات و مشاغل میںذکر و ازکارکو ایک خاص اہمیت حاصل تھی آپ کے درودو وظائف میں ذکر جلی مخفی، دردو مستفات اور دعائے سہفی بھی شامل تھیں سورۃالمزمل آپ کا خاص الخاص وظیفہ تھا۔ آپ اپنے عمر کے نامور دیندارگھرانے کی صالحہ اور پاکباز خاتون بی بی فاطمہؒ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے جن کے بطن سے عبد الخالقؒ اور گیارہ صاحبزادیاں تولد ہوئیں۔ جن میں بی بی عائشہ ؒ کو زہد و تقوٰی میں ایک خاص مقام حاصل تھا رابعہ عصر بی بی مائی صفورہ ؒ نوناری نے انہی سے اکتساب فیض کیاانہی کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے بی بی مائی صفورہ ؒ نوناری کو نیک اور صالح فرزند صالح محمد صفوریؒ اور ممتاز عالمہ و فاضلہ صاجزادی صالحہ ؒسے سرفراز فرمایا۔ آپ نے دیگر فیض یافتگان کی طرح بابا بلھے شاہؒ کو بھی ذکر اسم ذات کی تلقین فرمائی۔اقلیم ولایت کے تاجدار سلطان عبد الحکیم ؒ کو 1145ھ کو رحمت حق پرست میں پیوست ہوئے آپ نے اپنے وصال سے قبل وصیت فرمائی کہ میری روح قفس عنصری سے پرواز کرنے کے بعد ادھر سید فاضل شاہؒ (دندی سرگانہ) جو مخدوم سید جلال الدین مخدوم جہانیاںؒ جہاں گشت کی اولاد امجاد میں سے ہیں تشریف لائیں گے وہ کچھ عرصہ یہاں رہیں گے تو ان کو تخلیہ چاہیے ہو گا تم لوگ یہاں سے ہٹ جاناپھر وہی میرا جنازہ پڑھائیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
وصال
ترمیمآپ کا وصال 29 محرم الحرام 1145ھ اور 11 جولائی 1734ء کو خالقِ حقیقی سے جاملی۔ آپ کا مزار پاکستان کے صوبہ پنجاب ضلع خانیوال میں دریا ئے راوی کےقریب آپ ہی کے نام سے منسوب شہر ” عبدالحکیم “ میں واقع ہے۔ آپ کی درگاہ سے متصل ایک عظیم الشان درسگاہ بنام ”جامعہ عربیہ مظہر العلوم السلطان “ کی ایک عالیشان عمارت قائم ہے۔ آپ کا عرس مبارک ہر سال 21, 22, 23 جون بمطابق 7,8,9 ہاڑبکرمی کو باقاعدگی سے نہایت عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے جس میں ذکر واذکار کی محافل کے ساتھ علما کرام دعوت دین حق سے لوگوں کے قلوب کو منور فرماتے ہیں اس کے علاوہ اس میں علاقائی ثقافت کا رنگ بھی دیکھنے کو ملتا ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں زائرین دہلی تک سے آکر فیوض و برکات حاصل کرتے ہیں۔[1]