چارلس ولیم فورمن
چارلس ولیم فورمن یا چارلس ڈبلیو۔ فورمن ایک امریکی پریسبیٹیرین خادم دین، مشنری اور رنگ محل مشن اسکول اور لاہور میں واقع نجی یونیورسٹی فورمن کرسچین کالج کا بانی تھا۔[1] چارلس ولیم فورمن کینٹکی کا مقامی تھا۔ فورمن سینٹرل کالج کنیٹکی اور پرنسٹن تھیولوجیکل سیمینری سے گریجویٹ ہوا اور گریجویشن کے فوری بعد وہ Ebenezer presbytery کا رکن مقرر ہوا۔ اس کے بعد وہ بذریعہ بحری جہاز 11 اگست سنہ 1847ء کو ہندوستان کے شہر کلکتہ پہنچا اور مسیحیت کی تبلیغ کا باقاعدہ آغاز کیا۔ کچھ عرصہ کلکتہ میں رہا اس کے بعد وہ لدھیانہ چلا گیا، جہاں اس کی ملاقات وہاں پہلے سے موجود مسیحی مبلغ جان نیوٹن اور اس کی بیوی سے ہوئی، وہاں بھی اس نے جان نیوٹن کے ساتھ مل کر مسیحیت کی تبلیغ جاری رکھی۔
چارلس ولیم فورمن | |
---|---|
(انگریزی میں: Charles William Forman)،(اردو میں: چارلس ولیم فورمن) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 3 مارچ 1821ء واشنگٹن |
وفات | 27 اگست 1894ء (73 سال) کسولی، ہماچل پردیش |
مدفن | گورا قبرستان، لاہور |
شہریت | ریاستہائے متحدہ امریکا برطانوی ہند |
زوجہ | مارگریٹ نیوٹن جیورجینا لوکہارٹ |
تعداد اولاد | 10 |
عملی زندگی | |
مادر علمی | سینٹر کالج پرنسٹن تھیولوجیکل سیمینری |
پیشہ | مبلغ ، واعظ ، مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی ، اردو |
کارہائے نمایاں | گورنمنٹ رنگ محل ہائی اسکول ، فورمن کرسچین کالج |
درستی - ترمیم |
وہ لاہور میں مسیحیت کو پھیلانا چاہتا تھا مگر اس دور میں وہاں سکھ سلطنت کا راج تھا اور مسیحیت کی پرچار کی اجازت نہ تھی اسی لیے وہ لدھیانہ میں تبلیغ کرتا رہا۔ جب 1849ء میں انگریزوں کا پنجاب پر قبضہ ہو گیا تو وہ پادری نیوٹن کے ہمراہ لاہور آگیا۔ لاہور پادری فورمن کو بھا گیا اسی لیے اس نے وہیں رہائش اختیار کی اور وہاں دو مشنری تعلیمی ادارے (رنگ محل مشن اسکول اور فورمن کرسچین کالج) قائم کیے۔ بیچ میں وہ بیوی کی صحت خراب ہونے کی وجہ سے امریکا گیا۔ مگر واپس آکر لاہور میں کافی عرصے تک تبلیغ کری۔ جب فورمن 73 سال کا ہوا تو وہ 1894ء میں موسم گرما کاٹنے کے لیے کسولی گیا۔ اب فورمن چلنے سے قاصر تھا اور کافی بیمار ہو چکا تھا۔ اور بیماری کی وجہ سے پیر کے روز وہ کسولی میں ہی وفات پا گیا۔ فورمن کو لاہور سے بڑی محبت تھی اور اس کی دلی خواہش تھی کہ اسے لاہور میں سپرد خاک کیا جائے۔ اس کی خواہش کے مطابق اسے لاہور کے گورا قبرستان میں دفنایا گیا۔
ابتدائی زندگی
ترمیمچارلس ولیم فورمن کینٹکی کے علاقہ واشنگٹن سے آدھ میل باہر 3 مارچ 1821ء کے روز پیدا ہوا۔ اُس کے آبا و اجداد 1645ء میں بشپ لاڈ کے مظالم سے تنگ آکر انگلستان سے امریکا نقل مکانی کر گئے تھے۔ یہاں کے ڈچ حکام نے اُن کے آبا و اجداد کا خیر مقدم کیا اور لونگ آئی لینڈ میں اُن کو جاگیر عطا کی۔ چارلس ولیم کے آبا و اجداد ابتدا ہی سے آزادی کی فضا میں رہتے تھے۔ چارلس ولیم امریکا کی جنگ آزادی سے محبت رکھنے کے لیے مشہور تھا اور گرد و نواح کے لوگ اُس کو عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اگرچہ وہ مذہبی امور اور دین داری کی پروا نہیں کرتا تھا۔[2]
جب چارلس ولیم پندرہ برس کا ہوا تو اُس کا بڑا بھائی اپنے ساتھ پادری مکابوئے کو گھر لایا۔ پادری مکابوئے واشنگٹن کی پریسبیٹیرین کلیسیا کا پاسبان تھا۔ اثنائے گفتگو میں اُس کے ایک اور بھائی نے حقارت آمیز لہجہ میں یسوع مسیح کا ذکر کیا۔ چارلس ولیم کو یہ بات بڑی ناگوار معلوم ہوئی کہ ایک مہمان کے جذبات کو ٹھیس لگائی جائے۔ جب اُس نے اپنے مہمان کے چہرے کی طرف نظر کی تو وہاں غصہ کے آثار پانے کی بجائے رنج اور دکھ لکھا دیکھا۔ اُس نے دل میں خیال کیا کہ یہ شخص ضرور مسیح سے پیار کرتا ہے۔ اس واقعہ نے اُس کے دل کو بڑا متاثر کیا اور پانچ سال کے بعد اُس نے اسی گاؤں کے گرجا میں بپتسمہ پایا۔ وہ لکھتا ہے "میں یہ محسوس کرتا تھا کہ بپتسمہ محض ایمان کا اقرار ہی نہیں بلکہ اس امر کا نشان ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کو سیدنا مسیح کی مرضی کے تابع کر دیا ہے تاکہ ہم مسیح کے لیے اپنی زندگی گزاریں"۔[2][3]
حلیہ و ہیئت
ترمیموہ قد میں چھ فٹ سے زیادہ لمبا اور چوڑا تھا۔ اُس کی سفید داڑھی چھاتی سے نیچے لٹکتی تھی۔ اُس کی آنکھیں اور کشادہ پیشانی نہایت خوش نما تھی۔[3]
تبلیغ دین کا ارادہ
ترمیمبپتسمہ کے بعد اس کے دل میں دین مسیحیت کی خدمت کرنے کا خیال آیا۔ اُن دنوں غلاموں کی خرید و فروخت ہوتی تھی اور فورمن کا خاندان کا بھی غلام رکھتا تھا۔ پس اُس نے اگلے اتوار یہ اشتہار دیا کہ جو غلام اپنے مالک کی اجازت سے پڑھنا چاہے اُس کو میں گرجا گھر میں پڑھاؤں گا۔ جب وہ وقت مقررہ پر گرجے گیا تو وہاں غلاموں کی بھیڑ کھڑی پائی۔ فورمن رفتہ رفتہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ وہ انجیل کا خادم بنے۔ پس سات سال تک وہ سینٹرل کالج کنیٹکی میں اور پرنسٹن تھیولوجیکل سیمینری[1] میں پڑھتا رہا۔ جس زمانہ میں وہ علمِ الٰہیات کا مطالعہ کر رہا تھا اُس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ غیر ممالک میں جاکر انجیل کا واعظ بنے گا۔[4][5]
ہندوستان آمد
