سید احمد بریلوی
سید احمد بریلوی (6 صفر 1201ھ/29 نومبر 1786ء - 24 ذیقعدہ 1246ھ/6 مئی 1831ء)[3][4] ایک عالم دین تھے جن کی پیدائش بھارتی صوبہ اترپردیش کے ضلع رائے بریلی کے ایک قصبہ دائرہ شاہ علم اللہ میں ہوئی۔ بچپن ہی سے گھڑ سواری، مردانہ و سپاہیانہ کھیلوں اور ورزشوں سے خاصا شغف تھا۔ والد کے انتقال کے بعد تلاشِ معاش کے سلسلے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ لکھنؤ اور وہاں سے دہلی روانہ ہوئے، جہاں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور شاہ عبد القادر دہلوی سے ملاقات ہوئی، ان دونوں حضرات کی صحبت میں سلوک و ارشاد کی منزلیں طے کی۔ خیالات میں انقلاب آ گیا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تحریک اور ان کے تجدیدی کام کو لے کر میدانِ عمل میں آ گئے۔
یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت فنا ہو رہی تھی، مشرکانہ رسوم و بدعات اسلامی معاشرہ میں زور پکڑ رہے تھے، سارے پنجاب پر سکھ اور بقیہ ہندوستان پر انگریز قابض ہو چکے تھے۔ سید احمد شہید نے اسلام کے پرچم تلے فرزندانِ توحید کو جمع کرنا شروع کیا اور جہاد کی صدا بلند کی، جس کی بازگشت ہمالیہ کی چوٹیوں اور نیپال کی ترائیوں سے لے کر خلیج بنگال کے کناروں تک سنائی دی جانے لگی اور نتیجتاً تحریک مجاہدین وجود میں آئی جس کی مثال آخری صدیوں میں نہیں ملتی۔ بعض سیاسی تقاضوں اور فوجی مصالح کی بنا پر سید صاحب نے اپنی مہم کا آغاز ہندوستان کی شمال مغربی سرحد سے کیا۔ سکھوں سے جنگ کر کے مفتوحہ علاقوں میں اسلامی قوانین نافذ کیے۔ لیکن بالآخر 1831ء میں رنجیت سنگھ کی کوششوں کے نتیجے میں بعض مقامی پٹھانوں نے بے وفائی کی اور بالاکوٹ کے میدان میں سید صاحب اور ان کے بعض رفقا نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔
سید احمد بن سید محمد عرفان شہید بریلوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 29 نومبر 1786ء 6 صفر بمطابق 1201ھ [1] دائرہ شاہ علم اللہ رائے بریلی |
وفات | 6 مئی 1831ء بمطابق 24 ذیقعدہ 1246ھ [2] بالاکوٹ ضلع مانسہرہ |
شہریت | برطانوی ہند |
نسل | سید |
مکتب فکر | ولی اللہی |
عملی زندگی | |
تلمیذ خاص | سید نذیر حسین دہلوی |
پیشہ | جہادی ، سیاست دان |
متاثر | شاہ اسماعیل دہلوی، مولانا عبد الحی بڈھانوی، کرامت علی جونپوری، ولایت علی عظیم آبادی، رشید احمد گنگوہی، ابو الحسن علی ندوی، محمد الیاس کاندھلوی |
درستی - ترمیم |
ولادت
ترمیمسید احمد کی ولادت بھارت کے صوبہ اترپردیش کے ضلع رائے بریلی کے ایک قصبہ دائرہ شاہ علم اللہ میں 6 صفر 1201ھ/29 نومبر 1786ء کو ہوئی۔
[1]
سلسلہ نسب
ترمیمسید احمد بن سید محمد عرفان بن سید محمد نور بن سید محمد ہدیٰ بن سید علم اللہ بن سید محمد فضیل۔
کئی واسطوں سے آپ کا نسب حسن مثنّیٰ بن امام حسن بن علی ابن ابی طالب تک پہنچتا ہے۔ حسن مثنّیٰ کی شادی اپنے چچا امام حسین کی صاحبزادی فاطمہ صغریٰ سے ہوئی تھی، اس لحاظ سے سید صاحب کا خاندان حسنی حسینی کہلاتا ہے۔[5]
بچپن
ترمیمآپ کو بچپن ہی سے مردانہ اور سپاہیانہ کھیلوں کا شوق تھا۔ خدمت خلق، ضعیفوں، معذورین اور بیواؤں کی خدمت کرنے کا جذبہ اور عبادت اور ذکر الہی کا ذوق بہت بڑھا ہوا تھا۔
تعلیم
ترمیمچار سال کی عمر میں آپ کی تعلیم شروع کی گئی، لیکن خاندان کے دیگر ہم عمر لڑکوں کے بر خلاف تین سال گذرنے کے بعد بھی سید صاحب کی طبیعت کا میلان تعلیم کی طرف نہیں ہو سکا، باوجود استاد کی کوششوں کے قرآن مجید کی چند سورتیں ہی یاد اور مفرد و مرکب الفاظ لکھنا سیکھ سکے۔
