سنت مؤکدہ:شریعت اسلامی کی اصطلاح میں سنت مؤکدہ وہ عمل ہے جسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عموماً اور اکثر بطور عبادت کیا ہو اور کبھی بغیر کسی عذر کے ترک بھی کیا ہو۔ اس کا ترک گناہ اور ترک کی عادت فسق ہے [1] اور اس کی اقامت، تکمیل دین کی خاطر ہو جیسے اذان، اقامت، نماز باجماعت وغیرہ سنت مؤکدہ ہیں۔ جہاں مطلق سنت بولا جائے اس سے مراد سنت مؤکدہ ہوتی ہے۔ اسے سنت ہدیٰ بھی کہتے ہیں

سنت مؤکدہ کی اصطلاح

ترمیم

اسلامی فقہ میں سنت مؤکدہ کی اصطلاح اساءت کے بالعکس ہے۔ یہ ایسے اعمال ہیں جن کو ادا کرنے کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے۔ اس کے ادا کرنے پر اجر ملتا ہے اور بغیر عذر چھوڑ دینے کی عادت قابل ملامت و مذمت ہے، جبکہ کبھی کبھار ترک کر دینے پر معافی ہے۔ جو شخص سنت مؤکدہ کو دائما ترک کرے وہ مستحق عذاب ہے اور جو اس کو احیاناً ترک کرے وہ مستحق ملامت ہے۔

سنت کی تعریف

ترمیم

علامہ شمنی نے سنت کی یہ تعریف کی ہے کہ جو کام نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول یا فعل سے ثابت ہو اور وہ کام واجب یا مستحب نہ ہو، لیکن یہ مطلق سنت کی تعریف ہے اور سنت مؤکدہ کی یہ شرط ہے کہ آپ نے اس پر دوام کیا ہو اور کبھی ترک بھی کیا ہو خواہ ترک حکماً ہو۔[2]

سنت کی دو اقسام

ترمیم

جس فعل پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا آپ کے بعد خلفاء راشدین نے دائما عمل کیا ہو اور اس کو ترک کرنے سے منع نہ فرمایا ہو وہ سنت مؤکدہ ہے ورنہ وہ مستحب اور نفل ہے اور سنت کی دو قسمیں ہیں ایک سنت الھدیٰ ہے اس کا ترک کراہیت اور اساءت کو واجب کرتا ہے جیسے جماعت، اذان اور اقامت اور دوسری سنت الزوائد ہے جیسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لباس پہننے، کھڑے ہونے اور بیٹھنے میں سیرت، اس کا ترک مکروہ نہیں ہے۔[3] سنت مئوکدہ کی مثال صبح و شام کے فرائض کے ساتھ بارہ رکعات نمازیں ہیں جن کا ذکر اس حدیث میں ہے : ام المؤمنین ام حبیبہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے ایک دن اور رات بارہ رکعات نماز پڑھیں اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا، چار رکعات ظہر سے پہلے دو رکعت ظہر کے بعد دو رکعت مغرب کے بعد، دو رکعت عشاء کے بعد اور دو رکعت صلاۃ فجر سے پہلے۔ ([4]

سنن کا حکم

ترمیم

اگر کوئی شخص ان سنتوں کا استخفاف کرے اور کہے کہ میں یہ نہیں پڑھتا تو اس کی تکفیر کی جائے گی، نوازل میں مذکور ہے جو شخص پانچ نمازوں کی سنتیں نہ پڑھے اور ان کو حق نہ جانے اس کی تکفیر کی جائے گی اور اگر کوئی شخص ان سنتوں کو برحق جانے اور نہ پڑھے تو ایک قول ہے کہ وہ گناہگار نہیں ہوگا اور صحیح یہ ہے کہ وہ گناہگار ہوگا کیونکہ اس کے ترک پر وعید ہے۔[5]

حوالہ جات

ترمیم
  1. زبدۃ الفقہ جلد اول صفحہ 72 سید زوار حسین زوار اکیڈمی پبلیکیشنز
  2. در مختار مع ردالمحتارج 1 ص 198 ،دار احیاء التراث العربی بیروت
  3. ردالمحتارج 1 ص 196 داراحیاء التراث العربی بیروت۔
  4. سنن الترمذی ،حدیث نمبر : 415
  5. فتح القدیر ج 1 ص 455، مطبوعہ دارالفکر بیروت۔