رسم الخط
رَسْمِ خَط یا لِپی سے مطلب ایسی علامات سے ہے جو انسان کسی مقررہ طریقے کے بموجب اپنے خیالات اور واقعات کے تحفظ اور اُن کے اظہار اور ترسیل کے لیے استعمال کرتا ہے۔ رسمِ خط کی نشو و نما کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں، ایک اوزار دوسرے کوئی شے جس پر وہ کام دے سکے۔ رسمِ خط یعنی مقررہ علامات کو تین عناصر متاثر کرتے رہتے ہیں۔ لکھنے والے کی ذاتی مہارت اور خصوصیات، اوزار کی نوعیت اور اس شے کی مادی حالت جس پر وہ علامات بنائی جائیں، ان تینوں عناصر کے اثرات کا باہمی تناسب یکساں نہیں رہتا۔ مگر بحیثیت مجموعی وہ رسم خط یعنی علامات کی مقررہ یا اصلی ہیئت میں بہت کچھ کمی اور بیشی کرتے رہتے ہیں۔[1]
تاریخ
ترمیمجب انسان نے وحشی زندگی ترک کرکے تہذیب و تمدن کی ابتدائی منزل میں قدم رکھا، تو وہ نوکدار اوزار کی مدد سے پتھر، اینٹ اور لکڑی وغیرہ پر علامات کندہ کرتا تھا۔ ان علامات کی شکل عام طور پر سطح کی سختی کی وجہ سے زاویہ دار ہوتی تھی۔ بعد میں جب اس نے پپیرس پر رنگ کے ذریعے علامات بنانا شروع کیں تو ان میں گولائی کے عناصر شامل ہونے لگے۔
مزید ترقی کے ساتھ چمڑے نے پپیرس کی جگہ لے لی اور نرسل نے نوکدار اوزاروں کی جگہ حاصل کرلی، جس سے رسم الخط کی ابتدائی مگر منظم شکل وجود میں آئی۔ عربوں نے تحریر کے لیے نرسل کو یونانیوں سے اپنایا اور اس کا نام بھی یونانی لفظ ”قالیمس“ سے ماخوذ ہوکر ”قلم“ بن گیا۔
اسلام قبول کرنے کے بعد عربوں نے علم و فنون میں غیر معمولی ترقی کی اور جلد ہی اپنے یونانی اساتذہ کے استاد بن گئے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں انھوں نے کاغذ اور اس کی صنعت کو یونان اور یورپ میں متعارف کروا کر رسم الخط میں انقلاب برپا کیا، یوں یونانیوں کے علمی احسان کا جواب ایک بڑے علمی احسان سے دیا۔[2]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ محمد سجاد مرزا (1940)۔ اردو رسمِ خط۔ حیدرآباد دکن: انتظامی مشن پریس۔ ص 1
- ↑ محمد سجاد مرزا (1940)۔ اردو رسمِ خط۔ حیدرآباد دکن: انتظامی مشن پریس۔ ص 1–2