سلیم ثانی
سلیم ثانی (عثمانی ترکی: سليم ثانى Selīm-i sānī, ترکی:II.Selim) سلطان سلیمان اول قانونی اور خرم سلطان کا بیٹا جو 1566ء سے 1574ء تک سلطنت عثمانیہ کے تخت پر بیٹھا۔ تھا۔ اس کے دور میں تمام تر ریاستی انتظامات صدر اعظم محمد صوقوللی پاشا نے سنبھالے۔
سلیم ثانی | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 30 مئی 1524ء [1] استنبول [1] |
||||||
وفات | 13 دسمبر 1574ء (50 سال)[2] استنبول [2] |
||||||
مدفن | آیاصوفیا [2] | ||||||
رہائش | توپ قاپی محل | ||||||
شہریت | سلطنت عثمانیہ | ||||||
ساتھی | نور بانو سلطان | ||||||
اولاد | مراد سوم ، شہزادہ عبد اللہ ، فاطمہ سلطان ، گوہرخان سلطان ، شاہ سلطان ، اسمیخان سلطان | ||||||
والد | سلیمان اعظم | ||||||
والدہ | خرم سلطان | ||||||
بہن/بھائی | مہر ماہ سلطان ، شہزادہ محمد ، شہزادہ مصطفیٰ ، شہزادہ بایزید ، شہزادہ عبداللہ ، شہزادہ مراد ، شہزادہ جہانگیر ، رضیہ سلطان |
||||||
خاندان | عثمانی خاندان | ||||||
مناصب | |||||||
سلطان سلطنت عثمانیہ | |||||||
برسر عہدہ 1566 – 1574 |
|||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | حاکم | ||||||
دستخط | |||||||
درستی - ترمیم |
تخت نشینی
ترمیم1566ء میں سلیمان کے انتقال کے بعد اس کی موت کی خبر 50 روز تک عوام سے چھپائی گئی جس کے بعد سلیم ثانی قسطنطنیہ میں تخت نشین ہوا۔ اس وقت اس کی عمر 42 سال تھی۔ سلطنت عثمانیہ اس وقت بام عروج پر پہنچ چکی تھی لیکن اس عظیم الشان سلطنت کے حکمران کی حیثیت سے سلیم ثانی کسی طرح موزوں نہ تھا لیکن شہزادہ مصطفی جو سلطنت عثمانیہ کا ظاہری وارث اور اناطولیہ میں بہت مقبول تھا اور شہزادہ بایزید کی وفات کی وجہ سے اسے تخت پر بٹھایا گیا۔
جس طرح عباسی سلطنت کا ذکر برامکہ کے بغیر ادھورا ہے اسی طرح عثمانی سلطنت خصوصاً سلیم ثانی کے دور کا تذکرہ محمد صوقوللی کے بغیر تشنہ رہ جائے گا۔ یہ عثمانیوں کی خوش قسمتی تھی کہ انھیں ایسا قابل وزیر میسر آیا جس نے سلطنت کی شاندار روایات کو برقرار رکھا۔ محمد صوقوللی بوسنیا کے ایک علاقہ صوقول میں پیدا ہوا۔ اس کا خاندان صوقولوچ کہلاتا تھا۔ انتہائی قابل و ذہین آدمی تھا۔ اسے سلیمان کے عہد میں جبری بھرتی کے لیے والدین سے لیا گیا تھا۔ قابلیت کی بنیاد پر سلطان کے محل میں اہم عہدوں پر رہا اور پھر صدر اعظم (وزیر اعظم) کے عہدے پر پہنچا۔ سلیم ثانی کی بیٹی سے عقد کیا۔ ظاہری حکمران تو سلیم تھا لیکن حقیقی فرمانروا محمد صوقوللی تھا۔ اپنی ذہانت سے امور سلطنت کو بخیر و خوبی چلایا۔ مراد ثالث کے ابتدائی عہد تک عنان حکومت اس کے ہاتھ میں تھی لیکن بعد میں سازش کے تحت قتل کر دیا گیا۔ اسی کے دور میں وینس سے صلح ہوئی جس کے تحت قبرص پر سلطنت عثمانیہ کا قبضہ تسلیم کیا گیا۔
فتوحات
ترمیمسلیم کے مختصر عہد میں عثمانی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا اور یمن میں بغاوت کے خاتمے کے علاوہ تونس اور قبرص کی اہم فتوحات ہوئیں۔ لیکن اس کے دور کا ایک اہم ترین واقعہ جنگ لیپانٹو تھا۔
جنگ لیپانٹو
