موروثی گناہ
موروثی گناہ (انگریزی: Original Sin) ایک مسیحی عقیدہ جس کے مطابق انسان کی سرشت میں گناہ شروع سے موجود ہوتا ہے۔ یہ گناہ آدم و حوا کے باغِ عدن میں گناہ کرنے کے باعث بنی نوع انسان میں داخل ہوا اور ایک پشت سے دوسری پشت تک ورثہ میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔[1][2][3][4] بدی انسان کے دل اور دماغ کے تصورات اور خیالات میں موجود رہتی ہے۔[5] پولس رسول اس مسئلہ کو نجات کے انتظام سے منسلک کرتے ہیں اور وہ لکھتے ہیں جس طرح آدم کی وجہ سے گناہ دنیا میں آیا اُسی طرح یسوع مسیح کے طفیل گناہ سے نجات حاصل کرنے کا انتظام بھی کیا گیا۔[6] مُقدس یعقوب گناہ کو انسانی خواہشوں میں پنہاں دیکھتا ہے کیونکہ اُن کے مطابق خواہش حاملہ ہوکر گناہ کو جنتی ہے۔[7][8] موروثی گناہ کا مسئلہ کلیسیا میں اکثر زیر بحث رہا ہے۔ یہ بحث خاص طور پر 354ء – 430ء کے درمیانی عرصے میں جاری تھی۔ مُقدس آگسٹن ہیپوی اس مسئلہ کا حامی تھا۔ لیکن ایک شخص جن کو مسیحیت میں ایک ”بدعتی“ پکارا جاتا ہے، ”فلاغیوس“ نے (جو تقریباً 383ء سے 410ء تک روم میں رہے) اس کے خلاف یہ موقف اختیار کیا کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ نیکی اور بدی سے مُبّرا ہوتا ہے اور یہ انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ نیک یا بری راہ چُنے۔ وہ بدی کو انسانی سرشت میں ایک رجحان نہیں بلکہ ایک عمل تصور کرتے تھے۔ تحریکِ اصلاحِ کلیسیا کے وقت لُوتھر اور دوسرے مصلحِین نے پھر سے مقدس آگسٹن کے نظریہ کی تائید کی۔ جبکہ اہل اسلام موروثی گناہ کے قائل نہیں ہیں۔
حوالہ جات
ترمیمویکی ذخائر پر موروثی گناہ سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |