ولندیزی ایسٹ انڈیا کمپنی

ولندیزی ایسٹ انڈیا کمپنی (Dutch East India Company) ((ڈچ: Vereenigde Oost-Indische Compagnie)‏) ولندیزی ہند کی آبادیوں اور تجارتی بندرگاہوں کے مفادات کے لیے قائم کی جانے والی ایک قومی چارٹرڈ کمپنی تھی۔

ولندیزی ایسٹ انڈیا کمپنی
عوامی کمپنی
صنعتتجارت
قسمتتحلیل
قیام20 مارچ 1602ء (1602ء-03-20)[1]
کالعدم31 دسمبر 1799 (1799-12-31)
صدر دفترمشرقی ہند ایوان، ایمسٹرڈیم، ولندیزی جمہوریہ
نوآبادیاتی ہندوستان
British Indian Empire
نوآبادیاتی ہندوستان کے شاہی وجود
ولندیزی ہند1605–1825
ولندیزی-ناروے ہند1620–1869
فرانسیسی ہند1769–1954
ہندوستان گھر1434–1833
پرتگیزی ایسٹ انڈیا کمپنی1628–1633
برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی1612–1757
کمپنی راج1757–1858
برطانوی راج1858–1947
برما میں برطانوی راج1824–1948
نوابی ریاستیں1721–1949
تقسیم ہند
1947

تشدد

ترمیم

ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی حکومتی فوج کی مدد سے انڈونیشیا اور دیگر علاقوں کو فتح کرنے کے لیے بے پناہ تشدد کا استعمال کیا تھا اور آج بھی ان کارروائیوں پر تنقید کی جاتی ہے۔[2]

منافع

ترمیم

ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی دنیا کی پہلی کمپنی تھی جس نے اپنے شیئر عوام کو بیچے جسے اب IPO کہتے ہیں۔(initial public offering)۔ خریدار یہ شیئر کسی دوسرے کو بیچ سکتا تھا۔
1602ء سے 1650ء تک اس کمپنی نے اوسطاً سالانہ 16 فیصد منافع (dividend) دیا۔[3]

اسٹاک مارکیٹ

ترمیم

دنیا کی پہلی اسٹاک مارکیٹ ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی (VOC) نے شروع کی۔
1637ء میں دنیا کا پہلا اسٹاک بلبلہ بھی وہیں پھٹا جسے Tulip mania کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔[4]

کوئینین پر اجارہ داری

ترمیم

ایک اندازے کے مطابق 1943ء تک دنیا بھر میں 80 کروڑ لوگ ملیریا کے مرض میں مبتلا ہوتے تھے جن میں سے دس کروڑ انڈیا میں ہوتے تھے۔ دنیا بھر میں ملیریا سے سالانہ 30 لاکھ لوگ مرتے تھے جن میں سے 10 لاکھ ہندوستانی تھے۔ اُس زمانے میں ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی جاوا میں 37,500 ایکڑ رقبے پر سنکونا (cinchona) درختوں سے بننے والی ملیریا کی دوا کوئینین (Quinine) پر مکمل اجارہ داری رکھتی تھی۔ دنیا بھر کو دستیاب کوئینین کا 95 فیصد حکومتی سرپرستی میں ڈچ سنڈیکیٹ کے ہاتھوں میں تھا۔ کوئینین کی قیمت زیادہ رکھنے کے لیے پیداوار کم رکھی جاتی تھی۔ ہر ملک کا کوئینین کا کوٹہ مقرر تھا۔ اگر سنکونا کی پیداوار دنیا بھر کے کوٹے سے زیادہ ہو جاتی تھی تو آدھی فصل جلا دی جاتی تھی تاکہ کوئینین کی قیمت گر نہ جائے۔ اس طرح ملیریا سے ہونے والی اموات میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا تھا۔

"It is estimated that there are some 800,000,000 sufferers from malaria in the world to-day, more than 100,000,000 of whom are in India alone, accounting for 1,000,000 of the 3,000,000 deaths annually... It is not too much to say that these practices were directly to blame for the continuance of a much higher death rate than that which would have obtained if maximum production and competitive price levels existed.[5]

اقتباس

ترمیم
  • اس ویڈیو میں ماضی کی یہ خوفناک مثال دی گئی ہے جب کارپوریشن حکومت سے زیادہ طاقتور ہو جاتی ہیں۔
John Green closes the video by claiming that, “the VOC provides a chilling example of what has happened in the past when corporations become more powerful than states.”[6]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "The Dutch East India Company (VOC)"۔ Canon van Nederland۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2011 
  2. "A Concise Financial History of Europe by Jan Sytze Mosselaar" (PDF)۔ 24 اکتوبر 2020 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اکتوبر 2019 
  3. Stock exchange
  4. Tulip mania
  5. MONEY MANIPULATION AND SOCIAL ORDER
  6. Capitalism and the Dutch East India Company

بیرونی روابط

ترمیم