رہف محمد
رہف محمد (انگریزی: Rahaf Mohammed، سابق عربی نام: رہف محمد مطلق القنون؛ ولادت: 11 مارچ 2000ء) سعودی عرب کی ایک خاتون ہے جسے تھائی لینڈ کی حکومت نے 5 جنوری 2019ء کو اس وقت حراست میں لیا جب وہ بینکاک کے راستے کویت سے اسٹریلیا جا رہی تھی۔ رہف اپنے خاندان سے بھاگ کر اسٹریلیا میں پناہ کی طلب گار تھی۔ رہف نے کہا کہ اس کے خاندان والے اس کو گالی دیتے اور قتل کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ اس نے سماجی ذرائع ابلاغ اور ٹویٹر پر شکایت بھرے مراسلے شائع کیے جنہیں عالمی سطح پر خوب پزیرائی ملی اور تھائی حکام کو مجبوراً اسے کویت واپس بھیجنے کے فیصلہ سے دست بردار ہونا پڑا (جہاں سے اسے سعودی عرب واپس جانا تھا)۔ اسی اثنا میں رہف کو اقوام متحدہ کمیشن برائے انسانی حقوق نے اپنی حفاظت میں لے کر اسے پناہ گزیں کا درجہ دے دیا۔ بعد ازاں 11 جنوری کو کینیڈا نے رہف کو اپنے ملک میں پناہ دینے کا اعلان کیا جس کے اگلے ہی دن وہ ٹورانٹو پہنچ گئی۔
رہف محمد | |
---|---|
(عربی میں: رهف محمد القنون) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 11 مارچ 2000ء (25 سال)[1] سعودی عرب |
رہائش | کینیڈا (12 جنوری 2019–)[2] |
شہریت | ![]() |
عملی زندگی | |
پیشہ | پناہگزیں [4]، متعلم [4]، سیاسی کارکن [5] |
پیشہ ورانہ زبان | عربی [6]، انگریزی [7][6] |
شعبۂ عمل | ادبی سرگرمی [8]، خود نوشت [8]، فعالیت پسندی [8] |
درستی - ترمیم ![]() |
سعودی عرب میں زندگی
ترمیمرہف کی ولادت 11 مارچ 2000ء کو ہوئی۔[9] اس کے والد حائل علاقہ کے السلیمی قصبہ کے گورنر ہیں۔[10] رہف کے نو بھائی بہن ہیں۔[11]
رہف نے اپنے خاندان پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اس کو تعلیم سے روکا گیا اور مہینوں قید میں رکھا گیا اور ساتھ ہی جسمانی و ذہنی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔[12][13] نیز اسے طے شدہ شادی پر مجبور کیا گیا[11] اور اسلام کو نہ ماننے کی وجہ سے قتل کی دھمکی بھی دی۔[12] واضح رہے کہ سعودی عرب کے قانون کی رو سے ارتداد کی سزا موت ہے۔[13]
حراست
ترمیم
رہف محمد از ٹویٹر @rahaf84427714 based on the 1951 Convention and the 1967 Protocol, I'm rahaf mohmed, formally seeking a refugee status to any country that would protect me from getting harmed or killed due to leaving my religion and torture from my family.
6 جنوری 2019ء[14]
رہف محمد اپنے اہل خانہ کے ساتھ چھٹیاں گزارنے کویت گئی تھی اور وہیں سے بھاگ کر بینکاک کی پرواز پر سوار ہو گئی۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ دوسری فلائٹ لے کر آسٹریلیا میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔[12] چنانچہ آسٹریلیا نے اسے سیاحتی ویزا جاری کیا[15] اور آسٹریلیا میں آنے کی اجازت دے دی۔ دوسری جانب رہف کے اہل خانہ نے گمشدگی کا کیس درج کرایا۔ بینکاک پہنچنے پر سعودی سفارت خانہ کے ایک ملازم نے اپنی شناخت کو مخفی رکھ کر سوورن بھومی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اس کا استقبال کیا اور کہا کہ مجھے آپ کا پاسپورٹ درکار ہے تاکہ تھائی لینڈ کا ویزا حاصل کرنے میں آپ کی مدد کر سکوں۔ یوں اس شخص نے رہف کا پاسپورٹ حاصل کیا اور وہاں سے چلا گیا۔ تاہم رہف کا ہوائی اڈا کے احاطہ کو چھوڑنے کا ارادہ نہ تھا،[16][17] اس لیے اسے تھائی ویزا کی ضرورت نہیں پڑی۔ جلد ہی تھائی افسران نے رہف کو ہوائی اڈا کے اندر ہی مریکل ہوٹل[18] سے گرفتار کر لیا۔[16][19]
رہف نے ٹویٹر پر اپنا کھاتہ بنایا اور مراسلہ کا سلسہ جاری کیا جس میں اس نے اپنے ارتدادکا اعلان کر دیا اور کہا کہ اس کے خاندان والے نام نہاد ناموسی قتل کہ کر اس کو مار ڈالیں گے اگر وہ سعودی عرب واپس گئی۔[17][20][16][21] اس نے مزید کہا کہ اس نے خود کو ہوٹل کے کمرے تک محدود کر دیا تھا تا آنکہ اقوام متحدہ کو کوئی نمائندہ اس سے ملاقات کرے اور پناہ گزیں کا درجہ دے اور مغربی سفارتخانوں سے درخواست کرے کہ اسے پناہ دینے میں اس کی مدد کرے۔[12] اسے اس کے دنیا بھر سے حمایت ملنا شروع ہو گئی اور 5 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے "#SaveRahaf" کا ہیش ٹیگ چلایا۔[22] ایک ٹویٹ میں اس نے پاسپورٹ کی تصویر شائع کی۔[9][17] اسٹریلیائی اے بی سی کی صحافی سوفی میکنیل نے خود کو رہف سے ساتھ ہی ہوٹل کے کمرے میں بند کر لیا تا کہ اس کی مدد کر سکے۔[23][24] ہوٹل سے ہی رہف نے اپنے ایک دوست کو اس کی طرف سے مزید ٹویٹ کرنے کی اجازت دی۔[15][25] تھائی لینڈ کے وکلا نے تھائی لینڈ سے اس کے زبردستی اخراج کے بچاو میں ایک عرضی دائر کی [26] جسے فوراً ہی رد کر دیا گیا۔[16] البتہ ایک اپیل کی تیاری کرلی گئی ہے۔[18] تھائی لینڈ کے مہاجرت معاملہ کے کمشنر نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ سعودی حکومت کی مرضی کے مطابق ہی اقدامات کریں گے۔[16]
رہف کو 7 جنوری کو کویت کے لیے روانہ ہونا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ بعد ازاں تھائی لینڈ کی حکومت نے اعلان کیا کہ رہف کو نہیں بھیجا جائے گا۔[27] یورپی سعودی آرگنائزیشن برائے حقوق انسانی کے ایک وکیل نے رہف کے ٹویٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی مدد کا اعلان کیا اور اسے واپس سعودی نہ بھیجنے کی وکالت کی۔[28] انھوں نے مزید کہا کہ تھائی لینڈ کی حکومت نے رہف کے حو میں ساری دنیا سے ملنے والی حمایت کو دیکھتے ہوئے منٹون میں اپنا فیصلہ بدل لیا۔[28] رہف نے ایک انٹویو میں کہا کہ اس نے ایک الوداعی خط لکھا جس میں اس نے وضاحت کی کہ اگر اسے سعودی عرب بھیجنے پر مجبور کیا گیا تو وہ خود کشی کر لے گی۔[29]
ابتدائی اختلاف اور تھائی حکومت کے اقدامات
ترمیمابتدائی مراحل میں نگہبان حقوق انسانی نے 5 جنوری 2019ء کو کہا کہ تھائی لینڈ کی حکومت کہانی بنا رہی تھی کہ رہف نے ویزا کی حرضی دی ہے جسے رد کر دیا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے پاس آسٹریلیا کا ٹکٹ تھا اور اس نے تھائی لینڈ میں رکنے کا فیصلہ ہی نہیں کیا تھا۔[17] دو دن کے بعد 7 جنوری 2019ء کو عالمی دباو کے بعد تھائی لینڈ حکومت نے پلٹی ماری اور جنرل رہف کے ساتھ چلتے ہوئے دکھے اور کہا کہ ہم کسی کو مرنے کے لیے نہیں بھیج سکتے۔ ہم ایسا نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم حقوق انسانی کے قانون کی پاسداری کریں گے۔[30] اس کے معا بعد اسے اقوام متحدہ کے اعلیٰ کمشنر برائے مہاجرین کی تحویل میں دے دیا گیا اور ساتھ ہی آسٹریلیا کا ویزا بھی دیا گیا اور طویل عرصے کے لیے پناہ بھی دی گئی۔[31]
اقوام متحدہ کی مداخلت
ترمیماقوام متحدہ کے اعلیٰ کمشنر برائے مہاجرین نے 7 جنوری کو ایک بیان میں کہا کہ:[32]
” | تھائی حکومت نے اقوام متحدہ کے اعلیٰ کمشنر برائے مہاجرین کو سعودی نژاد رہف محمد تک بینکاک ہوائی اڈہ پر رسائی فراہم کر دی ہے تاکہ اسے عالمی مہاجر کی حیثیت سے مدد فراہم کی جا سکے۔ حفاظتی اور رازداری وجوہات کی بنا پر ہم مزید تفصیل بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ | “ |
رہف نے اس کے بعد ایجنسی کی تحویل میں ہوائی اڈہ کو خیرباد کہا اور اسے مہاجر کا درجہ مل گیا اور آسٹریلیا حکومت سے اس کی پناہ کی درخواست پر غور کرنے کو کہا۔[10] آسٹریلیا کے وزارت داخلہ کے وزیر پیٹر ڈٹن نے ایک ریڈیو انٹرویو میں کہا کہ رہف تھائی لینڈ میں زیادہ محفوظ ہے[33] کیونکہ اس کی حفاظت کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے اور یہ بھی واضح نہیں کیا کہ آسٹریلیا اس کی درخواست پر کب جواب دے گا۔ بعد میں ایجنسی نے کینیڈا کو اس کی درخواست بھیج دی۔[29]
کینیڈا میں پناہ
ترمیم11 اور 12 جنوری کے درمیان میں رہف سؤل کے راستے کینیڈا روانہ ہو گئی جہاں اسے “دوبارہ آباد پناہ گزیں‘‘[34] کے درجے کی پناہ مل گئی۔[11][35][36] اقوام متحدہ کے اعلیٰ کمشنر برائے مہاجرین نے کہا کہ بہت جلد بازی اور ایمرجنسی کی حالت میں اسے پناہ دی گئی۔[34] کینیڈیا وزارت خارجہ کے وزیر کرسٹیا فری لینڈ نے ٹورانٹو پیرسن انٹرنیشنل ایرپورٹ پر رہف کا استقبال کیا۔[37][38]
رد عمل
ترمیمرہف کے خاندان نے اسے خاندان سے باہر کرتے ہوئے بیان دیا کہ:[29]
” | ہم رہف محمد القنون کے خاندان والے سعودی عرب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم نام نہاد رہف، ذہنی طور پر بیمار بیٹی کو اپنے خاندان سے آزاد کرتے ہیں جس نے بے عزتی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کیا ہے۔ | “ |
جب رہف کو اطلاع ملی کہ اس کو خاندان سے بے دخل کر دیا گیا ہے تو اس نے اپنے نام سے (القنون) ہٹانے کا فیصلہ کیا اور اب وہ رہف محمد کے نام جانی جاتی ہے۔[39][40][41] ایسا ہی ایک معاملہ دینا علی اور حکیم العریبی کا بھی تھا۔[42] رائٹر کے ایک صحافی اسٹیفن کلین نے لکھا کہ رہف کا معاملہ سعودی عرب کے مردانہ حاکمیت کے خلاف ایک نیا قدم ہے۔[24][43][43]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب https://twitter.com/rahaf84427714/status/1081794376307785729 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 جنوری 2019 — اقتباس: This is a copy of my passport, Im shering it with you now because I want you to know I’m real and exist.
- ↑ https://www.bbc.co.uk/news/world-us-canada-46851723 — اخذ شدہ بتاریخ: 12 جنوری 2019
- ↑ https://www.bbc.com/news/world-middle-east-46777848 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 جنوری 2019
- ↑ این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=xx0271923 — اخذ شدہ بتاریخ: 20 دسمبر 2022
- ↑ این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=xx0271923 — اخذ شدہ بتاریخ: 5 دسمبر 2023
- ↑ https://www.theguardian.com/world/2019/jan/11/canada-and-australia-in-talks-with-un-to-accept-saudi-asylum-seeker-rahaf-mohammed-al-qunun — اخذ شدہ بتاریخ: 11 جنوری 2019
- ↑ https://www.abc.net.au/news/2019-01-08/rahaf-alqunun-was-terrified-says-reporter-who-was-locked-in-room/10697636 — اخذ شدہ بتاریخ: 11 جنوری 2019
- ↑ این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=xx0271923 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 نومبر 2022
- ^ ا ب @ (6 جنوری 2019)۔ "This is a copy of my passport, Im shering it with you now because I want you to know I'm real and exist." (ٹویٹ)۔ 2019-01-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا – بذریعہ ٹویٹر
{{حوالہ ویب}}
: الوسيط|author=
يحوي أسماء رقمية (معاونت) والوسيط غير المعروف|dead-url=
تم تجاهله (معاونت) - ^ ا ب "Saudi woman 'given refugee status'"۔ بی بی سی نیوز۔ 9 جنوری 2019۔ 2019-01-09 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-09
- ^ ا ب پ "Saudi woman fleeing family flies to Canada after gaining asylum"۔ دی گارڈین۔ 11 جنوری 2019۔ 2019-01-12 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-11
{{حوالہ ویب}}
: الوسيط غير المعروف|dead-url=
تم تجاهله (معاونت) - ^ ا ب پ ت Natalia Megas (15 جنوری 2019)۔ "'We know exactly what Rahaf is feeling': Friend of Saudi woman granted asylum in Canada speaks out"۔ The Lily۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-15
{{حوالہ ویب}}
: الوسيط غير المعروف|dead-url=
تم تجاهله (معاونت) - ^ ا ب Asaree Thaitrakulpanich (7 جنوری 2019)۔ "Standoff at Suvarnabhumi as Saudi Woman Resists Deportation"۔ Khaosod English۔ 2019-01-07 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-13
{{حوالہ ویب}}
: الوسيط غير المعروف|dead-url=
تم تجاهله (معاونت) - ↑ رہف محمد [@] (6 جنوری 2019ء)۔ "based on the 1951 Convention and the 1967 Protocol, I'm rahaf mohmed, formally seeking a refugee status to any country that would protect me from getting harmed or killed due to leaving my religion and torture from my family." (ٹویٹ) – بذریعہ ٹویٹر
{{حوالہ ویب}}
: اس حوالہ میں نامعلوم یا خالی پیرامیٹر موجود ہے:|dead-url=
(معاونت) - ^ ا ب "Saudi woman 'trapped trying to flee'"۔ بی بی سی نیوز۔ 6 جنوری 2019۔ 2019-01-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-06
{{حوالہ ویب}}
: الوسيط غير المعروف|dead-url=
تم تجاهله (معاونت) - ^ ا ب پ ت ٹ Richard C. Paddock؛ Ben Hubbard (6 جنوری 2019)۔ "Saudi Woman Who Tried to Flee Family Says, 'They Will Kill Me'"۔ نیو یارک ٹائمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-06
