شفاعت لغوی اعتبار سے شفع سے نکلا ہے جو وتر کی ضد ہے۔

  • اور اسلامی شریعت کی اصطلاح میں شفاعت” کسی دوسرے کو فائدہ پہنچانے یا اس سے نقصان کودورکرنے میں واسطہ اورذریعہ بننا۔” کو کہتے ہیں۔[1]
  • گویا شفاعت کرنے والا۔ اپنے آپ کو اس کے ساتھ ملا کر (جس کی یہ سفارش کرتا ہے) اس اکیلے کو جوڑا کرتا ہے۔[2]
  • الشفاعۃ کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا سفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اس کی مدد کے لیے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87]( تو لوگ) کسی کی سفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو۔ لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه/ 109] اس روز کسی کی سفارش فائدہ نہ دے گی۔ مگر اس شخص کی جسے خدا اجازت دے۔ لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم/ 26] جن کی سفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی ۔[3]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "This website is currently unavailable"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 فروری 2015 
  2. انوار البیان فی حل لغات القرآن جلد1 صفحہ46 ،علی محمد، سورۃ البقرہ،48،مکتبہ سید احمد شہید لاہور
  3. مفردات القرآن راغب اصفہانی