((لاطینی: Biblia Hebraica)‏) عبرانی بائبل (Hebrew Bible یا Hebrew Scriptures) بائبل کے علما کی جانب سے تنک (عبرانی: תנ"ך‎) کے لیے استعمال کی جانے والی اصطلاح ہے۔

عبرانی بائبل کے نسخہ جات

ترمیم

عبرانی بائبل کے موجودہ نسخوں کا شمار دو ہزار سے زیادہ ہے۔ یہ  نسخہ جات مختلف  اشیاء پر لکھے ہیں اور مختلف  حالتوں میں محفوظ ہیں۔ کوئی نسخہ  اچھی حالت میں ہے کوئی  بُری حالت میں، کوئی  پھٹا ہوا ہے، کسی کے الفاظ  بمشکل نظر آتے ہیں۔ اور کوئی ایسا ہے کہ گویا ابھی لکھا گیا ہے۔ یہ نسخے  مختلف  ممالک سے دستیاب ہوئے ہیں۔ مثلاً  ملک کنعان سے اور بابل کی سرزمین، مغربی ایشیا، براعظم  افریقہ، بحر ہند کے جزائر سے، غیر یہود کے کتب خانوں سے، اطالیہ اورہسپانیہ کے ممالک سے چین اورمالابار  (ہندوستان) کے یہودی  ربیوں سے اور کتبِ مقدسہ  کے مدفون سے (جہاں اہل یہود ان کو دفن کر دیتے تھے) یہ نسخہ جات  دورِ حاضرہ  میں دستیاب ہوئے ہیں۔

نسخہ جات کی خصوصیت

ترمیم

یہ تمام نسخہ جات جو دوَرِ حاضرہ  میں دستیاب ہوئے ہیں تقریباً  لفظ بلفظ  اور حرف بحرف ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اور شاذونادر ان دو ہزار  نسخہ جات میں (جو مختلف  ممالک سے ملے ہیں اور مختلف  زمانوں میں مختلف  کاتبوں کے ہاتھوں  لکھے گئے ہیں) کوئی اختلاف ہم کو نہیں ملتا، یہاں تک کہ اگر کسی کاتب  نے کسی لفظ پر کسی  خاص وجہ  سے کوئی نشان لگادیا تو مابعد کے کاتبوں نے اس نشان کو بھی نقل کر دیا ہے۔ مثلاً پیدائش  33: 4 میں ہے ۔" عیسو اس کو (یعنی یعقوب کو) ملنے دوڑا  اوراسے گلے لگایا اوراس کی گردن سے لپٹا  اور اسے چوما۔" قدیم زمانہ میں کسی کاتب نے  الفاظ "اور اسے چوما" پر نقطے لگادیے اوریوں لکھ دیا "اسے چوما ۔" مابعد کے کاتبوں نے ایسی صحت کے ساتھ اس نسخہ کو نقل کیا کہ  آج تک ہماری عبرانی بائبل میں ان الفاظ پر  نقطے چھاپے جاتے ہیں۔  اور کوئی نہیں جانتا کہ  ان لفظوں کا کیا مطلب ہے۔ ایک یہودی ربی کا قول ہے کہ عیسو نے یعقوب کو چومتے وقت دانتوں سے کاٹا تھا اور یہ نقطے اس کے دانتوں کے نشان ظاہر کرتے ہیں! بہر حال  یہ دو ہزار  نسخے  اس قدر صحت  کے ساتھ نقل کیے گئے ہیں کہ ان کے نقطے اور شوشے بھی ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔

نسخوں کی تعداد

ترمیم

یہ دو ہزار نسخہ جات تقریباً ایک ہزار سال سے زیادہ پرانے نہیں ہیں۔ اس امر میں عہدِ جدید کی کتب کے نسخوں کو فوقیت حاصل ہے، کیونکہ انجیلی مجموعہ کے نسخے تاحال دوسری صدی کے دستیاب ہوئے ہیں۔ لیکن عہد عتیق کی قدیم کتابیں قریباً  تین ہزار سال ہوئے لکھی گئی تھیں۔ ان کے نسخے  جو ہمارے پاس موجود ہیں، صرف ایک ہزار سال پرانے ہیں۔ ان میں سب سے قدیم نسخہ  تورات  کی پانچ کتابوں کا ہے جو برطانیہ کے عجائب خانہ  میں محفوظ ہے۔ لینن گراڈ میں کتُب ِ انبیا کا ایک نسخہ ہے جس کی تاریخ 916ء تبث ہے۔ آکسفورڈ میں بھی ایک نسخہ موجود ہے جس میں عبرانی کتُب مقدسہ کی تقریباً  تمام کتابیں لکھی ہیں۔ یہ نسخہ دسویں صدی کا ہے۔ پس عہد عتیق  کی آخری کتاب کی  تاریخ  تصنیف  اور ان قدیم نسخوں میں قریباً  ایک ہزار سال کا وقفہ ہے۔

