نظام آباد، تلنگانہ
نظام آباد، تلنگانہ (انگریزی: Nizamabad, Telangana) بھارت کا ایک آباد مقام جو نظام آباد ضلع میں واقع ہے۔[1]
నిజామాబాద్ اندور - Indur | |
---|---|
شہر | |
سرکاری نام | |
ملک | بھارت |
ریاست | تلنگانہ |
فہرست بھارت کے علاقہ جات | سطح مرتفع دکن |
ضلع | Nizamabad |
وجہ تسمیہ | نظام حیدر آباد |
حکومت | |
• قسم | Mayor-council |
• مجلس | Nizamabad Municipal Corporation |
• Member of Parliament | K.Kavitha (TRS) |
• رکن قانون ساز اسمبلی | B.Ganesh (TRS) |
رقبہ | |
• کل | 144 کلومیٹر2 (56 میل مربع) |
بلندی | 395 میل (1,296 فٹ) |
آبادی (2011) | |
• کل | 310,467 |
• درجہ | بھارت کے شہر بلحاظ آبادی (India) , 3rd (state) |
نام آبادی | Nizamabadi[حوالہ درکار] |
زبانیں | |
• دفتری | تیلگو، اردو |
منطقۂ وقت | بھارتی معیاری وقت (UTC5:30) |
ڈاک اشاریہ رمز | 5030 01,02,03 |
رمز ٹیلی فون | 91-8462 |
گاڑی کی نمبر پلیٹ | TS 16 |
انسانی جنسی تناسب | 1001/1000 Females/males مذکر/مؤنث |
خواندگی | 80.31% |
لوک سبھا constituency | Nizamabad |
ودھان سبھا constituency | Nizamabad Urban & Nizamabad Rural |
ویب سائٹ | www |
تفصیلات
ترمیمنظام آباد، تلنگانہ کا رقبہ 144 مربع کیلومیٹر ہے اور اس کی مجموعی آبادی 310,467 افراد پر مشتمل ہے اور 395 میٹر سطح سمندر سے بلندی پر واقع ہے۔
جغرافیہ
ترمیمشہر نظام آباد کو اندور یا اندراپوری بھی کہا جاتاہے۔ یہ شہر سابق ریاست آندھرا پردیش اور نئی ریاست تلنگانہ کا ایک ضلع اور میونسپل کارپوریشن ہے جس کی کُل آبادی 10لاکھ سے زیادہ ہے۔ اور ریاست کے دس گنجان آبادی والے شہروں میں شمار کیا جاتاہے۔ ضلع کے 36منڈلس ہیں اور وہ ریاست کے دار الحکومت حیدرآباد سے 171کلومیٹر شمال میں واقع ہے ۔
تاریخ
ترمیمآٹھویں صدی عیسوی میں نظام آباد پر سلطنت راشٹرکوٹ خاندان کے بادشاہ اندرا ولبھ پنتھیا نے حکومت کی تھی۔ 1905ء میں سکندرآباد اور منماڑ کے درمیان براہ نظام آباد ریلوے لائن بچھائی گئی اور اسٹیشن کا نام نظام سرکار نظام الملک کے نام پر نظام آباد رکھا گیا۔ 1923ء میں دریائے مانجرا پر اچم پیٹ کے مقام پر نظام ساگر ڈیم بنایا گیا جس سے ہزاروں ایکڑ اراضی سیراب ہوتی ہے۔ ضلع نظام آباد کے کئی اہم ٹاؤنس اور منڈلس ہیں جیسے بودھن، آرمور، کاماریڈی، بانسواڑہ، بھیمگل اور یلاریڈی وغیرہ ہیں۔ بودھن کے علاقے شکر نگر میں ایشیا کی مشہور نظام شوگر فیاکٹری قائم ہے۔ 1915ء میں غلام یزدانی ناظم محکمہ آثار قدیمہ نے بودھن کی دیول نما مسجد سے ایک ستون برآمد کیا۔ جس پر کنڑی اور فارسی تحریر کندہ تھی۔ جسے محکمہ معتمدی امور عامہ سرکار عالی کو ترجمہ کے لیے بھیجا گیا تھا جس سے پتہ چلا کہ راشٹر کوٹ کے ایک راجا اندر ولبھیا تنیا اندر سوم نے بودھنیا بودھن کو شائد اپنی راجدھانی بنایا تھا اسی لیے گمان غالب ہے کہ نظام آباد کا نام اندور اسی مناسبت سے رکھا گیا۔
سلاطین دہلی کا دور
