مولوی عبد الحق
بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبد الحق (پیدائش: 20 اپریل 1870ء - وفات: 16 اگست 1961ء) برِ صغیر پاک ہند کے عظیم اردو مفکر، محقق، ماہر لسانیات، معلم اور انجمن ترقی اردو اور اردو کالج کراچی (موجودہ وفاقی اردو یونیورسٹی برائے فنون، سائنس اور ٹیکنالوجی) کے بانی تھے۔ انھوں نے اپنی تمام زندگی اردو کے فروغ، ترویج اور اشاعت کے لیے وقف کردی۔
مولوی عبد الحق | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 20 اپریل 1870ء ہاپوڑ |
وفات | 16 اگست 1961ء (91 سال) کراچی |
شہریت | پاکستان برطانوی ہند |
عملی زندگی | |
مادر علمی | علی گڑھ مسلم یونیورسٹی |
پیشہ | ماہرِ لسانیات |
شعبۂ عمل | علم زبان |
دستخط | |
درستی - ترمیم |
اردو ادب ادبیاتِ اُردُو | |
---|---|
اردو ادب | |
اردو ریختہ | |
اہم شخصیات | |
امیر خسرو (اردو ادب کے بانی) - ولی دکنی (اردو شاعری کے بانی) - مير تقی میر - مرزا غالب - مولوی عبد الحق (بابائے اردو) - علامہ اقبال | |
اردو مصنفین | |
– – | |
شکلیں | |
غزل - داستان گوئی - نظم – | |
ادارے | |
انجمن ترقی اردو اردو تحریک ادبی انعامات | |
متعلقہ باب باب:ادب باب:پاکستان | |
حالات زندگی
پیدائش و خاندانی پس منظر
مولوی عبد الحق 20 اپریل،1870ء کو سراواں (ہاپوڑ)، میرٹھ ضلع، اترپردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے[1][2]۔ مولوی عبد الحق کے بزرگ ہاپوڑ کے ہندو کائستھ تھے، جنھوں نے عہدِ مغلیہ میں اسلام کی روشنی سے دلوں کو منور کیا اور ان کے سپرد محکمہ مال کی اہم خدمات رہیں۔ مسلمان ہونے کے بعد بھی انھیں (مولوی عبد الحق کے خاندان کو) وہ مراعات و معافیاں حاصل رہیں جو مغلیہ دور کی خدمات کی وجہ سے عطا کی گئیں تھیں۔ ان مراعات و معافیوں کو انگریز حکومت نے بھی بحال رکھا۔[3]
تعلیم و ملازمت
مولوی عبد الحق کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی پھر میرٹھ میں پڑھتے رہے۔ 1894ءمیں علی گڑھ کالج سے بی اے کیا۔ علی گڑھ میں سرسید احمد خان کی صحبت میسر رہی۔ جن کی آزاد خیالی اور روشن دماغی کا مولوی عبد الحق کے مزاج پر گہرا اثر پڑا۔ 1895ء میں حیدرآباد دکن میں ایک اسکول میں ملازمت کی اس کے بعد صدر مہتمم تعلیمات ہوکر اورنگ آباد منتقل ہو گئے۔ ملازمت ترک کرکے عثمانیہ کالج اورنگ آباد کے پرنسپل ہو گئے اور 1930ء میں اسی عہدے سے سبکدوش ہوئے۔[4]
انجمن ترقی اردو
جنوری 1902ء میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشن کانفرنس علی گڑھ کے تحت ایک علمی شعبہ قائم کیا گیا جس کانام انجمن ترقی اردو تھا۔ مولانا شبلی نعمانی اس کے سیکرٹری رہے تھے۔ 1905ء میں نواب حبیب الرحمن خان شیروانی اور 1909ء میں عزیز مرزا اس عہدے پر فائز ہوئے۔ عزیز مرزا کے بعد 1912ء میں مولوی عبد الحق سیکرٹری منتخب ہوئے جنھوں نے بہت جلد انجمن ترقی اردو کو ایک فعال ترین علمی ادارہ بنا دیا۔ مولوی عبد الحق اورنگ آباد (دکن ) میں ملازم تھے وہ انجمن کو اپنے ساتھ لے گئے اور اس طرح حیدرآباد دکن اس کا مرکز بن گیا۔ انجمن کے زیر اہتمام لاکھ سے زائد جدیدعلمی، فنی اور سائنسی اصطلاحات کا اردو ترجمہ کیا گیا۔ نیز اردو کے نادر نسخے تلاش کرکے چھاپے گئے۔ دو سہ ماہی رسائل، اردو اور سائنس جاری کیے گئے۔ ایک عظیم الشان کتب خانہ قائم کیا گیا۔ حیدرآباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی انجمن ہی کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔ اس یونیورسٹی میں ذریعہ تعلیم اردو تھا۔ انجمن نے ایک دار الترجمہ بھی قائم کیا جہاں سینکڑوں علمی کتابیں تصنیف و ترجمہ ہوئیں۔ اس انجمن کے تحت لسانیات، لغت اور جدید علوم پر دو سو سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔ تقسیم ہند کے بعدانہوں نے اسی انجمن کے اہتمام میں کراچی، پاکستان اردو آرٹس کالج، اردو سائنس کالج، اردو کامرس کالج اور اردو لا کالج جیسے ادارے قائم کیے۔ مولوی عبد الحق انجمن ترقی اردو کے سیکریٹری ہی نہیں مجسّم ترقّی اردو تھے۔ ان کا سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، پڑھنا لکھنا، آنا جانا، دوستی، تعلقات، روپیہ پیسہ غرض کہ سب کچھ انجمن کے لیے تھا۔[1]
بابائے اردو کا خطاب اور دیگر اعزاز
1935ء میں جامعہ عثمانیہ کے ایک طالب علم محمد یوسف نے انھیں بابائے اردو کا خطاب دیا جس کے بعد یہ خطاب اتنا مقبول ہوا کہ ان کے نام کا جزو بن گیا۔ 23 مارچ، 1959ء کو حکومت پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔[1]
تصانیف وتالیفات
وہ کتابیں جو مولوی عبد الحق نے لکھیں یا جن کو تحقیق و حواشی کے ساتھ شائع کیا:
- نکات الشعرا
- دیوانِ تابان
- گلشنِ عشق
- قطب مشتری
- دیوانِ اثر
- تذکرہ ریختہ گویاں
- مخزن شعرا
- ریاض الفصحا
- عقدِ ثریا
- کہانی رانی کیتکی اور اودھ بھان
- تذکرۂ ہندی
- چمنستانِ شعرا
- ذکرِ میر
- مخزنِ نکات
- اُردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا کام
- قواعد اُردو
- معراج العاشقین
- باغ و بہار
- سب رس از ملاّ وجہی
- قدیم اُردو
- سرسیّد احمد خاں - حالات و افکار
- چند ہم عصر
- نصرتی-حالات اور کلام پر تبصرہ
- مرحوم دہلی کالج
- پاکٹ انگریزی اُردو ڈکشنری
- اسٹوڈنس انگریزی اُردو ڈکشنری
- اُردو انگریزی ڈکشنری
- اسٹنڈرڈ انگلش اُردو ڈکشنری
- لغت ِکبیر جلد اول
- انتخاب کلامِ میر
- دریائے لطافت
- گل عجائب
- انتخابِ داغ
- اُردو صرف و نحو
- خطبات گارساں د تاسی
- دی پاپولر انگلش اُردو ڈکشنری
- افکارِ حالی
- پاکستان کی قومی و سرکاری زبان کا مسئلہ
- سر آغا خاں کی اُردو نوازی
ناقدین کی رائے
ڈاکٹر عبادت بریلوی کے مطابق
” | اگر بابائے اردو مولوی عبد الحق نہ ہوتے اور اردو سے انہیں یہ والہانہ وابستگی اور مجنونانہ لگاؤ نہ ہوتا تو کیا واقعی موجودہ دور میں اردو کو وہ مرتبہ حاصل ہوتا جو آج بہت سی زبانوں کے لیے باعث رشک ہے انھوں نے اردو کو اس کی اہمیت کا احساس دلایا اس کو اپنے پیروں پر کھٹر ا ہونا سکھایا زندگی کی راہوں پر دوڑایا اس کے بازؤں میں حریفوں سے مقابلہ کی سکت پیدا کی اردو کی تاریخ ، مخالفت کی تاریخ کشمکش کی تاریخ ہے ہنگاموں کی تاریخ ہے بابائے اردو کی ذات نہ ہوتی تو اردو کے لیے ان منزلوں سے گزرنا آسان نہ ہوتا ممکن تھا کہ وہ ان معرکوں میں کام آجاتی اور آج کوئی اس کا نام بھی نہ لیتا۔ بابائے اردو کے طفیل ہی وہ زندہ اور سرخ رو ہے دنیا میں شاید ہی کوئی مثال، زبان سے اس قدر بے پناہ محبت کی کہیں اور ملتی ہو وہ سپردگی اور انہماک اور استغراق اور وہ دُھن جو جنون کی سرحد سے ٹکراتی ہے دینا کے عظیم ترین دماغوں ہی کا حصہ ہے یہی وجہ ہے کہ بابائے اردو کی اردو سے یہ لگن تحریک پاکستان کی ریڑ ھ کی ہڈی بنی[5]۔ | “ |
وفات
بابائے اردو مولوی عبد احق 16 اگست، 1961ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پا گئے۔ وہ وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی کے عبد الحق کیمپس کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔[1][6][3]
حوالہ جات
- ^ ا ب پ ت ص 190، پاکستان کرونیکل، عقیل عباس جعفری، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء
- ↑ ص 12، بابائے اردو مولوی عبد الحق بطور محقق (پی ایچ ڈی مقالہ)، سید معراج نیر، پنجاب یونیورسٹی لاہور، 1991
- ^ ا ب "Homage paid to Baba-i-Urdu on his 55th death anniversary"۔ ڈاؤن
- ↑ "بابائے اردومولوی عبد الحق"
- ↑ بابائے اردومولوی عبد الحق، ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی، ہماری ویب، پاکستان
- ↑ ص 125، بابائے اردو مولوی عبد الحق بطور محقق (پی ایچ ڈی مقالہ)، سید معراج نیر، پنجاب یونیورسٹی لاہور، 1991