فاطمہ بنت خطاب
فاطمہ بنتِ خطاب امیر المومنین عمر فاروق کی بہن ہیں۔
فاطمہ بنت خطاب | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | مکہ |
مقام وفات | مدینہ منورہ |
شوہر | سعید بن زید |
والد | خطاب بن نفیل |
والدہ | حنتمہ بنت ہشام بن المغیرہ |
بہن/بھائی | |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمفاطمہ نام، اُمّ جمیل کنیت، نکاح: سعید بن زید سے نکاح ہوا۔ پورا نام فاطمہ بنت الخطاب بن نفيل بن عبد العزى القرشیہ العدویہ تھا والدہ حنتمہ بنت ہاشم بن المغيرة بن عبد الله بن عمر بن مخزوم تھیں،
اسلام
ترمیمسعید بن زید کے ساتھ مسلمانوں ہوئیں یہ اوائلِ اسلام کا واقعہ ہے، جب رسول اللہ دار ارقم میں نہ گئے تھے ان کے کچھ دنوں کے بعد ان کے بھائی یعنی عمرمسلمان ہوئے اور انہی کے سبب سے ہوئے، اس کا قصہ جیسا کہ عمرنے خود بیان کیا ہے کہ عمر حمزہ بن عبد المطلب کے مسلمان ہونے کے بعد آنحضرتﷺ کے پاس جا رہے تھے، راستہ میں ایک مخزومی صحابی سے ملاقات ہوئی، پوچھا کہ تم نے اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر محمد کا مذہب اختیار کیا ہے؟ بولے ہاں! لیکن پہلے اپنے گھر کی خبر لو، تمھاری بہن اور بہنوئی نے بھی محمد (ﷺ ) کا مذہب قبول کر لیا ہے، حضرت عمر سیدھے بہن کے گھر پہنچے، دروازہ بند تھا اور وہ قرآن پڑھ رہی تھی، ان کی آہٹ پاکر چپ ہوگئیں اور قرآن کے اجزاء چھپادیئے۔ لیکن آواز ان کے کان میں پڑچکی تھی، پوچھا کہ یہ کیا آواز تھی؟ انھوں نے کہا: کچھ نہیں، بولے: میں سن چکا ہوں کہ تم دونوں مرتد ہو گئے ہو۔ یہ کہہ کر بہنوئی سے دست و گریبان ہو گئے۔ فاطمہ بچانے کے لیے آئیں تو ان کی بھی خبر لی، بال پکڑ کر گھسیٹا اور اس قدر مارا کہ ان کا بدن لہو لہان ہو گیا۔ اسی حالت میں ان کی زبان سے نکلا: عمر! جو ہو سکے کرو، لیکن اب اسلام دل سے نہیں نکل سکتا۔ ان الفاظ نے عمر کے دل پر ایک خاص اثر کیا، بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا ان کے بدن سے خون جاری تھا، یہ دیکھ کر اور بھی رقت ہوئی، فرمایا کہ تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھ کو بھی سناؤ، فاطمہ نے قرآن کے اجزاء لاکر سامنے رکھ دیے عمر ان کو پڑھتے جاتے تھے اور ان پر رعب چھاتا جاتا تھا، یہاں تک کہ ایک آیت پر پہنچ کر پکار اُٹھے: اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہ۔[1]
ہجرت
ترمیماپنے شوہرسعید بن زیدکے ساتھ ہجرت کی۔ اولاد میں ایک لڑکا چھوڑا عبد الرحمن نام تھا۔[2]