احمد الصقلی ،بپتسمہ کے بعد پیٹر نامی ایک خواجہ سرا اور قائد تھا جو مملکت صقلیہ کے دیوان (لقب) کے اہم عہدے پر فائز تھا۔ یہ ولیم اول کے دور حکومت میں اہم عہدوں پر رہا۔ ان کی زندگی کے حالات روموالڈ گوارنا اور ہیو فکانڈس جیسے مسیحی مورخین نے بیان کیے، جبکہ ابن خلدون نے ان کی اسلامی خدمات کا ذکر کیا ہے۔

احمد صقلی جربہ میں ایک بربر خاندان میں پیدا ہوا، جو سدوقیش قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ بعد ازاں، انھوں نے مسیحیت قبول کی اور صقلیہ کے شاہی دربار میں داخل ہو کر بحریہ کے ایڈمرل کے عہدے تک پہنچے۔ 1159ء میں، افریقہ کی مملکت کے دوبارہ فتح کے دوران، احمد نے 160 بحری جہازوں کے ساتھ جزائر بلیار پر ایک مہم کی قیادت کی۔ بعد میں، انھوں نے مہدیہ (شہر) کو مسلمانوں کے قبضے سے بچانے کے لیے ایک بیڑے کی قیادت کی، لیکن کچھ دیر بعد اپنی فوج کو واپس لے گئے۔ عربی ذرائع کے مطابق، ایک طوفان نے ان کی فوج کو منتشر کر دیا، لیکن ہیو فکانڈس نے دعویٰ کیا کہ احمد دل سے سراسن تھے اور صرف نام کے مسیحی تھے۔ تاہم، یہ دعویٰ ان کے عہدے کی ترقی کے پیش نظر مستند نہیں لگتا۔

1162ء میں، احمد نے کاؤنٹ سلویسٹر آف مارسیکو کی جگہ لی اور مملکت کے تین اہم وزراء میں شامل ہوئے۔ یہ وزراء میتھیو آف ایجیلو اور رچرڈ پامر کے ساتھ شامل تھے۔ 1166ء میں، شاہ ولیم اول کی وفات کے بعد، مارگریٹ آف نیوارا نے اپنے کم سن بیٹے ولیم دوم کے لیے حکومت سنبھالی۔ مارگریٹ نے احمد کو دیوان کے سربراہ کے عہدے پر فائز کیا لیکن انھیں "امیر الامراء" (Ammiratus Ammiratorum) کا خطاب نہیں دیا۔

احمد کو اشرافیہ نے ناپسند کیا اور جلد ہی گلبرٹ، کاؤنٹ آف گراوینا نے ان کے قتل کی سازش تیار کی۔ صورت حال سے مجبور ہو کر احمد نے شاہی خزانے کے ساتھ صقلیہ چھوڑ دی اور دولت موحدین کے سلطان ابو یعقوب یوسف کے بیڑے کا کپتان بن گیا۔ احمد، جو اب اسلام میں واپس آ چکے تھے، نے ابن خلدون کے مطابق مسیحی دشمنوں کے خلاف بہادری سے جنگ کی۔

بیرونی روابط

ترمیم