سفر لکھنؤ
ترمیمبارہ سال کی عمر میں والد ماجد مولانا محمد عرفان صاحب کا وصال ہو گیا۔ چنانچہ حالات کے پیش نظر سولہ سترہ برس کی عمر میں تحصیل معاش کے خاطر اپنے سات عزیزیوں کے ساتھ لکھنؤ کے سفر پر روانہ ہوئے۔ رائے بریلی سے لکھنؤ کی مسافت کافی زیادہ ہے، سواری صرف ایک تھی جس پر باری باری سوار ہوتے تھے مگر سید صاحب اپنی باری کے وقت باصرار کسی اور کو سوار کردیتے۔ اسی خدمت اور محنت سے لکھنؤ پہنچے۔ وہاں پہنچ کر سب ساتھی تلاش معاش میں مشغول ہو گئے۔ سید صاحب نے ایک امیر کے گھر قیام کیا۔ اس وقت نواب سعادت علی خان کا عہد حکومت تھا۔ بے روزگاری عام تھی۔ سید صاحب کا کھانا اسی امیر کے گھر سے آتا لین آپ اسے اپنے ساتھیوں کو عنایت فرمادیتے۔
سفر دہلی
ترمیمچار ماہ بعد سید صاحب نے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی خدمت میں حاضری کا ارادہ کیا۔ اسی غرض سے اپنے ساتھیوں کو تیار کرتے رہے، پھر خود تن تنہا دہلی روانہ ہو گئے۔
شاہ عبد العزیز کی خدمت میں
ترمیمپورا سفر پیادہ پا طے کیا اور کئی روز بعد دہلی پہنچے۔ وہاں شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے سید صاحب کے خاندان دیرینہ مراسم تھے۔ لہذا ملاقات پر بہت خوش ہوئے اور اپنے بھائی شاہ عبد القادر دہلوی کے پاس ٹھرایا۔
دعوت و اصلاح
ترمیمآپ نے اپنے اقوال وافعال کے ذریعہ بدعات وخرافات کی دھجّیاں بکھیر کر رکھ دیں ، ایسی ایسی سنتوں کو زندہ کیا جو مردہ ہو چکی تھیں ۔ آپ اپنے وقت کے داعی الی اللہ شخص تھے۔ آپ کے ہاتھ پر چالیس ہزار سے زیادہ ہندو مسلمان ہوئے اور تیس لاکھ مسلمانوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ یہ سب آپ کے ایسے اصلاحی وتجدیدی کارنامے ہیں جو ہمیشہ کے لیے یادگار رہیں گے۔[6]
تصانیف
ترمیمسید صاحب کی مندرجہ ذیل تصانیف کا علم ہو چکا ہے:
- حقیقت الصلاۃ :یہ دراصل سید صاحب کی نماز کے اسرار اور سورہ فاتحہ کی تفسیر پر مشتمل دو تقریروں کا مجموعہ ہے۔ یہ رسالہ حقیقت الصلاۃ کے نام سے 1237ھ میں شائع ہوا، پھر مطبع اسرار کریمی، الہ آباد سے 1949ء میں بعنوان: "انوار الصلاۃ" شائع ہوا۔[7] یہ دراصل سنہ 1235ھ میں لکھنؤ کے چند جید علما کے سامنے کی گئی تقریر ہے۔
- رسالۂ اشغال: یہ رسالہ سید صاحب نے شہادت سے چار سال پیشتر ہفتم ذی الحجہ 1242ھ کو بمقام تختہ بند (علاقہ سرحد) میں طالبین سلوک کے لیے اذکار و مراقبات اور شجراتِ سلاسل کا یہ مجموعہ مرتب کیا تھا۔ سید صاحب کے مجموعۂ ملفوظات صراط مستقیم میں جو اذکار و مراقبات مذکور ہیں، وہی اذکار ومراقبات اس رسالہ میں مختصر مگر جامع انداز میں دیے گئے ہیں۔ البتہ ایک جزوی خصوصیت اس رسالہ کی یہ ہے کہ اس میں سید صاحب نے سلاسل طریقت کے شجرات بھی شامل فرما دیے ہیں۔ اس رسالہ کا اردو ترجمہ سید نفیس الحسینی نے کیا اور پہلی بار سید احمد شہید اکیڈمی- لاہور سے ذیقعدہ 1398ھ مطابق اکتوبر 1978ء میں شائع ہوا۔
- مکاتیب سید احمد شہید: یہ سید صاحب کے مکتوبات کے ایک خطی نسخے کا عکسی ایڈیشن ہے جو پہلی بار ذیقعدہ 1395ھ مطابق نومبر 1975ء میں مکتبہ رشیدیہ لمیٹیڈ -لاہور سے شائع ہوا۔ سید صاحب کی تحریک کو سمجھنے کے لیے اس مجموعہ کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔
- تنبیہ الغافلین: یہ رسالہ فارسی میں تھا، پہلے کلکتہ پھر لاہور میں شائع ہوا، اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے۔[8] محمد عبد الحلیم چشتی کی تحقیق کے مطابق اس رسالہ کی نسبت سید صاحب کی طرف محتاج تحقیق ہے۔[9]
- رسالہ در نکاح بیوگاں: یہ رسالہ فارسی میں ہے اور ابھی تک غیر مطبوعہ ہے۔[10] محمد عبد الحلیم چشتی کی تحقیق کے مطابق اس رسالہ کی نسبت سید صاحب کی طرف صحیح نہیں۔[9]
- رسالہ در نماز و عبادات: اس کا قلمی نسخہ کتب خانہ ٹونک کے ایک مجموعہ میں ہے، ابھی تک غیر مطبوعہ ہے۔[11]
- صراط مستقیم: یہ دراصل سید صاحب کے ملفوظات کا مجموعہ ہے جو شاہ محمد اسماعیل دہلوی نے مرتب کیا ہے، ابتدائی دو باب عبد الحی بڈھانوی کے مرتب کردہ ہیں۔ سید صاحب پیش نظر مدعا بیان فرماتے، اسے سن کر شاہ اسماعیل دہلوی یا عبد الحی بڈھانوی لکھ کر لے آتے، اگر ان کی عبارت اظہار مدعا کے لیے کفایت نہ کرتی تو فرماتے کہ پھر لکھیے، بعض مطالب کو پانچ پانچ مرتبہ لکھوایا۔[12] یہ 1233ھ کی تالیف ہے۔[13] سب سے پہلے 1238ھ مطابق 1822ء میں شیخ ہدایت اللہ کے مطبع سے کلکتہ میں شائع ہوئی۔[9]
سلسلہ شیوخ
ترمیم- حضرت شیخ سید احمد بریلویؒ
- حضرت شیخ شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ
- حضرت شیخ احمدشاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ
- حضرت شیخ شاہ عبد الرحیم دہلویؒ
- حضرت شیخ سید عبد اللہ واسطیؒ
- حضرت شیخ سید آدم بنوری مہاجر مدنیؒ
- حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ
مزید دیکھیے
ترمیمبیرونی روابط
ترمیمکتابیات
ترمیم- Altaf Qadir (2015)، Sayyid Ahmad Barailvi، SAGE, London، ISBN 978-93-515-0072-8
- Ludwig W. Adamec (2009)، Historical Dictionary of Islam، Scarecrow Press، ISBN 978-0-8108-6303-3
- Ayesha Jalal (2009)، "The Martyrs of Balakot"، Partisans of Allah: Jihad in South Asia، Harvard University Press، صفحہ: 58–113، ISBN 978-0-674-03907-0
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب مخزنِ احمدی از غلام رسول مہر ﴿ص ١2﴾
- ↑ سیرت سید احمد شہید از ابو الحسن علی ندوی ﴿ج 2﴾
- ↑ Adamec 2009, p. 54.
- ↑ Jalal 2009, pp. 307–308.
- ↑ سیرت سید احمد شہید از ابو الحسن علی ندوی ﴿ج ١ص ١١0﴾
- ↑ تذکره اکابر, تالیف مولانا نظام الدین صاحب قاسمیؔ استاذ جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا, صفحه 50 http://www.elmedeen.com/read-book-4994&page=48&q=سید%20احمد%20بریلوی آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ elmedeen.com (Error: unknown archive URL)
- ↑ دیکھیے: سید احمد بریلوی: انوار الصلاۃ، مطبع اسرار کریمی، الہ آباد، 1949ء
- ↑ غلام رسول مہر: تحریک سید احمد شہید، جلد دوم، مکتبۃ الحق، ممبئی، 2008ء، صفحہ 626 ۔
- ^ ا ب پ دیکھیے: محمد عبد الحلیم چشتی: سید احمد شہید کی اردو تصانیف اور اردو ادب پر ان کی تحریک کا اثر، الرحیم اکیڈمی، کراچی، 1986ء، صفحہ 40۔
- ↑ غلام رسول مہر: تحریک سید احمد شہید، جلد دوم، مکتبۃ الحق، ممبئی، 2008ء، صفحہ 627۔
- ↑ دیکھیے: محمد عبد الحلیم چشتی: سید احمد شہید کی اردو تصانیف اور اردو ادب پر ان کی تحریک کا اثر، الرحیم اکیڈمی، کراچی، 1986ء، صفحہ 41۔
- ↑ غلام رسول مہر: تحریک سید احمد شہید، جلد دوم، مکتبۃ الحق، ممبئی، 2008ء، صفحہ 626۔
- ↑ سیرت سید احمد شہید، جلد دوم، مؤلفہ سید ابو الحسن علی ندوی، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام، لکھنؤ، 2011ء، صفحہ 589۔