سیکولرازم

یہ موقف ہے کہ مذہب شہری اور ریاستی معاملات پر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے

سیکولرازم سے مراد دنیاوی امور سے مذہب اور مذہبی تصورات کا اخراج یا بے دخلی ہے،[1] یعنی یہ نظریہ کہ مذہب اور مذہبی خیالات و تصورات کو ارادتاً دنیاوی امور سے علاحدہ کر دیا جائے۔[2] سیکولرازم جدید دور میں ریاست کو مذہبی اقدار سے الگ کرنے کی ایک تحریک ہے۔[3] سیکولرازم کو اُردو میں عموماً لادینیت سے تعبیر کیا جاتا ہے جو علمی و لغوی اعتبار سے درست نہیں سیکولرازم کا موزوں اُردو ترجمہ خیار فکر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی سیکولر ریاست کے شہریوں کو یہ فکری اختیار حاصل ہے کہ وہ جس نظریہ، فکر یا عقیدہ کی بھی انفرادی طور مشق کرنا چاہیں پوری آزادی کے ساتھ کر سکتے ہیں پس ان کی اس مشق کا براہ راست یا ماورائے راست سٹیٹ افیئرز یعنی امورِ مملکت سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ خیارِ فکر علمی و لغوی اعتبار سے انگریزی زبان کی اصطلاح سیکولرازم کی تعبیر پر کماحقہ پوری اُترتی یے[4] سب سے پہلے اصطلاح سیکولرازم کو ایک برطانوی مصنف جارج جیکوب ہولیاک نے 1851ء میں استعمال کیا تھا،[5] یہ اصطلاح دراصل چرچ اور ریاست کو الگ کرنے کے لیے استعمال کی گئی تھی، گویا سیکولرازم دراصل سیاست اور مذہب کے مابین تفریق کا نام ہے۔

برطانوی اصطلاح سیکولرزم کا خالق جارج جیکب ہولیوک (1817–1906)

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ویبسٹر ڈکشنری
  2. اوکسفرڈ ڈکشنری
  3. فرانسیسی سیکولر اصطلاح Laïcité کے مطابق
  4. نعمان نیئر کلاچوی (2020)۔ صراطِ دانش۔ مرشد پبلیکیشنز کلاچی۔ صفحہ: 30۔ ISBN 9789692228008 
  5. Holyoake, G.J. (1896). The Origin and Nature of Secularism, London: Watts and Co. p.51

[1] روزنامہ پاکستان