ترمیمقبرص کی فتح نے یورپ کی مسیحی سلطنتوں میں کھلبلی مچا دی کیونکہ سلیمان اول کی وفات کے بعد بھی عثمانیوں کی پیشقدمی نہیں رکی تھی۔ اس سلسلے میں عثمانیوں کی بحری طاقت کو کمزور کرنے کا منصوبہ بنایا گیا جس کے لیے بحیرہ روم کی مسیحی ریاستوں کا ایک اتحاد تشکیل دیا گیا جس کی قیادت آسٹریا کے سالار اعظم ڈان جان کے سپرد کی گئی۔ 1517ء میں یہ بیڑا مسینا کے مقام پر اکٹھا ہوا جبکہ ترکی بیڑا لیپانٹو میں لنگر انداز تھا جس کی امارت امیر البحر علی پاشا کے ہاتھ میں تھی۔ خلیج لیپانٹو کے کنارے دونوں بحری بیڑوں کا آمنا سامنا ہوا اور چند گھنٹوں میں ترکوں کو ایک عظیم شکست ہوئی اور علی پاشا مارا گیا۔ اس جنگ میں تیس ہزار ترک کام آئے، ترکی بیڑا مسیحیوں کے قبضے میں چلا گیا اور کئی جہاز غرق آب ہو گئے۔ اس شکست کے نتیجے میں بحیرہ روم کی مسیحی طاقتوں کے مقابلے میں عثمانی بحری طاقت کا توازن بگڑ گیا۔ لیکن ترکوں نے اس کے بعد جس عزم و استقلال کا مظاہرہ کیا اور تھوڑے ہی عرصے میں ایک اور شاندار بحری بیڑا تیار کیا وہ ان کی عظمت کی دلیل ہے۔
روس سے ٹکراؤ
ترمیمسلیم ثانی پہلا عثمانی حکمران تھا جس کے دور میں ترکوں کی روسیوں سے جنگ ہوئی۔ اس جنگ کا سبب صدر اعظم کی پیش نظر دو تجاویز تھیں جس میں انھوں نے خاکنائے سوئز میں نہر کھود کر بحیرہ قلزم اور بحیرہ روم کو (دیکھیے: نہر سوئز) اور دریائے ڈون اور دریائے وولگا (دیکھیے: وولگا ڈون نہر) کو ملانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ لیکن آخر الذکر کے لیے استراخان پر قبضہ ضروری تھا اور یہ شہر روس کے قبضے میں تھا اور ہر لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ اس شہر کی فتح کے لیے 1568ء میں صدر اعظم نے ینی چری کے 25 ہزار سپاہیوں پر مشتمل دستہ شہر ازوف کی جانب روانہ کی اور استراخان پر قبضہ کے لیے اس فوج کا روسیوں سے ٹکراؤ ہوا۔ ترک فوج شہر پر قبضہ نہ کر سکی اور واپسی پر فوج کا بیشتر حصہ بحیرہ اسود میں ایک طوفان کی نذر ہو گیا۔ ترک شہر پر قبضہ میں ناکام رہے لیکن روس ترکوں سے جنگ نہیں چاہتا تھا اس لیے جنگ بندی کا ایک معاہدہ طے پایا جس کے بعد ایک صدی تک ترک اور روس ایک دوسرے کے مدمقابل نہ آئے۔
انتقال
ترمیمسلیم کا انتقال 1574ء میں ہوا۔ اس نے کل 8 سال حکومت کی۔
کردار
ترمیمسلیم ثانی پہلا عثمانی سلطان تھا جس کی زندگی حرم سرا میں گذری۔ وہ ان تمام صلاحیتوں سے محروم تھا جو بادشاہت کے لیے ضروری ہوتی ہیں بلکہ اس میں ان میں سے ایک بھی خوبی نہ تھی۔ کم عمری سے ہی شراب کا رسیا تھا اسی لیے تخت پر بیٹھتے ہی شراب کی ممانعت کے حکم کو منسوخ کر دیا اس لیے عوام نے اسے شرابی کا لقب دیا۔ کاہلی کی وجہ سے ہر وقت مست کیفیت میں حرم میں رہتا۔
متعلقہ مضامین
ترمیم- مسجد سلیمیہ: ادرنہ، ترکی کی خوبصورت مسجد جسے معمار سنان پاشا نے سلیم ثانی کے عہد میں تعمیر کیا
سلیم ثانی پیدائش: مئی 28, 1524 وفات: دسمبر 12, 1574[عمر 50]
| ||
شاہی القاب | ||
---|---|---|
ماقبل | سلطان سلطنت عثمانیہ ستمبر 5, 1566 – دسمبر 12, 1574 |
مابعد |
مناصب سنت | ||
ماقبل | خلیفہ ستمبر 5, 1566 – دسمبر 12, 1574 |
مابعد |
ویکی ذخائر پر سلیم ثانی سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |