نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبراڈور
نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار (Newfoundland and Labrador) کینیڈا کا ایک صوبہ ہے جس نے دسویں نمبر پر یعنی سب سے آخر میں الحاق کیا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے صوبہ نیو فاؤنڈ لینڈ جزیرہ اور لیبرے ڈار جو بقیہ ملک سے جڑا ہوا ہے۔ 1949 میں کینیڈا میں شمولیت کے وقت پورا صوبہ نیو فاؤنڈ لینڈ کہلاتا تھا لیکن تب سے یہاں کی حکومت خود کو نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار کی حکومت کہتی ہے۔ 6 دسمبر 2001 کو کینیڈا کے آئین میں ترمیم کر کے صوبے کا نام سرکاری طور پر بدل کر نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار رکھ دیا گیا۔ روز مرہ زندگی میں تاہم کینیڈا کے باشندے ابھی تک اسے نیو فاؤنڈ لینڈ کے صوبے کے نام سے پکارتے ہیں جبکہ لیبرے ڈار کے حصے کو لیبرے ڈار کہتے ہیں۔ نیو فاؤنڈ لینڈ دراصل انگریزی کا لفظ ہے جس کا مطلب نئی دریافت شدہ زمین ہے۔ لیبرے ڈار پرتگالی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب زمین کا مالک ہے۔ اسے پرتگالی مہم جوآؤ فریننڈس لیوروڈور نے دریافت کیا۔ اکتوبر 2007 کے مطابق صوبے کی آبادی 507475 نفوس ہے۔ نیو فاؤنڈ لینڈ کے لوگ نیو فاؤنڈ لینڈر کہلاتے ہیں اور لیبرے ڈار کے لوگ لیبرے ڈارین کہلاتے ہیں۔ نئو فاؤنڈ لینڈ کا انگریزی، فرانسیسی اور آئرش زبانوں کے لیے اپنے لہجے ہیں۔ لیبرے ڈار میں بولی جانے والی انگریزی کا لہجہ نیو فاؤنڈ لینڈ سے بہت ملتا جلتا ہے۔
نیو فاؤنڈ لینڈ کی کالونی
ترمیمنیو فاؤنڈ لینڈ تاریخی اعتبار سے کئی چیزوں میں پہلے نمبر پر ہے۔ مثلاً براعظم امریکا میں یورپیوں کی طرف سے بسائی جانے والی پہلی کالونی یہاں ہے۔ یہ جگہ تقریباً 1000 عیسوی میں دریافت کی گئی تھی۔ اس دور کے کھنڈر اور نمونے ابھی تک اس جگہ موجود ہیں اور اسے اب عالمی وراثتی جگہ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ جزیرہ پہلے بیوتھک اور پھر میکماک سے آباد رہا۔ جان کبوٹ وائی کنگ کے بعد یہاں آنے والا پہلا یورپی تھا جو 24 جون 1497 میں ادھر پہنچا۔ 5 اگست 1583 کو سر ہمفرے گلبرٹ نے نیو فاؤنڈ لینڈ کو باقاعدہ طور پر انگلستان کی بیرون ملک پہلی نو آبادی کا بنانے کا اعلان کیا۔
1610 سے 1728 تک مالکانہ حقوق کے ساتھ گورنر متعین کیے جاتے رہے تاکہ جزیرے پر نئی آبادیاں بنتی رہیں۔ جان گائے کوپر کوؤ میں بننے والی پہلی نو آبادی کا گورنر تھا۔ دوسری نو آبادیوں میں برسٹلز ہوپ، ری نیوز، ساؤتھ فاک لینڈ اور آوالون شامل ہیں۔ آوالون بعد ازاں 1623 میں صوبہ بنی۔ وہ پہلا گورنر جسے نیو فاؤنڈ لینڈ پر مکمل قبضہ دیا گیا سر ڈیوڈ کرکے تھے۔ انھیں یہ اختیار 1638 میں ملا۔ نیو فاؤنڈ لینڈ کا جزیرہ 1690 میں فرانسیسیوں نے تقریباً فتح کر لیا تھا۔ نیو فاؤنڈ لینڈ کو نو آبادیاتی اسمبلی1832 میں دی گئی جسے ابھی تک ہاؤس آف اسمبلی کہتے ہیں۔ یہ ولیم کارسن، ایڈورڈ موریس اور جان کینٹ جیسے انقلاب پسندوں کی کاوش تھی جنھوں نے جنگ لڑ کر اسے پایا۔ نئی حکومت غیر مستحکم تھی اور اس کے اراکین مذہبی اور سیاسی طور پر منقسم ہو گئے۔ صورت حال اتنی بری ہو گئی کہ 11 جنوری 1841 کو دی ٹائمز، لندن نے اسے اتنی بری مثال کے طور پر پیش کیا کہ مستقبل میں آئر لینڈ ایسا ہو سکتا ہے۔ 1842 میں منتخب شدہ ہاؤس آف اسمبلی کو متعین کردہ قانون ساز کونسل سے ملا دیا گیا۔ 1848 میں یہ صورت حال پھر تبدیل ہوئی۔ اس کے بعد ذمہ دار حکومت کی تشکیل کے لیے تحریک شروع ہوئی جس میں بشپ ملوک نے کافی اہم کردار ادا کیا۔
نیو فاؤنڈ لینڈ کی ڈومینن
ترمیم1854 میں نیو فاؤنڈ لینڈ کو برطانوی حکومت کی طرف سے ذمہ دار حکومت سونپ دی گئی۔ 1855کے انتخابات میں فلپ فرانسز لٹل جو پرنس ایڈورڈ کے جزیرے کا باشندہ تھا، نے ہف ہوئلز اور کنزریویٹو پر برتری حاصل کر لی۔ لٹل نے اپنی پہلی حکومت 1855 سے 1858 تک بنائی۔ 1861 میں تاہم گورنر بینرمین نے لبرلز کو ہٹا دیا اور کانٹے دار انتخابات کے بعد، جس میں بہت بدمزگی اور ہنگامے ہوئے، ہف ہوئلز نے حکومت بنا لی جس میں اس نے مذہبی لوگوں کو ساتھ ملایا اور نوکریوں وغیرہ کو اپنی مرضی سے دینا شروع کیا۔ نیو فاؤنڈ لینڈ نے کینیڈا سے الحاق کی تجویز کو 1869 کے عام انتخابات میں مسترد کر دیا۔ اس کے بعد وہ ترقی ہوئی کہ بلیک وڈز کے میگزین نے آئرلینڈ میں نیو فاؤنڈ لینڈ کی مثالیں دینی شروع کر دیں۔
لیبرے ڈار کی ملکیت کا تنازع کیوبیک اور نیو فاؤنڈ لینڈ کے بیچ چلتا رہا حتیٰ کہ برطانوی پریوی کونسل نے مغربی سرحد کو الگ کر کے لیبرے ڈار کا رقبہ بڑھا دیا اور اسے نیو فاؤنڈ لینڈ کو دے دیا۔ 26 ستمبر 1907 تک نیو فاؤنڈ لینڈ ڈومینن بننے سے قبل تک نیوزی لینڈ کی طرح نو آبادی رہا۔ اس نے کامیابی سے امریکا کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ کیا لیکن بعد ازاں برطانوی حکومت نے کینیڈا کے اعتراض کے بعد اسے منسوخ کر دیا۔ نیو فاؤنڈ لینڈ وزیر اعظم سر رابرٹ بانڈ کے زیر انتظام اپنے عروج کو پہنچا۔ یہ لبرل پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ 1934 میں معاشی مسائل کے باعث ڈومینن کو اپنی خود مختار حکومت کو ترک کرنا پڑا اور حکومتی کمیشن قائم ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کمیشن نے ایک انتخابات منعقد کرائے جس میں 1946 تا 1947 ڈومینن کے مستقبل پر بحث کی گئی۔ دو ریفرنڈموں کا نتیجہ یہ نکلا کہ نیو فاؤنڈ لینڈرز نے کمیشن کو ختم کر کے 1949 میں کینیڈا کی کنفیڈریشن سے الحاق کو چنا۔
نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار کا صوبہ