ترمیمامریکا میں بیسیوں اشخاص مسیحیت کی اشاعت کا کام کرنے والے موجود تھے، لیکن ہندوستان میں کوئی نہ تھا۔ پس اُس نے خیال کیا کہ اگر وہ خود ہندوستان نہ گیا تو وہاں کوئی مسیحیت کی اشاعت کا کام نہیں کرے گا۔ اُن دنوں میں ہندوستان کا سفر آسان نہیں تھا لیکن اُس نے مصمم ارادہ کر لیا کہ وہ ہندوستان آئے گا۔ اور وہ 11 اگست 1847ء کے روز جہاز میں سوار ہو کر کلکتہ پہنچ گیا۔[1] کلکتہ آکر پادری فورمن ڈاکٹر الیگزینڈر ڈف کا مہمان ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُس نے یہ ٹھان لی کہ وہ پنجاب میں پہنچ کر مشن اسکول جاری کرے گا جس میں تعلیم انگریزی زبان میں ہو۔ وہ کلکتہ سے پنجاب سفر کرتا ہوا آیا۔ (اُن دنوں اس سفر میں چار پانچ ماہ لگتے تھے۔) انگریزوں کی تسخیر پنجاب سے چند ماہ پہلے 1848ء میں وہ لدھیانہ پہنچ گیا جہاں پادری نیوٹن اور اُس کی بیوی 1835ء میں امریکن پریسبٹیرین مشن کے مشنری ہوکر پہلے پہل آئے تھے۔ اس شہر میں ایک سال پہلے پادری جان کیمرون لوری آیا تھا۔ اُس زمانہ میں لدھیانہ سرحدی شہر تھا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقبوضات اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت کے درمیان میں دریائے ستلج حائل تھا۔ ان مشنری صاحبان کی یہ خواہش تھی کہ دین مسیحیت کا پیغام پنجاب کے باشندوں کو سنائیں۔ پس انھوں نے لدھیانہ میں رہائش اختیار کرلی۔ تاکہ جب موقع ملے تو وہ لاہور جاسکیں جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دار السلطنت تھا۔[5][6][7]
لاہور آمد
ترمیم1849ء میں جونہی پنجاب انگریزوں کے قبضے میں آیا پادری فورمن اور پادری نیوٹن لاہور روانہ ہو گئے۔ وہ 21 نومبر کو لاہور آئے یہ سفر انھوں نے دس دن میں طے کیا۔ اُن کے پاس روپیہ کم تھا پس انھوں نے لاہور کے انگریز مسیحیوں کے نام ایک گشتی چھٹی لکھی جس کے جواب میں 4238 روپے جمع ہو گئے اور اسکول اسی سال شروع کر دیا گیا۔ یہ اسکول پہلے پہل بیرونِ بھاٹی دروازہ شروع کیا گیا۔ پادری نیوٹن مہاراجا رنجیت سنگھ کے وزیر راجا سچیت سنگھ کی حویلی میں رہتے تھے جو ہیرا منڈی میں تھی۔ اس گھر میں وہ ایک سال کے قریب رہے۔ لیکن یہ گھر صحت کے لحاظ سے ان کو پسند نہ آیا۔ پس ایک اور گھر کرایہ پر لیا گیا جو مہاراجا رنجیت سنگھ نے اپنے فرانسیسی اور اطالوی جرنیلوں کے لیے بنوایا تھا۔ اس کے احاطہ کے اندر ایک پُرانی قبر تھی جس پر ایک بڑا گنبد تھا۔ اس قبر کے چوگرد آٹھ محراب دار کمرے تھے۔ یہ محرابیں بند کی گئیں اور ان میں ناپختہ اینٹیں اور کھڑکیاں وغیرہ لگادی گئیں۔ ان کمروں میں پادری فورمن نے رہائش اختیار کی۔[1]
تعلیمی مشن
ترمیمان دنوں سر ہنری لارنس، جان لارنس، رابرٹ منٹگمری، ڈانلڈ میکلوڈ، ہربرٹ ایڈورڈز، رینل ٹیلر اور جان نکلسن جیسے حکام پنجاب میں رہتے تھے۔ انھوں نے نیوٹن اور فورمن کا بڑے تپاک سے خیر مقدم کیا۔ وہ حکام سمجھتے تھے کہ پنجاب کے باشندوں کو مسیحی مذہبی تعلیم اور بائبل کی ضرورت ہے اسی لیے لاہور کے انگریزوں نے بڑی فراخدلی سے مشن کے کام کے لیے چندہ دیا۔ پانچ سال کے اندر اندر زمین خریدی گئی اور اسکول اور گھر وغیرہ تعمیر کرلیے گئے۔ جنوری 1850ء میں اسکول کی ابتدا ہوئی اور اس میں تین طلبہ داخل ہوئے۔ دس روز کے بعد طلبہ کی تعداد سات تک پہنچ گئی۔ ان سات لڑکوں کو پادری فورمن ساڑھے چار گھنٹے اور پادری نیوٹن ڈھائی گھنٹے پڑھاتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لاہور کے لڑکے اسکول میں پڑھنا نہیں چاہتے تھے۔ اُس نے طلبہ کو وظائف دیے تاکہ وہ اسکول میں پڑھیں۔ غرض اس کے سامنے بیسیوں مشکلیں حائل تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اُس نے شہر کے مختلف حصوں میں رفتہ رفتہ ایک درجن سے زیادہ برانچ اسکول کھول دیے تاکہ بچے اُن میں تعلیم حاصل کریں۔ اس نے مزدوروں کے لیے ایک نائٹ اسکول کھولا تاکہ وہ لوگ جو دن کے وقت مزدوری کرنے کی وجہ سے نہیں پڑھ سکتے رات کو پڑھا کریں۔ 1850ء میں ایسی شدت کی گرمی پڑی کہ الامان لاہور کے گورے سپاہیوں کا دسواں حصہ گرمی کی وجہ سے لقمہ اجل ہو گیا۔ پادری نیوٹن اور اُن کے بیوی بچے اور پادری فورمن کئی دفعہ بیمار ہو گئے۔ لاہور کا سول سرجن پادری فورمن کو اپنے گھر لے گیا اور سر ہنری لارنس نے پادری نیوٹن اور اُس کے بیوی بچوں کو اپنے گھر رکھا۔ چونکہ پادری نیوٹن اور اُس کی بیوی سخت بیمار ہو گئے تھے لہٰذا وہ سولہ سال کے بعد 1850ء میں امریکا رخصت پر چلے گئے اب پادری فورمن اکیلا رہ گیا۔ وہ پانچ گھنٹے اسکول میں پڑھاتا اور اسکول سے پہلے اور اُس کے بعد گھنٹوں لوگوں سے بحث مباحثہ کرتا رہتا تھا۔ اسکول کے طلبہ کی تعداد تین ماہ میں 57 ہو گئی تھی۔ مسٹر گوروداس مترا جو ایک بنگالی مسیحی تھا اس اسکول کا ہیڈ ماسٹر مقرر ہوا۔ 1856ء میں ”رنگ محل“ خریدا گیا اور مشن اسکول وہاں منتقل کر دیا گیا۔ 1856ء میں اسکول کے طلبہ کی تعداد ساڑھے سات سو تھی۔ فورمن کہتا تھا کہ مشن اسکول اور کالج انجیل کی اشاعت کے وسیلے ہیں کیونکہ ان اداروں کے طلبہ اور طالبات گھروں میں جاکر اپنے والدین اور بھائیوں بہنوں کو انجیل کے پیغام کی خبر سناتے تھے۔ جب پنجاب کے حکام نے دیکھا کہ فورمن کو اسکول چلانے میں کامیابی حاصل ہو رہی ہے تو گجرات اور گجرانوالہ کے ڈپٹی کمشنروں نے درخواست کی کہ وہ اُن جگہوں کے مدرسوں کی بھی نگرانی کرے۔ فورمن نے اس تجویز کو خوشی سے منظور کیا۔ ایک دفعہ جب وہ منادی کرتا ہوا راولپنڈی نکل گیا تو وہاں کے ڈپٹی کمشنر نے اُس شہر کے تین اسکول بھی اُس کی زیرِ نگرانی کردیے۔ گویا وہ پنجاب کے تعلیمی محکمہ کا پہلا ڈائرکٹر تھا۔[3][8]
مشنری زندگی
ترمیمفورمن نے لاہور میں 45 سال[8] تک تعلیمی کام کیا لیکن اس کی خوشی انجیل کی اشاعت میں تھی۔ وہ روزانہ انجیل کی منادی کیا کرتا تھا اور لوہاری دروازہ، دہلی دروازہ، چوک جھنڈا، رنگ محل، ہیرا منڈی میں اور شارع عام پر کھڑے ہوکر لوگوں کو مسیحیت کا پیغام روزمرہ سناتا تھا۔ جب وہ تھک کر چور ہوجاتا تو انجیل کا پیغام سنانے میں اُس کو تازگی ملتی تھی۔ چنانچہ جب دن بھر کا کام کرکے وہ تھک جاتا تو شام کو شہر کی کسی طرف نکل جاتا اور منادی کرکے تازہ دم ہوکر خوش و خرم واپس آتا۔ مابعد کے ایام میں جب اُس کے طلبہ بڑے عہدوں پر مامور ہوئے تو وہ منادی کے بعد باہر سے بینچ اٹھا کر اندر رکھنے میں فورمن کی مدد کرنا فخر سمجھتے تھے۔ اسکول اور منادی کے کام کے علاوہ شہر کے گلی کوچوں میں ہینڈبل اور کتابیں تقسیم کیا کرتا تھا۔ وہ دکان داروں کی دُکانوں پر بیٹھ جاتا اور اُن سے مذہبی اور دینی مسائل پر بات چیت شروع کردیتا تھا۔ شہر کے اندر اُس نے دہلی دروازے کے نزدیک ایک شفا خانہ بھی اسی غرض کے لیے کھولا۔ اُس نے عورتوں کے لیے بھی ایک شفا خانہ کھول دیا۔ فورمن کی منادی کرنے اس قدر شوق تھا کہ بعض اوقات وہ ہردوار تک اور راولپنڈی تک منادی کرتا ہوا نکل جاتا تھا۔ لاہور کے ضلع کے مختلف گاؤں اور شہروں میں اُس نے کئی بار دورہ کیا تاکہ انجیل کا پیغام لوگوں کو سنائے۔ فورمن فصیح البیان شخص نہیں تھا لیکن اُس کی باتوں میں تاثیر تھی کیونکہ اُس کے الفاظ اُس کے دلی جذبات کے ترجمان ہوتے تھے۔ لوگ عموماً خاموشی اور سکون سے اُس کی منادی کو سنتے تھے کیونکہ وہ "بابا فورمن" کی عزت کرتے تھے۔ لیکن بعض اوقات اس کو غیر مسیحی تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔[3][5]
1856ء کی ابتدا میں پادری نیوٹن لدھیانہ کے ضلع کے مختلف گاؤں میں انجیل کا جانفزا پیغام دیتا گیا۔ پھر وہ لاہور گیا اور اپنے خاندان کو فورمن کی بیوی (مارگریٹ فورمن) کے پاس چھوڑ کر اور پادری بارنس (Rev. Barnes) اور پادری لونٹال (Rev. Lowenthall) کو ساتھ لے کر اردگرد کے گاؤں میں چلا گیا تاکہ اُن نوجوان مشنریوں کو تبلیغی کام کرنے کا سبق دے۔ پادری فورمن اِن دنوں ایک پُرانی مسجد میں رہتا تھا۔ اس زمانہ میں لاہور شہر کے مشرق کی جانب کھنڈر پڑے تھے جن میں سے چند پادری فورمن نے خرید لیے تھے۔ یہ مسجد اُن کھنڈر میں سے ایک تھی۔ جب ریلوے نے یہ زمین مشن سے کُل سترہ ہزار روپیہ کے عوض خریدلی۔ تو مشن نے موجودہ مشن احاطہ خرید لیا۔[3]
ازواج اور اولادیں
ترمیممارگریٹ نیوٹن
ترمیمجولائی 1855ء میں فورمن نے پادری جان نیوٹن کی سب سے بڑی لڑکی مارگریٹ کے ساتھ بیاہ کیا۔ اس کا گھر مہمان نوازی کے لیے مشہور تھا۔ اس وقت فورمن 35 برس کا اور اس کی بیوی بیس برس کی عمر کی تھی۔ اس سے سات اولادیں ہوئیں۔[3]
جیورجینا لوکہارٹ
ترمیم1878ء میں فورمن کی پہلی بیوی مارگریٹ نیوٹن انتقال کر گئی جس کے پانج سال بعد 1882ء میں اُس نے جیورجینا لوکہارٹ نامی خاتون سے دوسری شادی کرلی، جس سے تین اولادیں ہوئیں۔[3]
لاہور سے رخصتی
ترمیم1862ء میں کالج قائم ہوا اور فورمن نے نہایت سرگرمی اور جوش سے اس کو شروع کیا۔[8]
1864ء میں پادری فورمن کے پاس ایک بڑا اسکول 20 برانچ اسکول اور ایک نائٹ اسکول تھے جن میں 1800 طلبہ پڑھتے تھے۔ اسی سال گورنمنٹ کالج قائم ہوا اور اسی سال مشن کالج کھولا گیا۔ ڈاکٹر کے۔ سی۔ چیٹرجی، پادری ڈبلیو۔ جے۔ موریسین، پادری جان نیوٹن اور پادری سی۔ بی نیوٹن کالج کے ابتدائی سالوں میں کالج کے پروفیسر تھے۔ ان دنوں میں لاہور کی آب وہوا صحت کے لیے بڑی مضر تھی اور طلبہ اکثر بیماری کی وجہ سے غیر حاضر رہتے تھے۔ 1866ء میں مشن اسکول کے تین لڑکے مسیحی ہو گئے۔[5] لاہور کے باشندوں میں سے یہ پہلے پہل تھے۔ پادری پی۔ سی۔ اُپل اُن میں سے ایک تھا۔ اس پر لاہور شہر میں بڑا شور و غوغا ہوا۔ کالج کے طلبہ نے پڑھنا چھوڑ دیا اور کالج میں صرف سات طلبہ رہ گئے۔ ہندو، مسلمان ہزاروں کی تعداد میں مشن احاطہ میں جمع ہو گئے اور احتجاج کیا۔ جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ بابا فورمن 1867ء میں اُنیس سال کے بعد پہلی دفعہ امریکا رخصت پر گیا۔[8]
دوبارہ لاہور آمد
ترمیم1869ء میں خبر آئی کہ مسٹر ہنری جو فورمن کی جگہ کالج کا پرنسپل ہوا تھا بعارضہ ہیضہ راہی ملکِ عدم ہو گیا ہے۔ پس فورمن نے واپس آنے کی تیاری کی۔ اُس کے اس وقت سات بچے تھے جن میں سے چار کو وہ امریکا چھوڑ آیا۔ اُس کی بیوی نے ان چار بچوں میں سے تین کو پھر کبھی نہ دیکھا۔ کیونکہ وہ 1878ء وفات پاگئی۔ دوسال کے بعد فورمن نو ماہ کے لیے دوسری دفعہ رخصت پرگیا اور واپس آکر 1882ء میں اُس نے جیورجینا لوکہارٹ نامی خاتون سے دوسری شادی کرلی، جس سے تین اولادیں ہوئیں۔[3]
وفات اور تدفین
ترمیمجب فورمن 73 سال کا ہوا تو وہ 1894ء میں موسم گرما کاٹنے کے لیے کسولی گیا۔ وہاں وہ بیمار ہو گیا۔ لیکن ان آخری ایام میں بھی پادری فورمن منادی کے کام میں منہمک تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ چونکہ وہ کمزوری کی وجہ سے بہت نہ چل سکے گا وہ کسولی سے لاہور جاتے ہی ایک رکشا بنوائے گا تاکہ اُس میں بیٹھ کر شہر جائے اور ہینڈبل اور ٹریکٹ تقسیم کیا کرے۔ اسی آخری بیماری کے ایام میں جب وہ تھوڑا بہت چلنے کے قابل ہوا تو اُس نے اپنی کتاب ”تیغ و سپر عیسوی“ کی نظر ثانی شروع کی۔ اُس کی طبعیت اچانک خراب ہو گئی۔ اُس کے بیٹوں اور بیٹیوں کو بذریعہ تار بُلایا گیا۔ اور وہ اُس کی وفات سے پہلے پہنچ گئے۔ پادری فورمن سوموار کے روز 27 اگست کے دن وفات پاگیا۔[9] فورمن کو لاہور سے بڑی محبت تھی۔ وہ کہا کرتا تھا مجھے لاہور کی خاک سے بھی محبت ہے۔ کاش کہ میرا بدن اسی خاک کے سپرد ہو۔ پس اس کی لاش کسولی سے جمعرات کے روز 3 بجے بعد از دوپہر لاہور لائی گئی۔ لاہور کے اسٹیشن پر ہزاروں کا اجتماع تھا۔ وہاں سے اُس کو کندھوں پر اٹھا کر مشن احاطہ میں لے آیا گیا۔ گرجا گھر میں جنازہ کی نماز پڑھی گئی اور مرحوم کی یادگار میں چند تقریریں ہوئیں۔ ہزاروں ہندو، مسلمان، بوڑھے اور جوان حاضر تھے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں نے اُس کی لاش کو کندھوں پر اٹھا کر گورا قبرستان پہنچایا اور اسے وہیں سپرد خاک کیا گیا۔ اُس کی یادگار میں لاہوری دروازہ کے نزدیک جہاں وہ انجیل کی منادی کیا کرتا تھا ”فورمن چیپل“ بنوایا گیا۔[3]
تصنیفات
ترمیمڈاکٹر فورمن کی شائع شدہ تحریریں مع سالِ اشاعت کی ایک فہرست[10] ذیل میں دی گئی ہے:
- ذکرِ اسٹیفن 1867ء
- التماس 1868ء
- راہِ سلامت 1868ء
- امیدِ جنت 1868ء
- سحر گاہ در انگلستان 1868ء
- کشفِ جرمِ آدم 1870ء
- پولس کا قصہ 1870ء
- احوال مسیح 1874ء
- ایلیاہ کا قصہ 1875ء
- قصۂ مارِ برنجی 1875ء
- رسالۂ بیانِ فارقلیط 1875ء
- رسالۂ وفاتِ مسیح 1875ء
- تحفۃ المصلحین 1875ء
- قصۂ طوفان 1875ء
- سوال و جواب 1875ء
- تیغ و سپر عیسوی 1875ء
- رسالۂ تحریف 1876ء
- قصۂ قرض دار 1877ء
- طریق تحقیق 1877ء
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ ت Anderson Gerald H.۔ Biographical Dictionary of Christian Missions۔ Wm. B. Eerdmans Publishing, 1999۔ صفحہ: 219۔ ISBN 0-8028-4680-7
- ^ ا ب Spottswood D.A.۔ The Forman Genelogy۔ Рипол Классик۔ صفحہ: 123۔ ISBN 1-177-23476-9
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح صلیب کے علمبردار از علامہ برکت اللہ (Servants of the Cross by Allama Barkat Ullah)
- ↑ Forman, Charles W. “The Legacy of Charles W. Forman.” International Bulletin of Missionary Research 38.4 (2014): 202–6
- ^ ا ب پ ت Stanley E. Brush, "Protestants in Punjab: Religion and Social Change in an Indian Province in the Nineteenth Century" (Ph.D. diss.، Univ. of California, Barkeley, 1971)
- ↑ John C.B. Webster, The Christian Community and Change Nineteenth Century North in India (1976)
- ↑ یعقوب خان بنگش (21 جون 2015ء)، First Impressions of India آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ tns.thenews.com.pk (Error: unknown archive URL)۔ دی نیوز آن سنڈے۔
- ^ ا ب پ ت S.K. Datta, The History of Forman Christian College: Selections from the Records of the College (1936)
- ↑ Rankin William۔ Memorials of Foreign Missionaries of the Presbyterian Church, U. S. A.۔ Presbyterian board of publication and Sabbath-school work, 1895۔ صفحہ: 101-102
- ↑ طاہر مسعود (12 مارچ 2014ء)، Urdu works of Dr Charles W Forman[مردہ ربط]، پاکستان ٹودے۔
مزید پڑھیے
ترمیم- Forman, Henry. “A Sketch of the Life of Dr. Forman,” The Forman Christian College Monthly (مارچ–اپریل 1921): 29–42.