ہندوستانی فلسفہ
ہندوستانی فلسفہ سے مراد برصغیر میں رائج قدیم فلسفیانہ روایات ہے۔ ہندوستانی فلسفہ کے مرکزی اور اہم مکاتب فکر دو رجحان کے حامل ہوتے ہیں، آستک اور ناستک۔ ان سب کا مدار وید، برہمن و آتما یا دیو پر ہوتا ہے۔[1][2][3] آستک ہندو فلسفہ کے چھ بڑے مکاتب فکر ہیں: نیائے، ویشے شک، سانکھیہ، یوگ، میمانسا اور ویدانت۔ جبکہ ناستک رجحان کے حامل پانچ بڑے مکاتب فکر ہیں، جین مت، بدھ مت، آجیویک، اگیان اور چارواک۔ تاہم ہندوستان کے فلسفیانہ رجحانات انہی دونوں میں منحصر نہیں ہیں بلکہ دوسرے رجحانات بھی ملتے ہیں، مثلاً ودیارنے نے ہندوستانی فلسفہ کے سولہ مکاتب فکر کا تذکرہ کیا ہے جن میں شیو مت اور رسیشور روایتوں کے حامل مکاتب فکر بھی ملتے ہیں۔[4][5]
تقریباً 1000 ق م سے سنہ عیسوی کے ابتدائی ادوار تک ہندوستانی فلسفہ کے اہم مکاتب فکر کو باقاعدہ منضبط کیا گیا۔ اس دوران میں خصوصاً 800 ق م سے 200 ق م تک متعدد مکاتب فکر میں انضمام اور مسابقت کی کیفیت بھی پائی جاتی تھی۔ جین مت، بدھ مت، یوگا، شیو مت اور ویدانت باقی رہے اور بقیہ مکاتب فکر مثلاً اگیان، چارواک اور آجیویک وغیرہ ناپید ہو گئے۔
عہد قدیم اور عہد وسطیٰ کی کتب فلسفہ میں وجودیات، ما بعد الطبیعیات، برہمن، آتما، شنیتا، انتا، علمیات اور علم الاقدار وغیرہ کے مباحث خوب اور جابجا دکھائی دیتے ہیں۔[6][7][8]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ John Bowker, Oxford Dictionary of World Religions, p. 259
- ↑ Wendy Doniger (2014)۔ On Hinduism۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 46۔ ISBN 978-0-19-936008-6
- ↑
- ↑ Cowell and Gough, p. xii.
- ↑ Nicholson, pp. 158-162.
- ↑ Roy W. Perrett (2001)۔ Indian Philosophy: Metaphysics۔ Routledge۔ ISBN 978-0-8153-3608-2۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 ستمبر 2018
- ↑ Stephen H Phillips (2013)۔ Epistemology in Classical India: The Knowledge Sources of the Nyaya School۔ Routledge۔ ISBN 978-1-136-51898-0
- ↑ Arvind Sharma (1982)۔ The Puruṣārthas: a study in Hindu axiology۔ Asian Studies Center, Michigan State University;
Purusottama Bilimoria، Joseph Prabhu، Renuka M. Sharma (2007)۔ Indian Ethics: Classical traditions and contemporary challenges۔ Ashgate۔ ISBN 978-0-7546-3301-3