ترمیم1304ء میں سلطان علاء الدین خلجی نے اپنے سپہ سالار ملک کافور کو راجدھانی ورنگل کی فتوحات کے لیے بھیجا تو یہ اندور کو بھی تاراج کرتا ہوا لوٹا۔ اس کے بعد سلطان محمد تغلق نے ملک فخر الدین کی قیادت میں دکن کی مہم سر کی تو موضع اندور اور قندھار اس کے زیر اثر آ گئے۔ تیرھویں صدی کے وسط تک دکن کا سارا علاقہ بہمنی حدود میں داخل ہو گیا تھا۔ اور موضع اندور ضلع بیدر کے تحت آ گیا تھا۔گولکنڈہ میں قطب شاہی دور زرین دور کہلاتا ہے۔ علم و ہنر فنون لطیفہ کا فروغ ‘بزرگان دین علما اور فضلا کا جمگھٹا‘گویا گولکنڈہ ایک پرکشش علاقہ بن گیا۔ عالیشان عمارتیں‘مساجد و مقبرے وغیرہ یہ پرشکوہ یادگاریں آج بھی سیاحتی مراکز بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ضلع نظام آباد کے تاریخی علاقوں میں بھی تاریخی عمارتیں صحیح و سالم ہیں۔
مغلیہ دور
ترمیمسولہویں صدی عیسوی میں مغلوں کے دکن پر حملے سے بہمنی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ اور موضع اندور بھی مغلیہ سلطنت کے زیر اثر آ گیا۔ محمد کاظم کو علاقے کا فوجدار مقرر کیا گیا۔ اس طرح موضع اندور 1628ء تا 1707ء فوجداری عمل کے تحت رہا۔ تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اورنگ زیب جب دکن فتح کرنے کے لیے نکلا تو مرہٹواڑے کی سرحد عبور کرتا ہوا بودھن‘موضع اندور ‘بالکنڈہ اور بھیمگل کے راستے سے گولکنڈہ کا رخ کیا۔ ضلع نظام آباد دراصل شمالی ہند سے دکن یعنی گولکنڈہ تک پہنچنے کے راستے میں واقع ہے۔ اور گولکنڈہ پر حملے کی صورت میں دشمن کی فوجوں کو اسی راستے سے گذرنا پڑتا تھا۔ حضرت بندہ نواز گیسو دراز ؒ جب حیدرآباد آئے تو اسی راستے سے ان کا گذر ہوا تھا۔ اور حضرت بابا نتھر شاہ ابدال ؒ واقع بابا پور نے بھی کچھ دنوں قیام کیا تھا۔ اور نگ زیب کی آمد دکن کا بھی راستہ یہی تھا۔ اور وہ براہ بودھن نظام آباد گولکنڈہ پہنچا تھا۔ بودھن میں شہنشاہ کی شب بسری کی کہاوت زبان زد خاص و عام ہے۔ کہ اس شب شہنشاہ کی نماز فجر قضا ہو گئی تھی۔ تب شہنشاہ نے اس سرزمین سے متعلق کہا تھا کہ ’’ بودن جائے بودنیست‘‘ یہاں ایک چھوٹی سی مسجد اس دور کیا یاد گار ہے۔ اسی طرح بالکنڈہ اور بھیمگل میں بھی ہے۔
آصف جاہی دور
ترمیمدکن کی فتح کے بعد 1707ء میں اورنگ زیب کے انتقال کے بعد مغلیہ سلطنت کمزور ہو گئی۔ اور دکن میں724ء تا 1947ء آصف جاہی سلطنت قائم ہوئی۔ اور کل سات حکمرانوں نے آصف جاہی سلطنت کو بڑی شان و شوکت کے ساتھ چلایا۔1948ء میں ریاست حیدرآباد کا ہند یونین میں انضمام عمل میں آیا۔ اور 1956ء میں لسانی بنیادوں پر ریاستوں کی از سر نو تشکیل کے ضمن میں یکم نومبر1956ء کو ریاست آندھرا پردیش کا قیام عمل میں آیا۔ اور اب2 جون 2014ء کو اسی آندھرا پردیش ریاست کی تقسیم کے ساتھ ریاست تلنگانہ وجود میں آئی۔
دورِ حاضر
ترمیمنئی ریاست تلنگانہ کا ضلع نظام آباد ہمہ لسانی اور تہذیبی اور ثقافتی ورثہ کا گہوارہ ہے۔ تلگو اور اردو اس ضلع کے عوام کی اہم زبانیں ہیں۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ انگریزی ویکیپیڈیا کے مشارکین۔ "Nizamabad, Telangana"
|
|