شیخ سلیم چشتی

سلسلہ چشتیہ کے عظیم اور جلیل القدر بزرگ


شیخ سلیم چشتی (پیدائش: 1478ء— وفات: اپریل 1572ء) ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ کے عظیم و جلیل القدر بزرگ تھے۔ سلطنت مغلیہ کے اولین شاہانِ مغلیہ میں اکبر، جہانگیر کو اُن سے عقیدت تھی۔ اُن کی وجہ شہرت سولہویں صدی عیسوی میں سلسلہ چشتیہ سمیت دیگر سلاسل ہائے تصوف کی جامعیت اور اپنی صلح کل جیسی فکر نے انھیں جنوبی ایشیا کے ممتاز ترین صوفیائے کرام میں شامل کر لیا۔ شہنشاہ اکبر نے اُن کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی اولاد اور سلسلہ امیر تیمور کے جانشینوں کی زِندگی کے لیے دعا کروائی تھی اور اِسی لیے شاہانِ مغلیہ کو اِن سے بہت عقیدت تھی۔ابتدائی مغل کتب ہائے تواریخ میں اُن کا تذکرہ بالخصوص اُن کی سوانح کے ضرور ملتا ہے۔

شیخ سلیم چشتی
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1478ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات اپریل1572ء (93–94 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فتح پور سیکری   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مقبرہ شیخ سلیم چشتی   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مغلیہ سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مؤثر خواجہ معین الدین چشتی   ویکی ڈیٹا پر (P737) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

خاندان

ترمیم

شیخ سلیم کی پیدائش دہلی میں 1478ء میں ہوئی تھی۔ اِن کا نسب فرخ بادشاہ، شاہِ کابل سے ملتا تھا اور قریبی آبا و اجداد دہلی میں آباد ہو گئے تھے اور وہیں شیخ سلیم کی پیدائش ہوئی تھی۔

تحصیل علم

ترمیم
 
مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر شیخ سلیم چشتی کی خدمت میں

تحصیل علم کے لیے شیخ سلیم نے خواجہ فضیل بن ایاز کے روحانی جانشین خواجہ ابراہیم کے سامنے زانوئے تلمذ کیا اور یہ دونوں اُس عہد کے نامور بزرگ تھے۔بعد ازاں ہندوستان سے باہر کے سفر پر روانہ ہوئے اور بائیس سال تک عرب، شام، ایشیائے کوچک اور عراق کے مسلم بزرگانِ دین کے مزارات اور خانقاہوں میں صرف کیے۔ ہندوستان سے باہر رہنے کی مدت میں بلاناغہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جاتے رہے اور اِن دونوں مقاماتِ مقدسہ میں سب اسفار ملا کر آٹھ سال صرف کیے۔ ہندوستان سے باہر دو بار گئے اور واپسی پر فتح پور سیکری میں مقیم ہو گئے تھے۔

تصوف

ترمیم

علوم اسلامی کی تشکیل کے بعد تمام مکاتب خیال کے ادب پر عبور حاصل کر لیا تو بعد ازاں سخت ریاضتوں میں مشغول رہے۔ طویل مراقبوں اور ریاضتوں کے بعد تصوف کی جانب مائل ہو گئے یعنی ایک حی و قیوم خدا پر شخصی اعتقاد اور اُس سے براہِ راست ربط کا ذوق کی جانب مائل ہوا جائے اور کچھ دِن بعد جب پانی پت کے شیخ مان نے اِن سے پوچھا کہ: آپ کا مقصد عقلی دلیل سے حاصل ہوا یا الہام سے؟ تو انھوں نے جواب دیا: دِل کی دِل کی راہ سے۔مغربی ایشیا میں اُن کی شہرت دور دور تک پھیلتی چلی گئی اور اِن کے شیخ الہند کے خطاب نے انھیں تمام زائرین میں جو ہندوستان سے آئے تھے، اَوَّل درجہ کا رتبہ دے دیا۔ بالآخر 1564ء میں آپ ہندوستان آگئے اور یہاں مذہبی حلقوں میں جوش بھڑک اُٹھا اور ہندوستان بھر میں آپ کا چرچا ہونے لگا۔[1]

ازدواج

ترمیم

شیخ سلیم چشتی نے شادی کی تھی اور کثیرالاولاد تھے۔ اواخر عمر میں اپنی تمام اولاد کو لے کر آگرہ سے چوبیس میل کے فاصلہ پر موضع سیکری کی پہاڑی پر مقیم ہو گئے تھے۔

 
بلند دروازہ سے ملحق مقبرہ شیخ سلیم چشتی، فتح پور سیکری (آگرہ)

معمولات

ترمیم

سیکری میں قیام کے دوران زہد و تقویٰ میں زندگی بسر کرتے رہے۔ دِن میں دو بار ٹھنڈے سے نہاتے تھے اور ضعیفی کے زمانے میں بھی پہاڑی کی شدید گرمی اور سردی میں وہ بجز ایک کُرتا اور باریک اَچکن کے کچھ اور نہیں پہنتے تھے۔[1]

وفات

ترمیم

شیخ سلیم چشتی نے 93 یا 94 سال کی عمر میں اپریل 1572ء میں فتح پور سیکری میں وفات پائی۔ شہنشاہ اکبر کے حکم پر اُن کی تدفین بلند دروازہ سے ملحق ایک قطعہ پر کی گئی جس پر بعد ازاں 1580ء میں شہنشاہ اکبر کے حکم پر ایک خوبصورت مقبرہ تعمیر کیا گیا جسے مقبرہ شیخ سلیم چشتی بھی کہا جاتا ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب بنارسی پرشاد سکسینہ: تاریخ جہانگیر، صفحہ 12، مطبوعہ دہلی، 2010ء