نسل پرستی
نسل پرستی، ایک نظریہ ہے جو جینیاتی بنیادوں پر کسی انسانی نسل کا ممتاز ہونے یا کمتر ہونے سے متعلق ہے۔ نسل پرستی خالصتاّ کسی بھی خاص انسانی نسل کی کسی دوسری انسانی نسل یا زات پر فوقیت یا احساس برتری بارے امتیاز کا ایک نظریہ ہے۔[1] نسل پرستی کی وجہ سے پڑنے والے اثرات کو نسلی امتیاز کا نام دیا جاتا ہے۔ ادارہ جاتی یا بڑے پیمانے پر نسل پرستی سے مراد کسی ایک نسلی گروہ یا آبادی کا دوسری نسل انسانی کے گروہ پر نسل کی بنیاد پر سہولیات، حقوق اور سماجی فوائد تک رسائی محدود کر دی جاتی ہے اور عمومی طور پر نسل پرستی کے شکار گروہ کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔
نسلی امتیاز خصوصی طور پر لوگوں کے مختلف گروہوں میں حیاتیاتی درجہ بندی کے فرق کو واضع کرتا ہے۔ گو کوئی بھی شخص نسل، تہذیب یا جینیاتی خصوصیات کی بنیاد پر نسلی امتیاز کا شکار ہو سکتا ہے، لیکن عمومی طور پر اس کے متوقع مجموعی نتائج انتہائی بھیانک ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق، نسل پرستی اور گروہی امتیاز میں کسی بھی قسم کا کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ دونوں مجموعی طور پر ایک طرح کے معاشرتی مسائل ہیں۔
اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ نسل پرستی کی تعریف اور عمومی مطلب میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور اوائل میں یہ ایک انتہائی سادہ سی اصطلاح تھی، جس کے مطابق انسان جینیاتی لحاظ سے مختلف نسلوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ان میں نسلی امتیاز یعنی ایک نسل کو کسی دوسری نسل پر فوقیت حاصل ہے۔[3] محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نسل پرستی میں ترامیم اور اس کے پرچار میں سماجی سائنسدانوں کا غیر ارادی طور پر بڑا ہاتھ ہے۔ اس ضمن میں انیسویں صدی میں ہونے والے نسلی امتیاز کے چیدہ واقعات اور اس کے نتائج کی مثال دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح جینیات اور انسانی نسلوں بارے تحقیق نے بھی نسل پرستی کی لعنت کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس لحاظ سے انسانی نسلوں کی مخصوص جینیات، عادات، تاریخ، آبائی علاقہ جات اور گروہ سے تعلق چند ایسی معلومات تھیں جو دنیا میں نسل پرستی اور گروہ بندی کو مضبوط کرنے کا سبب بنی۔گو سائنسدان اور سماجی ماہرین اور تاریخ دان اس الزام کی تردید کرتے ہیں لیکن یہ پچھلے دو سو سال میں اس بارے ہونے والی تحقیق اور اس کے نتیجے میں بڑھنے والی نسل پرستی اور نسلی امتیاز کے واقعات میں اضافہ اس بات کے شاہد ہیں۔