طلعت علی
طلعت علی ملک انگریزی:Talat Ali Malik(پیدائش:29 مئی 1950ءلاہور، پنجاب) ایک پاکستانی کرکٹر ہے۔[1] جنھوں نے 1972ء سے 1979ء تک دس ٹیسٹ کھیلے وہ سیدھے ہاتھ کے بلے باز اور میڈیم پیسر گیند باز تھے جو پاکستان کے ساتھ ساتھ لاہور،پاکستان انٹر نیشنل ائیر لائنز، پنجاب یونیورسٹی،اور یونائٹیڈ بینک اف پاکستان کی ٹیموں کی جانب سے کرکٹ مقابلوں میں شریک ہوئے 258 ان کے فرسٹ کلاس کیرئیر کا سب سے زیادہ سکور ہے۔
فائل:Talat Ali.jpeg | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ذاتی معلومات | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مکمل نام | طلعت علی ملک | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پیدائش | لاہور، پنجاب، پاکستان | 29 مئی 1950|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بلے بازی | دائیں ہاتھ کا بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
گیند بازی | دائیں ہاتھ کا میڈیم گیند باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بین الاقوامی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قومی ٹیم | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ٹیسٹ (کیپ 66) | 22 دسمبر 1972 بمقابلہ آسٹریلیا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ٹیسٹ | 23 فروری 1979 بمقابلہ نیوزی لینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کیریئر اعداد و شمار | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ماخذ: ای ایس پی این کرک انفو، 19 جون 2017 |
ٹیسٹ کرکٹ کی کارکردگی
ترمیمطلعت علی نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز 1972ء میں آسٹریلیا کے خلاف کیا تھا۔ جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم ایڈیلیڈ کے میدان پر پہنچی تاہم وہ پہلے ٹیسٹ میں صرف 7 رنز ہی بنا پائے۔ کم سکور کے باوجود انھوں نے اپنی وکٹ بچا لی۔ اگلے سیزن میں 1973ء میں انھیں نیوزی لینڈ کے خلاف ولنگٹن ٹیسٹ میں ایک مرتبہ پھر میدان میں اتارا گیا تاہم اس بار بھی وہ کوئی خاص کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے لیکن 1973ء میں جب انگلستان نے پاکستان کا دورہ کیا تو انھیں ایک بار پھر لاہور ٹیسٹ میں ٹیم کا حصہ بنایا گیا۔ انگلستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 355 رنز بنائے جس میں ڈینس ایمس کے 112 رنز نمایاں تھے۔ کیتھ فلیچر بھی 55 رنز کے ساتھ ایک بڑے سکور کی تکمیل میں معاون ثابت ہوئے تھے۔ پاکستان کی طرف سے سجاد پرویز اور مشتاق محمد نے 3,3 جبکہ سلیم الطاف نے 2 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا تھا۔ پیٹ پکوک کو مشتاق محمد کی گیند پر کیچ کرکے طلعت علی نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کیچ پکڑا۔ پاکستان کی بیٹنگ میں طلعت علی نے صادق محمد کے ساتھ اننگ کا آغاز کیا اور پہلی وکٹ کی شراکت میں 99 رنز بنالئے۔ اس موقع پر طلعت علی 187 منٹ میں 35 رنز بنا کر آئوٹ ہو گئے۔ تاہم پاکستان کو 422 رنز بنانے کے باعث انگلستان پر فوقیت حاصل ہو گئی۔ دوسری اننگ میں طلعت علی نے 72 رنز بنانے والے ٹونی گریگ کا کیچ پکڑا اور بیٹنگ کے شعبے میں 57 رنز کی عمدہ اننگ کھیلی۔ اس بار ان کے ساتھ صادق محمد 9 رنز بنا کر ہی جلدی پویلین لوٹ گئے تھے تاہم طلعت علی نے 8 چوکوں کی مدد سے 112 منٹ تک کریز پر قیام کرکے اس ٹیسٹ کو برابری پر ختم کرنے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ اسی سیریز میں دوسرے ٹیسٹ میں حیدرآباد کے مقام پر وہ محض ایک اننگ کھیل کر 22 رنز ہی بنا پائے تاہم کراچی کے تیسرے ٹیسٹ میں انھوں نے 33 اور 39 کی دو اننگز ترتیب دے ڈالیں تاہم اس کے باوجود انھیں 5 سال تک کسی ٹیسٹ سیریز کا حصہ نہیں بنایا گیا تاوقتیکہ پاکستان نے 1978ء میں انگلستان کا دورہ کیا۔ لارڈز کے ٹیسٹ میں انھوں نے 2 اور 40 رنز بنا لیے تھے مگر لیڈز کے دوسرے ٹیسٹ میں کوئی بھی رنز سکور کرنے سے قاصر رہے۔ فرسٹ کلاس میچوں میں عمدہ کارکردگی کے باوجود 5 روزہ کرکٹ میں ان کی یہ کارکردگی ان کے مداحوں کے لیے مایوسی کا باعث تھی۔
1979ء نیوزی لینڈ کے خلاف آخری سیریز