ترمیم1946 کے نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار کے کمیشن کے لیے ہونے والے انتخابات میں نیو فاؤنڈ لینڈ کے مستقبل کا فیصلہ ہونا تھا۔ برطانوی حکومت کی طرف سے اس میں تجاویز پیش کی گئیں جن کے تحت یہاں کے باشندوں کو مختلف صورتیں دی گئیں۔ بہت سارے ارکان نے صرف گورنمنٹ کمیشن کو جاری رکھنے یا ذمہ دار حکومت کی بحالی کی حد تک اس ریفرنڈم کو مخصوص کرنے کی حمایت کی۔ جوزف آر سمال وڈ جو کنفیڈریٹ کے لیڈر تھے، نے کینیڈا سے الحاق کی تیسری ممکنہ صورت کو بھی اس ریفرنڈم میں شامل کرانے کی کوشش کی۔ اس تجویز کو ناکامی ہوئی۔ لیکن انھوں نے ہمت نہ ہاری اور دو ہفتوں میں ہی پچاس ہزار سے زیادہ عرضداشتوں کو اکٹھا کر کے لندن گورنر کے ذریعے بھجوا دیا۔ انگلستان جو پہلے ہی زور دے رہا تھا کہ نیو فاؤنڈ لینڈ یا تو کنفیڈریشن کو چنے یا پھر اپنی سابقہ ذمہ دار حکومت کو بحال کرے، اب تیسری صورت یعنی کینیڈا سے الحاق کو بھی شامل کرنے پر رضا مند ہو گیا۔ بہت بحث مباحثے کے بعد پہلا ریفرنڈم 3 جون 1948 میں ہوا۔ اس میں حکومتی کمیشن کو جاری رکھنے، ذمہ دار حکومت کی بحالی اور کینیڈا سے الحاق شامل تھے۔ نتائج غیر واضح تھے۔ چوالیس اعشاریہ چھ فیصد نے ذمہ دار حکومت کی بحالی، اکتالیس اعشاریہ ایک نے کینیڈا سے الحاق اور چودہ اعشاریہ تین فیصد نے کمیشن آف گورنمنٹ کو چنا۔ چونکہ کسی بھی صورت کو اکثریتی ووٹ نہ مل سکا، ریفرنڈم کے اصول کے تحت سب سے کم حمایت والی صورت کو ختم کر کے باقیوں کے بیچ دوبارہ ریفرنڈم ہوا۔ دونوں ریفرنڈموں کے درمیان یہ افواہ اڑی کہ رومن کیتھولک چرچ کے بشپوں نے ذمہ دار حکومت کے حق میں ووٹ دینے کے لیے اپنے معتقدین سے کہا ہوا ہے۔ یہ بات درست نہیں تھی۔ اورنج آرڈر نے اس لیے اپنے اراکین کو الحاق کے لیے ووٹ دینے کو کہا۔ پروٹسٹنٹوں کی تعداد کیتھولک سے دوگنی تھی۔ اس سے دوسرے ریفرنڈم پر بہت اثر پڑا۔ دوسرے ریفرنڈم میں جو 22 جولائی 1948 میں ہوا، نیو فاؤنڈ لینڈروں سے پوچھا گیا کہ وہ الحاق یا ڈومینن میں سے ایک کو چنیں۔ الحاق کے حق میں اکاون فیصد اور ڈومینن کے حق میں انچاس فیصد ووٹ آئے۔ 31 مارچ 1949 کو نیو فاؤنڈ لینڈ نے کینیڈا سے الحاق کر لیا۔ تاہم ان نتائج سے تمام افراد مطمئن نہیں تھے۔ پیٹر کیشن جو کافی منہ پھٹ اور الحاق کے مخالف تھا، نے ووٹوں پر اعتراض کیا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ یہ "لندن اور اوٹاوا کے بیچ گندا اتحاد ہے" جس نے الحاق کی راہ ہموار کی۔ 1959 میں مقامی سطح پر اختلاف پیدا ہو گیا جب صوبائی حکومت نے موراویان چرچ کو اس کے ہیبرون اسٹیشن، لیبرے ڈار کو بند کرنے اور اسے جنوب میں انوئت آبادی کے علاقے میں منتقل کرنے کو کہا۔
1960 میں نیو فاؤنڈ لینڈ نے چرچل آبشار پر پن بجلی کا منصوبہ بنایا تاکہ امریکا کو بجلی بیچی جا سکے۔ اس سلسلے میں کیوبیک سے معاہدہ کرنا تھا تاکہ کیوبیک کی سرزمین سے بجلی بحفاظت گزاری جا سکے۔ کیوبیک نے سخت شرائط عائد کیں اور اسے 75 سالہ معاہدہ بنایا۔ نیو فاؤنڈ لینڈ نے اسے سخت نا انصافی سمجھا کیونکہ اتنے لمبے عرصے کے لیے انھیں بجلی کے معمولی اور یکساں معاوضے پر گزارا کرنا تھا۔ الحاق سے 1972 تک صوبے کی سیاسی سرگرمیوں پر لبرل پارٹی کا قبضہ تھا جس کی قیادت جوزف آر سمال وڈ کر رہے تھے۔ 1972 میں سمال وڈ کی حکومت کی بجائے پروگریسیو کنزرویٹیو بر سر اقتدار آئے جن کی قیادت فرینک مورز کر رہے تھے۔ 1979 میں برائن پیک فورڈ، جو ایک اور پروگریسیو کنزرویٹیو تھے، پریمئر بنے۔ اس دوران نیو فاؤنڈ لینڈ کے گہرے سمندر میں تیل کے ذخائرکے حوالے سے مسائل کھڑے ہوئے۔ آخر میں کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر صلح ہوئی۔ 1989 میں کلائڈ ویلز اور لبرل پارٹی سترہ سال بعد واپس حکومت میں آئی۔ 1992 میں وفاقی حکومت نے اٹلانٹک کوڈ مچھلی کے شکار پر پابندی لگائی کیونکہ 1980 کی دہائی میں اس مچھلی کی تعداد بہت گھٹ گئی تھی۔ 1990 کی دہائی کے دوران اس فیصلے سے نیو فاؤنڈ لینڈ کی معیشت بہت متائثر ہوئی بالخصوص ایک مقامی آبادی کو ہجرت کر کے اپنا علاقہ چھوڑ دینا پڑا۔ اس کی مثال کچھ یوں لی جا سکتی ہے کہ کوڈ مچھلی کے شکار پر پابندی سے وہ اثر ہوا جو اونٹاریو کی معیشت پر اونٹاریو کے تمام کارخانے بند کر دینے سے ہوتا۔ کوڈ مچھلی کے شکار کے نیو فاؤنڈ لینڈ کے 200 سال ختم ہو گئے۔ حکومت نے مچھیروں اور مچھلی کے کارخانوں کی مدد کے لیے کئی ارب ڈالر سے ایک پروگرام بھی شروع کیا۔ 1980 کی دہائی کے اواخر میں وفاقی حکومت اور کراؤن کارپوریشن پیٹرو کینیڈا اور دیگر نجی تیل کی تلاش کی کمپنیوں نے ہیبیرنیا کے تیل اور گیس کے کنوؤں کی ترقی و ترویج کے لیے کام کرنے کا معاہدہ کیا۔ 1990 کی دہائی کے درمیان ہزاروں نیو فاؤنڈ لینڈروں کو گہرے سمندر میں تیل کے پلیٹ فارموں پر ملازمت دی گئی اور ہیبیرنیا کے گریویٹی بیس سٹرکچر اور ہیبیرنیا ٹاپ سائڈز کی تعمیر کے لیے بھی ملازمتیں دی گئیں۔
1996 میں سابقہ وفاقی وزیر برائے ماہی گیری، برائن ٹوبن نے کلائڈ ویلز کے بعد لبرل پارٹی کی صوبائی قیادت سنبھالی۔ ٹوبن نے موقع کی مناسبت سے صوبے کی معیشت کا انحصار ماہی گیری سے ہٹا کر تیل و گیس کی طرف متعارف کرایا۔ ٹوبن کی خوش قسمتی کہ اس کے فوراً بعد دنیا کے بہترین نکل کے ذخائر بھی لیبرے ڈار میں دریافت ہوئے۔ ٹوبن نے سابقہ حکومتوں کے برعکس نجی شعبے سے بات چیت کر کے بہتر معاضے کو یقینی بنایا۔ 2000 میں ٹوبن کے واپس وفاقی سیاست میں چلے جانے کے بعد راجر گریمز نسبتاً کمزور پریمئر بنے۔ تیل و گیس کی صنعت کی طرف سے گہرے سمندر میں تیل و گیس کی دریافت کے لیے جاری دباؤ کی وجہ سے نووا سکوشیا اور نیو فاؤنڈ لینڈ کو وفاقی حکومت سے بات کرنی پڑی تاکہ دونوں کے درمیان متنازع سرحدوں کو حل کیا جا سکے۔ 2003 میں فیصلہ نیو فاؤنڈ لینڈ کے حق میں ہوا۔
2003 میں وفاقی حکومت نے آخری ماہی گیری کے علاقے کو بھی بند کرا دیا جو سیٹ لارنس کی خلیج میں واقع تھا۔ نیو فاؤنڈ لینڈ براہ راست متائثر ہونے والا فریق تھا، تاہم کیوبیک کی کچھ آبادیاں بھی متائثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔
پریمئر گریمز جو اس خزاں میں انتخابات کو ملتوی دیکھ رہے تھے، نے خلیج میں ماہی گیری کی روک کے فیصلے کو وفاق کے خلاف اپنی سیاست کا حصہ بنایا۔ انھوں نے کینیڈا سے الحاق کے معاہدے پر نظر ثانی بھی کرنے کا مطالبہ کیا۔ 2 جولائی 2003 میں اس عوامی بے چینی کی وجوہات جاننے کے لیے جو کمیشن بنایا گیا، اس نے یہ نکات پیش کیے:
- کوڈ کی ماہی گیری کے ذرائع کی تباہی کے بے پناہ اثرات
