عربی ادب
عربی ادب عربی زبان کے ادب کو کہا جاتا ہے- حالانکہ عام طور سے یہ تصور پایا جاتا ہے کہ اسلام سے پہلے جزیرۂ عرب میں تعلیم یافتہ لوگ بہت کم تھے۔ تاہم جزیرۂ عرب میں خاص طور پر لبنان اور سوریہ میں کئی سنگ تراشی کے نمونے اور کتبے ایسے ملے ہیں، جن سے عربی زبان اور اس کے ادب یہاں موجود رہنے اور قابل لحاظ حد تک پزیرائی پانے کے شواہد کے طور تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
جدید عربی ادب
ترمیمجدید عربی ادب کے شہرہ آفاق شخصیت نجیب محفوظ (1911-2006) تھے۔ انھیں 1988ء میں ادب کے لیے نوبل انعام دیا گیا تھا۔ ان کے ادب کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ مصر کی سڑکوں پر بولی جانے والی عربی کو معیاری شکل کے طور پر انتہائی خوش اسلوبی سے استعمال کرتے تھے۔ اسرائیل کے ساتھ اپنے وطن مصر کی دوستی کی وکالت اور کچھ مذہبی موضوعات پر اپنے خیالات کے اظہار کی وجہ سے وہ مذہبی حلقوں میں عتاب اور فتووں کی زد میں آ گئے تھے۔ ان پر ایک جان لیوا حملہ بھی کیا گیا جس میں وہ ایک ہاتھ سے تقریبًا معذور ہو گئے تھے۔ بعد میں اپنی کہی کئی باتوں سے کنارہ کش ہو گئے تھے، اس کے باوجود نہ تو ان کے ایک دین بے زار شخص کے طور پر شہرت میں کمی آئی اور نہ مذہبی حلقوں نے ان کے لیے نفرت کم کی۔ کچھ حلقوں نے انھیں مسیحی بھی کہا تھا۔ تاہم ان کا انتقال ایک مسلمان کے طور پر ہوا اور ان کی نماز جنازہ جامعہ ازہر کے شیخ طنطاوی نے پڑھائی تھی۔
لبنان سے عالمی شہرت یافتہ ادیب جبران خلیل جبران (1883-1931) پیدا ہوئے۔ ان کی جامع اور کثیر المعانی شاعری کا تذکرہ تقریبًا ہر زبان کے ادبی حلقے میں ہوتا ہے۔ عربی زبان کی مشہور مصنفات میں نوال السعدوی کا عمومًا نام لیا جاتا ہے۔[1]
بھارت میں عربی ادب
ترمیمحالانکہ بھارت میں عربی زبان عام بول چال کی زبان نہیں ہے، تاہم بھارت میں پچھلے چودہ سو سال کے دوران کئی عربی ادب کے شہ پارے دیکھے گئے ہیں۔ اس کی کچھ مثالیں ذیل میں درج ہیں:
1۔ مجمع بھار الانواز فی غرائب التنزیل و لطائف الاخبار کو محمد طاہر الفاتحی نے 986ھ میں لکھا تھا، یہ صحاح ستہ کی شرح ہے۔
2۔ تحفۃ المجاھدین کو زین الدین المعبری نے لکھا تھا جس کا انتقال 991ھ / 1583ء کے بعد ہوا۔
3۔ متی تکون الکتابۃ مؤثرۃ؟
4۔ تفسیر الرحمن و تیسر المنان کو علی الدین المہائمی نے لکھا، جس کا انتقال 1431ء میں ہوا۔[2]