ترمیم1979ء میں نیوزی لینڈ میں انھیں 3 ٹیسٹ میچوں میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ میں ان کی آخری رونمائی تھی جس کے بعد وہ اس طرز کرکٹ میں دوبارہ نمودار نہ ہو سکے۔ سیریز کا پہلا ٹیسٹ کرائسٹ میں تھا۔ یہ ٹیسٹ مشتاق محمد کی عمدہ بائولنگ کے سبب یہ میچ 128 رنز سے جیت لیا تھا۔ طلعت علی نے مدثر نذر کے ساتھ اننگ کا آغاز کیا تاہم مدثر نذر صرف 7 رنز بنا کر ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ تاہم طلعت علی نے 119 منٹ میں 3 چوکوں کی مدد سے 40 رنز بنا کر ٹیم کی خاطر خواہ مدد کی۔ جاوید میانداد 81 اور ہارون رشید 40 نے بھی ٹیم کے سکور کو 271 رنز تک لے جانے میں خاطر خواہ مدد کی۔ رچرڈ ہیڈلے نے 62 رنز دے کر 5 وکٹ حاصل کیے تھے۔ بروس ایڈگر نے نیوزی لینڈ کی طرف سے 129 رنز کی شاندار کھیلی جس کا ساتھ رچرڈ ہیڈلی نے 42 کے ساتھ دیا۔ تبھی جا کر نیوزی لینڈ کی ٹیم 290 رنا بنا پائی۔ پاکستان کی طرف سے مشتاق محمد نے 4 اور سکندر بخت نے 3 کھلاڑیوں کو اپنے چنگل میں پھنسایا تھا۔ دوسری اننگ میں ایک مرتبہ پھر مدثر نذر 4 رنز پر ہی طلعت علی کا ساتھ چھوڑ گئے تاہم طلعت علی نے 183 منٹ میں 8 چوکوں کی مدد سے 61 رنز کی بہت خوبصورت اننگ کھیلی لیکن اس اننگ کے اصل ہیرو جاوید میانداد تھے جنھوں نے 420 کا طویل قیام کرکے 160 رنز کی ناقابل شکست اننگ کا جادو جگایا۔ اس اننگ کی بدولت پاکستان نے 6 کھلاڑیوں کے آئوٹ ہونے پر 323 رنز کی اننگ ڈکلیئر کردی اور 176 رنز پر نیوزی لینڈ کی ساری ٹیم کو پویلین بھیج کر اس ٹیسٹ میں جیت کو ممکن بنایا۔ مشتاق محمد نے 59/5 اور وسیم راجا نے 68/4 کے ساتھ کیوی بیٹنگ کو تتر بتر کر دیا تھا۔ مشتاق محمد اور جاوید میانداد کو مشترکہ طور پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔
اعداد و شمار
ترمیمطلعت علی نے 10 ٹیسٹ میچوں کی 18 اننگز میں 2 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 370 رنز 23.12 کی اوسط سے سکور کیے جس میں 61 ان کا سب سے زیادہ انفرادی سکور تھا۔ 2 سنچریاں اور 4 کیچز بھی ان کے ٹیسٹ کیریئر کا حصہ تھے۔ طلعت علی کا فرسٹ کلاس کیریئر بھی متاثر کن تھا۔ انھوں نے 115 میچوں کی 205 اننگز میں 15 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 7296 رنز سکور کیے جس میں 38.40 کی اوسط حاصل کرنے والے طلعت علی نے 258 رنز کی سب سے بڑی انفرادی اننگ سجائی تھی۔ 15 سنچریاں اور 32 نصف سنچریاں 43 کیچز کے ساتھ نمایاں تھیں۔ بولنگ میں طلعت علی نے فرسٹ کلاس میچوں میں 2 وکٹیں حاصل کیں[2]
بطور ریفری
ترمیمکرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد طلعت علی ان کھلاڑیوں میں شمار ہو گئے جنھوں نے بطور ریفری اپنا کیریئر شروع کیا۔ انھوں نے 1997ء میں سینٹ جانز کے میدان پر ویسٹ انڈیز اور سری لنکا کے ٹیسٹ میچ سے اپنے امپائرنگ کیریئر کا آغاز کیا۔ انھوں نے انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان اوول کے میدان پر 2001ء میں جب اپنا آخری ٹیسٹ میچ سپروائز کیا تو اس وقت وہ 10 ٹیسٹ میچوں میں بطور امپائر اپنے فرائض ادا کر چکے تھے۔ اسی طرح انھیں 1997ء میں ہی ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے درمیان پورٹ آف سپین کے میدان پر ایک روزہ مقابلے میں بطور امپائرنگ پہلی دفعہ شرکت کا موقع ملا اور جب آخری دفعہ 2000ء میں وہ جنوبی افریقہ بمقابلہ نیوزی لینڈ کیپ ٹائون میں امپائرنگ کے لیے بلائے گئے تو اس وقت تک وہ 26 ایک روزہ مقابلوں میں بطور امپائرنگ اپنے فرائض ادا کر چکے تھے۔ انھوں نے 13 ٹی ٹونٹی میچز میں بھی امپائرنگ کی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد
ترمیمطلعت علی نے بین الاقوامی میچ ریفری کے طور پر بھی خدمات انجام دیں اور انھوں نے اکتوبر 2006ء سے 17 اکتوبر 2008ء تک پاکستان کرکٹ ٹیم کے مینیجر کے طور پر بھی اہنے فرائض ادا کیے جب تک کہ کینیڈا میں منعقدہ کواڈرینگولر چار ملکی ٹی ٹوئنٹی سیریز کے فائنل میں پاکستان سری لنکا سے ہار گیا۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ انگریزی ویکیپیڈیا کے مشارکین۔ "Talat Ali"
- ↑ https://www.espncricinfo.com/player/talat-ali-43273
پیش نظر صفحہ سوانح پاکستانی کرکٹ سے متعلق سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |