الپ خان
الپ خان (وفات: 1315ء کے اواخر یا 1316ء کے اوائل میں) ایک ہندوستانی سالار اور سلطان دہلی علاء الدین خلجی کے داماد تھے۔ الپ خان علاء الدین کی جانب سے گجرات کے فرماں روا بھی رہے۔ بادشاہ کے آخری برسوں میں شاہی دربار میں ان کا اثر و رسوخ خاصا بڑھ گیا تھا۔ الپ خان کو علاء الدین خلجی کے قتل کی سازش کرنے کے جرم میں سزائے موت دے دی گئی۔ یہ سزا غالباً ملک کافور کی ایک سازش تھی۔
الپ خان | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | سلطنت دہلی |
وفات | 1310ء کی دہائی سلطنت دہلی |
درستی - ترمیم ![]() |
ابتدائی زندگی
ترمیمالپ خان کا اصل نام جنید تھا جو بعد میں ملک سنجر ہو گیا۔ تاریخی قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا تعلق خلجی شرفا کے کسی خاندان سے تھا۔ مورخ عبد الملک عصامی کے مطابق علاء الدین خلجی نے ملک سنجر کو بچپن ہی میں اپنے پاس رکھ کر ان کی پرورش کی ذمہ داری اپنے سر لے لی تھی۔[1]
سنہ 1296ء میں جب علاء الدین خلجی تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہوئے تو انھوں نے ملک سنجر کو "الپ خان" (طاقت ور خان) کے خطاب سے نوازا۔[2] الپ خان کی بہن (سولہویں سترہویں صدی عیسوی کے ایک وقائع نویس نے ان کا نام مہرو لکھا ہے[3]) سے علاء الدین کا نکاح ہوا اور مہرو کے بطن سے خضر خان پیدا ہوئے۔
پیشہ ورانہ زندگی
ترمیمعلاء الدین خلجی نے الپ خان کو امیر مجلس کے منصب سے سرفراز کرکے ملتان کا اقطاع عطا کر دیا تھا۔ سنہ 1310ء میں علاء الدین نے گجرات کا اقطاع بھی عطا کر دیا۔[1] جین مصنفین نے مسلمان فاتحین کی منہدم کردہ مندروں کی تعمیر نو کی اجازت دینے پر الپ خان کی خوب تعریف کی ہے۔[4] کاکا سوری نے اپنی کتاب نبھی نندن جنودھر پربندھ میں الپ خان کی اجازت سے شترنجیہ مندر کی تجدید کا تذکرہ کیا ہے۔[5]
سنہ 1308ء میں علاء الدین نے الپ خان کو دیوگیری پر حملہ کرنے میں ملک کافور کی امداد پر مامور کیا۔ الپ خان کی افواج باگلان پر حملہ آور ہوئیں جہاں دیوگیری فرماں روا رام چندر نے واگھیلا بادشاہ کرن کو امارت دے رکھی تھی۔ گوکہ الپ خان کی فوج کرن کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی لیکن انھوں نے کرن کی بیٹی دیول دیوی کو پکڑ لیا۔ الپ خان نے دیول دیوی کو دلی روانہ کر دیا جہاں ان کی شادی خضر خان سے ہوئی۔[6][7]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب Peter Jackson 2003، صفحہ 171
- ↑ Sunil Kumar 2013، صفحہ 61
- ↑ Kishori Saran Lal 1950، صفحہ 42
- ↑ Iqtidar Alam Khan 2008، صفحہ 24
- ↑ John Cort 2010، صفحہ 213-214
- ↑ Kishori Saran Lal 1950، صفحہ 190-191
- ↑ Banarsi Prasad Saksena 1992، صفحہ 402-403
کتابیات
ترمیم- Banarsi Prasad Saksena (1992) [1970]۔ "The Khaljis: Alauddin Khalji"۔ در Mohammad Habib and Khaliq Ahmad Nizami (مدیر)۔ A Comprehensive History of India: The Delhi Sultanat (A.D. 1206-1526) (Second ایڈیشن)۔ The Indian History Congress / People's Publishing House۔ ج 5۔ OCLC:31870180
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Iqtidar Alam Khan (2008)۔ Historical Dictionary of Medieval India۔ Scarecrow۔ ISBN:9780810864016۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-24
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - John Cort (2010)۔ Framing the Jina: Narratives of Icons and Idols in Jain History۔ Oxford University Press۔ ISBN:978-0-19-045257-5۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-24
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Kishori Saran Lal (1950)۔ History of the Khaljis (1290-1320)۔ Allahabad: The Indian Press۔ OCLC:685167335
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Peter Jackson (2003)۔ The Delhi Sultanate: A Political and Military History۔ Cambridge University Press۔ ISBN:978-0-521-54329-3۔ 2019-01-05 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-24
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Sunil Kumar (2013)۔ "The Ignored Elites: Turks, Mongols and a Persian Secretarial Class in the Early Delhi Sultanate"۔ در Richard M. Eaton (مدیر)۔ Expanding Frontiers in South Asian and World History۔ Cambridge University Press۔ ISBN:978-1-107-03428-0۔ 2019-01-05 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-24
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت)