سورہ مریم

قرآن مجید کی 20 ویں سورت

قرآن مجید کی 19 ویں سورت جو 16 ویں پارے میں ہے۔ اس کا نام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ بی بی مریم کے نام سے موسوم ہے۔

مریم
دور نزولمکی
زمانۂ نزولہجرت حبشہ سے قبل
اعداد و شمار
عددِ سورت19
عددِ پارہ16
تعداد آیات98
الفاظ972
حروف3,835

نام

اس سورت کا نام آیت "واذکر فی الکتٰب مریم" سے ماخوذ ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ سورت جس میں حضرت مریم کا ذکر آیا ہے۔

زمانۂ نزول

مزید دیکھیے: مریم آیت 58، مریم آیت 71

اس کا زمانۂ نزول ہجرت حبشہ سے پہلے کا ہے۔ معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مہاجرین اسلام جب نجاشی کے دربار میں بلائے گئے تھے جو اس وقت حضرت جعفر طیار نے یہی سورت بھرے دربار میں تلاوت کی تھی۔

تاریخی پس منظر

جس دور میں یہ سورت ناول ہوئی اس کے حالات کی طرف کسی حد تک سورۂ کہف کے مضمون میں اشارہ کیا جاچکا ہے لیکن وہ اس سورت اور اس کے دور کی دوسری سورتوں کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں اس لیے اس مضمون میں وہ حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کیے جا رہے ہیں۔ قریش کے سردار جب تضحیک، استہزاء، اطماع، تخویف اور جھوٹے الزامات کی تشہیر سے تحریک اسلامی کو دبانے میں ناکام ہو گئے تو انھوں نے ظلم و ستم، مار پیٹ اور معاشی دباؤ کے ہتھیار استعمال کرنے شروع کیے۔ ہر قبیلے کے لوگوں نے اپنے اپنے قبیلے کے نو مسلمانوں کو پکڑا اور طرح طرح سے ستا کر، قید کرکے، بھوک پیاس کی تکالیف دے کر حتیٰ کہ سخت جسمانی اذیتیں دے دے کر انھیں اسلام چھوڑنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں خصوصیت کے ساتھ غریب لوگ اور وہ غلام اور موالی جو قریش والوں کے تحت زیر دست کی حیثیت سے رہتے تھے، بری طرح پیسے گئے۔ مثلاً بلال ، عامر بن فہیرہ، ام عُبَیس ، زِنِیرَہ، عمار بن یاسر اور ان کے والدین وغیرہم۔ ان لوگوں کو مار مار کر ادھ موا کر دیا جاتا، بھوکا پیاسا بند رکھا جاتا، مکے کی تپتی ریت پر چلچلاتی دھوپ میں لٹا دیا جاتا اور سینے پر بھاری پتھر رکھ کر گھنٹوں تڑپایا جاتا، جو لوگ پیشہ ور تھے ان سے کام لے لیا جاتا اور اجرت ادا کرنے میں پریشان کیا جاتا۔ چنانچہ صحیحین میں حضرت خباب بن ارت کی یہ روایت موجود ہے کہ "میں مکے میں لوہار کا کام کرتا تھا، مجھ سے عاص بن وائل نے کام لیا، پھر جب میں اس سے اجرت لینے گیا تو اس نے کہا کہ میں تیری اجرت نہ دوں گا جب تک تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کا انکار نہ کرے"۔

اسی طرح جو لوگ تجارت کرتے تھے ان کے کاروبار کو برباد کرنے کی کوششیں کی جاتیں اور جو معاشرے میں کچھ عزت کا مقام رکھتے تھے، ان کو ہر طریقے سے ذلیل و رسوا کیا جاتا۔ اسی زمانے کا حال بیان کرتے ہوئے حضرت خباب کہتے ہیں کہ ایک روز نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کعبے کے سائے میں تشریف فرما تھے۔ میں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا "یا رسول اللہ! اب تو ظلم کی حد ہو گئی ہے، آپ خدا سے دعا نہیں فرماتے؟" یہ سن کو آپ کا چہرۂ مبارک تمتما اٹھا اور آپ نے فرمایا

تم سے پہلے جو اہل ایمان تھے ان پر اس سے زیادہ مظالم ہو چکے ہیں، ان کی ہڈیوں پر لوہے کی کنگھیاں گھِسی جاتی تھیں، ان کے سروں پر رکھ کر آرے چلائے جاتے تھے، پھر بھی وہ اپنے دین سے نہ پھرتے تھے۔ یقین جانوں کہ اللہ اس کام کو پورا کرکے رہے گا یہاں تک کہ ایک وقت وہ آئے گا کہ ایک آدمی صنعاء سے حضر موت تک بے کھٹکے سفر کرے گا اور اللہ کے سوا اس کو کسی کا خوف نہ ہوگا، مگر تم لوگ جلد بازی کرتے ہو"۔[1]

یہ حالات جب ناقابل برداشت حد تک پہنچ گئے تو رجب 48 عام الفیل (5نبوی) میں حضور نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ "اچھا ہو کہ تم لوگ نکل کر حبش چلے جاؤ۔ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا اور وہ بھلائی کی سر زمین ہے۔ جب تک اللہ تمھاری اس مصیبت کو رفع کرنے کی کوئی صورت پیدا کرے، تم لوگ وہاں ٹھیرے رہو"۔

اس ارشاد کی بنا ہر پہلے گیارہ مرد اور چار خواتین نے حبش کی راہ لی۔ قریش کے لوگوں نے ساحل تک ان کا پیچھا کیا، مگر خوش قسمتی سے شُعَیبِبہ کے بندر گاہ پر ان کو بروقت حبش کے لیے کشتی مل گئی اور وہ گرفتار ہونے سے بچ گئے۔ پھر چند ماہ کے اندر مزید لوگوں نے ہجرت کی یہاں تک کہ 83 مرد گیارہ عورتیں اور 7 غیر قریشی مسلمان حبش میں جمع ہو گئے اور مکے میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ صرف 40 آدمی رہ گئے۔

اس ہجرت سے مکے کے گھر گھر میں کہرام مچ گیا، کیونکہ قریش کے بڑے اور چھوٹے خاندانوں میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس کے چشم و چراغ ان مہاجرین میں شامل نہ ہوں۔ کسی کا بیٹا گیا تو کسی کا داماد، کسی کی بیٹی گئی تو کسی کا بھائی اور کسی کی بہن۔ ابو جہل کے بھائی سَلَمہ بن ہِشام، اس کے چچا زاد بھائی ہِشام بن ابی حُذیفہ اور عیاش بن ابی ربیعہ اور اس کی چچا زاد بہن ام سلمہ، ابو سفیان کی بیٹی ام حبیبہ، عتبہ کے بیٹے اور ہند جگر خزار کے سگے بھائی ابو حذیفہ، سہیل بن عمرو کی بیٹی سہل اور اسی طرح دوسرے سردارانِ قریش اور مشہور دشمنانِ اسلام کے اپنے جگر گوشے دین کی خاطر گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اس لیے کوئی گھر نہ تھا جو اس واقعے سے متاثر نہ ہوا ہو۔ بعض لوگ اس کی وجہ سے اسلام دشمنی میں پہلے سے زيادہ سخت ہو گئے اور بعض کے دلوں پر اس کا اثر ایسا ہوا کہ آخر کار وہ مسلمان ہو کر رہے۔ چنانچہ حضرت عمر کی اسلام دشمنی پر پہلی چوٹ اسی واقعے سے لگی۔ ان کی قریبی رشتہ دار لیلیٰ بنت حثمہ بیان کرتی ہیں کہ میں ہجرت کے لیے اپنا سامان باندھ رہی تھی اور میرے شوہر عامر بن ربیعہ کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اتنے میں عمر آئے اور کھڑے ہو کر میری مشغولیت دیکھتے رہے۔ کچھ دیر کے بعد کہنے لگے "عبد اللہ کی ماں! جا رہی ہو؟" میں نے کہا "ہاں، خدا کی قسم تم لوگوں نے ہمیں بہت ستایا۔ خدا کی زمین کھلی پڑیہے، اب ہم کسی ایسی جگہ چلے جائیں گے جہاں خدا ہمیں چین دے"۔ یہ سن کر عمر کے چہرے پر رقت کے آثار طاری ہوئے جو میں نے کبھی ان پر نہ دیکھے تھے اور وہ بس یہ کہہ کر نکل گئے کہ "خدا تمھارے ساتھ ہو"۔

ہجرت کے بعد قریش کے سردار سر جوڑ کے بیٹھے اور انھوں نے طے کیا کہ عبداللہ بن ابی ربیعہ (ابو جہل کے ماں جائے بھائی) اور عمرو بن عاص کو بہت سے قیمتی تحائف کے ساتھ حبش بھیجا جائے اور یہ لوگ کسی نہ کسی طرح نجاشی کو اس بات پر راضی کریں کہ وہ ان مہاجرین کو مکہ واپس بھیج دے۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ ا نے (جو خود مہاجرین حبشہ میں شامل تھی) یہ وقعہ بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ قریش کے یہ دونوں ماہر سیاست سفیر ہمارے تعاقب میں حبش پہنچے۔ پہلے انھوں نے نجاشی کے امیران سلطنت میں خوب ہدیے تقسیم کرکے سب کو اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ مہاجرین کو واپس کرنے کے لیے نجاشی پر بالاتفاق وردیں گے۔ پھر نجاشی سے ملے اور اس کو بیش قیمت نذرانہ دینے کے بعد کہا کہ "ہمارے شہر کے چند نادان لونڈے بھاگ کر آپ کے ہاں آ گئے ہیں اور قوم کے اشراف نے ہمیں آپ کے پاس ان کی واپسی کی درخواست کرنے کے لیے بھیجا ہے۔ یہ لڑکے ہمارے دین سے نکل گئے ہیں اور آپ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں بلکہ انھوں نے ایک نرالا دین نکالا لیا ہے"۔ ان کا کلام ختم ہوتے ہی اہل دربار ہر طرف سے بولنے لگے کہ "ایسے لوگوں کو ضرور واپس کردینا چاہیے، ان کی قوم کے لوگ زیادہ جانتے ہیں کہ ان میں کیا عیب ہے، انھیں رکھنا ٹھیک نہیں ہے"۔ مگر نجاشی نے بگڑ کر کہا کہ "اس طرح تو میں انھیں حوالے نہیں کروں گا۔ جن لوگوں نے دوسرے ملک کو چھوڑ کر میرے ملک پر اعتماد کیا اور یہاں پناہ لینے کے لیے آئے ان سے میں بے وفائی نہیں کر سکتا۔ پہلے میں انھیں بلا کر تحقیق کروں گا کہ یہ لوگ ان کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے"۔ چنانچہ نجاشی نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے دربار میں بلا بھیجا۔

نجاشی کا پیغام سن کر سب مہاجرین جمع ہوئے اور انھوں نے باہم مشورہ کیا کہ بادشاہ کے سامنے کیا کہنا ہے۔ آخر سب نے بالاتفاق فیصلہ کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو تعلیم ہمیں دی ہے ہم تو وہی بے کم و کاست پیش کریں گے خواہ نجاشی ہمیں رکھے یا نکال دے۔ دربار میں پہنچے تو چھوٹتے ہی نجاشی نے سوال کیا کہ "یہ تم لوگوں نے کیا کیا کہ اپنی قوم کا دین بھی چھوڑا اور میرے دین میں بھی داخل نہ ہوئے، نہ دنیا کے دوسرے ہی میں سے کسی کو اختیار کیا؟ آخر یہ تمھارا نیا دین ہے کیا؟" اس پر مہاجرین کی طرف سے جعفر بن ابی طالب نے ایک برجستہ تقریر کی جس میں پہلے عرب جاہلیت کی دینی، اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں کو بیان کیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کا ذکر کرکے بتایا کہ آپ کیا تعلیمات پیش فرماتے ہیں، پھر ان مظالم کا ذکر کیا جو آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی اختیار کرنے والوں پر قریش کے لوگ ڈھا رہے تھے اور اپنا کلام اس بات پر ختم کیا کہ دوسرے ملکوں کی بجائے ہم نے آپ کے ملک کا رخ اس امید پر کیا ہے کہ یہاں ہم پر ظلم نہ ہوگا۔ نجاشی نے یہ تقریر سن کر کہا کہ ذرا مجھے وہ کلام سناؤ جو تم کہتے ہو کہ خدا کی طرف سے تمھارے نبی پر اترا ہے۔ حضرت جعفر نے جواب میں سورۂ مریم کا وہ ابتدائی حصہ سنایا جو حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام سے متعلق ہے۔ نجاشی اس کو سنتا رہا اور روتا رہا یہاں تک کہ اس کی داڑھی تر ہو گئی۔ جب حضرت جعفر نے تلاوت ختم کی تو اس نے کہا کہ "یقیناً یہ کلام اور جو کچھ عیسیٰ علیہ السلام لائے تھے دونوں ایک ہی سر چشمے سے نکلے ہیں، خدا کی قسم میں تمھیں ان لوگوں کے حوالے نہ کروں گا"۔

دوسرے روز عمرو بن العاص نے نجاشی سے کہا کہ "ذرا ان لوگوں سے بلا کر یہ تو پوچھیے کہ عیسیٰ ابن مریم کے بارے میں ان کا عقیدہ کیا ہے۔ یہ لوگ ان کے متعلق ایک بڑی بات کہتے ہیں۔ نجاشی نے پھر مہاجرین کو بلا بھیجا۔ مہاجرین کو پہلے سے عمرو کی چال کا علم ہو چکا تھا۔ انھوں نے جمع ہو کر مشورہ کیا کہ اگر نجاشی نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا تو کیا جواب دو گے؟ موقع بڑا نازک تھا اور سب اس سے پریشان تھے۔ مگر پھر بھی اصحاب رسول اللہ نے یہی فیصلہ کیا کہ جو کچھ ہوتا ہے ہو جائے، ہم تو وہی بات کہیں گے جو اللہ نے فرمائی اور اللہ کے رسول نے سکھائی۔ چنانچہ جب یہ لوگ دربار میں گئے اور نجاشی نے عمرو بن العاص کا پیش کردہ سوال ان کے سامنے دہرایا تو جعفر بن ابی طالب نے اٹھ کر بلا تامل کہا کہ "وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی طرف سے ایک روح اور ایک کلمہ ہیں جسے اللہ نے کنواری مریم پر القا کیا" نجاشی نے سن کر ایک تنکا زمین سے اٹھایا اور کہا کہ "خدا کی قسم! جو کچھ تم نے کہا ہے عیسیٰ علیہ السلام اس سے اس تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں تھے"۔ اس کے بعد نجاشی نے قریش کے بھیجے ہوئے تمام ہدیے یہ کہہ کر واپس کردیے کہ میں رشوت نہیں لیتا اور مہاجرین سے کہا کہ تم بالکل اطمینان کے ساتھ رہو۔

موضوع اور مضمون

اس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر جب ہم اس سورت کو دیکھتے ہیں تو اس میں اولین بات نمایاں ہو کر ہمارے سامنے یہ آتی ہے کہ اگرچہ مسلمان ایک مظلوم پناہ گزیں گروہ کی حیثیت سے اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ملک میں جا رہے تھے، مگر اس حالت میں بھی اللہ تعالٰیٰ نے ان کو دین کے معاملے میں ذرا برابر مداہنت کرنے کی تعلیم نہ دی، بلکہ چلتے وقت زاد راہ کے طور پر یہ سورت ان کے ساتھ کی تاکہ مسیحیوں کے ملک میں عیسیٰ علیہ السلام کی بالکل صحیح حیثیت پیش کریں اور ان کے ابن اللہ (اللہ کے بيٹے) ہونے کا صاف صاف انکار کریں۔

پہلے دو رکوعوں میں حضرت یحییٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کے بعد پھر تیسرے رکوع میں حالاتِ زمانہ کی مناسبت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ سنایا گیا ہے کیونکہ ایسے ہی حالات میں وہ بھی اپنے باپ اور خاندان اور اہل ملک کے ظلم سے تنگ آکر وطن سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اس سے ایک طرف کفار مکہ کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ آج ہجرت کرنے والے مسلمان ابراہیم علیہ السلام کی پوزیشن میں ہیں اور تم لوگ ان ظالموں کی پوزیشن میں ہو جنھوں نے تمھارے باپ اور پیشوا ابراہیم علیہ السلام کو گھر سے نکالا تھا۔ دوسری طرف مہاجرین کو بشارت دی گئی ہے جس طرح ابراہیم علیہ السلام وطن سے نکل کر تباہ نہ ہوئے بلکہ اور زیادہ سر بلند ہو گئے ایسا ہی انجامِ نیک تمھارا انتظار کر رہا ہے۔

اس کے بعد چوتھے رکوع میں دوسرے انبیا کا ذکر کیا گیا ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ تمام انبیا علیہم السلام وہی دین لے کر آئے تھے جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لائے ہیں مگر انبیا کے گذر جانے کے بعد ان کی امتیں بگڑتی رہی ہیں اور آج مختلف امتوں میں جو گمراہیاں پائی جا رہی ہیں یہ اسی بگاڑ کا نتیجہ ہیں۔

آخری دو رکوعوں میں کفار مکہ کی گمراہیوں پر سخت تنقید کی گئی ہے اور کلام ختم کرتے ہوئے اہل ایمان کو مژدہ سنایا گیا ہے کہ دشمنان حق کی ساری کوششوں کے باوجود بالآخر تم محبوب خلائق ہو کر رہو گے۔

حوالہ جات

  1. صحیح بخاری