- لیبرے ڈار کے آبی ذرائع کو کیوبیک کی طرف اپنے فائدے کے لیے استعمال
- تشویش ناک حد تک بلند شرح بے روزگاری
- کینیڈا میں سب سے کم فی کس آمدنی
- سب سے بلند شرح ٹیکس
- آبادی کا سب سے زیادہ انخلاء
رپورٹ نے مطالبہ کیا کہ:
- زیادہ بامعنی وفاقیت
- ماہی گیری سے نمٹنے کے لیے ایکشن ٹیم
- کینیڈا، کیوبیک اور نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار کے مابین باہمی شراکت تاکہ گل کے جزیرے پر پن بجلی کا منصوبہ بنے
- اٹلانٹک ایوارڈ پر نظر ثانی تاکہ گہرے سمندر میں موجود تیل و گیس کے ذخائر پر صوبے کا حق ہو
- ماہی گیری کے لیے فوری اور بامعنی مذاکرات
اکتوبر 2003 میں لبرل کو صوبائی انتخابات میں پروگریسیو کنزرویٹیو کے مقابلے ناکامی ہوئی۔ اکتوبر 2004 کے اواخر سے جنوری 2006 کے شروع تک پریمئر ولیمز نے سابقہ پریمئر پال مارٹن پر الزام لگایا کہ انھوں نے اٹلانٹک ایوارڈ کے سلسلے میں اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ اب تیل سے حاصل ہونے والی رائلٹی کا مسئلہ تھا جس کا ستر فیصد حصہ وفاقی حکومت کو مختلف مدوں میں واپس کر دیا جاتا ہے۔ صوبہ سو فیصد رائلٹی اپنے لیے چاہتا ہے تاکہ وہ غربت کو دور کر سکے۔ 2004 کے اختتام پر ولیمز نے حکم دیا کہ کینیڈا کا جھنڈا تمام صوبائی عمارتوں سے وفاقی پالیسیوں کے خلاف بطور احتجاج ہٹا دیا جائے اور میونسپل کونسلوں سے بھی ایسا ہی کرنے کی درخواست کی جائے۔ اس فیصلے کو "فلیگ فلیپ" کا نام دیا گیا اور صوبے اور کینیڈا بھر میں اس پر چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔ جنوری 2005 میں جھنڈے دوبارہ اپنی جگہ پر آ گئے جب پال مارٹن نے اعلان کیا کہ جھنڈے دوبارہ اپنی جگہ واپس نہ آنے تک وہ کسی قسم کے مذاکرات نہیں کریں گے۔ جنوری کے اختتام پر وفاقی حکومت نے ایک معاہدہ کیا جس کے تحت تیل کے تمام معاوضہ جات صوبے کو ملیں گے۔ اس کا مطلب تھا کہ آٹھ سال میں صوبے کو اضافی دو ارب ڈالر ملیں گے۔ تاہم اس معاہدے سے اونٹاریو اور کیوبیک کو بھی شہہ ملی اور انھوں نے بھی اپنی مرضی کے مطالبے شروع کر دیے کہ وفاق ان کے ذرائع سے ناجائز معاشی فائدہ اٹھا رہا ہے۔ پریمئر ولیمز اور موجودہ وزیر اعظم سٹیفن ہارپر کے درمیان "برابری کا پروگرام" آج بھی ایک تنازعے کا درجہ رکھتا ہے۔ 2005 تک کینیڈا کے آئین میں ہونے والی دس میں سے چار ترامیم کینیڈا کے دسویں صوبے یعنی نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار سے تعلق رکھتی ہیں۔
آبادی
ترمیم2001 کے کینیڈا کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی سب سے بڑی لسانی جماعت انگریزی ہے جو انتالیس اعشاریہ چار فیصد ہے۔ اس کے بعد انیس اعشاریہ سات فیصد آئرش ہیں۔ سکاٹش چھ فیصد، فرانسیسی ساڑھے پانچ فیصد اور دیگر یورپی اقوام کے باشندے تین اعشاریہ دو فیصد۔ آدھے شرکاء نے اپنی شناخت بطور کینیڈین بھی کرائی۔ اڑتیس فیصد نے اپنی قومیت نیو فاؤنڈ لینڈر بتائی۔ 2006 کی مردم شماری سے پتہ چلتا ہے کہ کل آبادی 505469 افراد ہے۔