نسخوں کے ضائع ہونے کے اسباب

ترمیم
  1. جب یروشلیم 70ء میں برباد ہو گیا اور قوم یہود خستہ حال اور پراگندہ  ہو گئی تو یہودی لیڈروں نے اپنی قومی روایات کو برقرار اور قائم رکھنے کے لیے  100ء میں ایک مجلس منعقد کی۔ اس مجلس نے ان تمام کتب  کو جواب عہد عتیق  کے مجموعہ میں شامل ہیں کتبِ مقدسہ قراردے دیا اور یوں یہ کتابیں  ضائع ہونے سے بچ گئیں۔ علاوہ ازیں  اس مجلس نے ان پاک کتابوں  کی صحت  کے ساتھ نقل کرنے کے لیے قوانین وقواعد  بھی وضع  کیے۔
  2. بادشاہ اینٹی اوکس ایپی فینیز (Antiochus Epiphanies) نے جو اہل یہود کا جانی دشمن تھا اپنے عہد میں 175 تا 164 قبل مسیح اہل یہود کو ایسی ایذائیں دیں جن کے تصور  سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس نے حکم دے رکھا تھا کہ عبرانی کتبِ مقدسہ کے نسخہ جات  جہاں کہیں ملیں تلف کر دیے جائیں اور اگروہ کسی شخص کے پاس ملیں تو وہ جان سے مارا جائے (1مکابی 1: 54 یا 58) ظاہر ہے کہ اس ایذا رسانی کی وجہ سے  کتب مقدسہ  کے متعدد نسخے ضائع ہو گئے۔
  3. قرون وسطیٰ میں اور بالخصوص  صلیبی جنگوں کے زمانہ میں متعصب  مغربی مسیحی اہل یہود  سے نفرت اور کینہ رکھتے تھے اور ان کے جنون  نے عبرانی کتب مقدسہ کے بہت سے نسخے اور بالخصوص  تورات  کے نسخے  نذر آتش کردیے۔
  4. اہل یہود کا یہ دستور تھا، (اور یہ دستور دورِ حاضرہ میں بھی مروج ہے) کہ کتب مقدسہ  کے نسخے جو کسی وجہ سے استعمال کے قابل نہ رہتے تھے، بڑے ادب سے دفن کردیے  جاتے تھے تاکہ خدا کا کلام بے حرمتی سے محفوظ رہے۔ اورگلی کوچوں میں پاؤں کے نیچے روندانہ جائے اس غرض کے لیے ہر یہودی  عبادت خانہ کے ساتھ ایک مدفن ہوتا تھا، جہاں نہایت معمولی عیوب کی وجہ سے بھی نسخے دفن کردیے جاتے تھے۔ مثلاً اگر کسی  صفحہ پر کاتب کی دو سے زیادہ غلطیاں  بھی مل جاتیں تو وہ صفحہ احتیاطاً  دفن کر دیا جاتا۔ یہودی عبادت خانوں کے نسخہ جات  کے طومار جو روزانہ تلاوت کے باعث پھٹ جاتے تھے دفن کردیے جاتے تھے۔ اہل یہود میں دستور تھا کہ کلام اللہ کے جس حصہ کو روزانہ  پڑھتے اس کے شروع اور آخر کے الفاظ کو بوسہ دیتے تھے اوراس طرح مدتِ مدید کے بعد یہ الفاظ  مٹ جاتے یا بخوبی نظر نہ آتے تھے۔ اہل یہود ایسے نسخہ جات کو بھی دفن کردیتے تھے۔

مذکورہ بالا اور دیگر وجوہ کے باعث ہمارے پاس کتُب عہد عتیق  کے پرانے نسخے  موجود نہیں ہیں اور جو موجود بھی ہیں وہ تقریباً سب کے سب یا تو غیر اقوام کے دار العلوم اور کتُب خانوں سے یا انہی یہودی دفن گاہوں سے دستیاب ہوئے ہیں۔

حیدرآباد دکن کا نسخہ

ترمیم

حال ہی میں خبر ملی[1] ہے کہ عبرانی کا ایک قدیم ترین نسخہ حیدرآباد (دکن۔ واقع ہندوستان) سے دستیاب ہوا ہے جو کھجور کے پتوں (Palm Leaves) پر لکھا ہے۔ یہ نسخہ عثمانیہ یونیورسٹی کی سنسکرت  اکاڈیمی میں سالہا سال سے محفوظ تھا۔ اس نسخہ  پر تورات کی پہلی کتاب پیدائش کا 37واں  باب عبرانی میں لکھا ہے۔

یروشلیم کی عبرانی اکاڈیمی کے فضلا اس نادر نسخہ کی جانچ پڑتال کر رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسخہ کسی یہودی  عالم نے دوہزارسال ہوئے لکھا تھا جب یروشلیم  کی تباہی  کے بعد اہل یہود جنوبی ہند نقل مکانی کرکے آ گئے تھے۔[2] یہ نسخہ اس لحاظ سے بھی یکتا ہے کہ دنیا بھر کے نسخوں میں یہی ایک نسخہ ہے جو کھجور کے پتوں پر لکھا ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. The Times of India, Delhi 9th March, 1965.
  2. "مقدس توما رسول ہند" از علامہ برکت اللہ صفحہ 95