- ^ ا ب پ ت "Rahaf al-Qunun: Saudi woman ends airport hotel standoff"۔ بی بی سی نیوز۔ 7 جنوری 2019۔ 2019-01-12 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-09
{{حوالہ خبر}}
: الوسيط غير المعروف|deadurl=
تم تجاهله (معاونت) - ^ ا ب "Rahaf Alqunun: Thailand admits Saudi woman seeking asylum"۔ Al Jazeera۔ 7 جنوری 2019۔ 2019-01-12 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-07
{{حوالہ ویب}}
: الوسيط غير المعروف|dead-url=
تم تجاهله (معاونت) - ↑ Jamie Fullerton؛ Helen Davidson (7 جنوری 2019)۔ "'He wants to kill her': friend confirms fears of Saudi woman held in Bangkok"۔ دی گارڈین۔ 2019-01-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-07
- ↑ Heather Chen؛ Mayuri Mei Lin (10 جنوری 2019)۔ "#SaveRahaf: How Twitter saved a Saudi woman"۔ بی بی سی نیوز۔ 2019-01-13 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-10
{{حوالہ ویب}}
: الوسيط غير المعروف|dead-url=
تم تجاهله (معاونت) - ↑ "Inside a barricaded hotel room with the Saudi woman seeking Australian asylum"۔ Australian ABC۔ 8 جنوری 2019۔ 2019-01-12 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-08
{{حوالہ ویب}}
:|archive-date=
/|archive-url=
timestamp mismatch (معاونت) والوسيط غير المعروف|dead-url=
تم تجاهله (معاونت) - ↑ Patpicha Tanakasempipat؛ Panu Wongcha-um (8 جنوری 2019)۔ "#SaveRahaf: Activists' lightning campaign made Saudi teen's flight..."۔ Reuters۔ 2019-01-17 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-13
- ↑ "Australia urged to help Saudi teenager barricaded inside Thai hotel room"۔ دی گارڈین۔ 7 جنوری 2019۔ 2019-01-12 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-07
{{حوالہ ویب}}
: الوسيط غير المعروف|dead-url=
تم تجاهله (معاونت) - ^ ا ب "Australian-based friend of Rahaf Alqunun says she just wants any safe country"۔ ABC Local Radio۔ 8 جنوری 2019۔ 2019-01-13 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-08
{{حوالہ ویب}}
: الوسيط غير المعروف|dead-url=
تم تجاهله (معاونت) - ↑ Matthew S. Schwartz (7 جنوری 2019)۔ "Saudi Teen Seeks Asylum, Fears Family Will Kill Her"۔ این پی ار۔ 2019-01-12 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-07
{{حوالہ ویب}}
: الوسيط غير المعروف|dead-url=
تم تجاهله (معاونت) - ↑ Kaweewit Kaewjinda؛ Aya Batrawy (7 جنوری 2019)۔ "Thai police say they won't deport Saudi woman seeking asylum"۔ AP NEWS۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-07
- ↑ Anais Moine (12 Jan 2019). "Tout juste reconnue réfugiée, Rahaf Mohammed témoigne de son bonheur" [Just after receiving asylum, Rahaf Mohammed describes her happiness] (بزبان فرانسیسی). Aufeminin. Archived from the original on 2019-01-12. Retrieved 2019-01-12.
{{حوالہ خبر}}
: الوسيط غير المعروف|deadurl=
تم تجاهله (help) - ^ ا ب Sophie McNeill (15 جنوری 2019)۔ "Saudi teen Rahaf al Qunun pledges to use her freedom to campaign for others"۔ ABC News۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-15
- ^ ا ب پ Aya Batrawy (7 جنوری 2019)۔ "Rahaf Al-Qunun, fleeing Saudi Arabia, allowed to stay in Thailand"۔ The Sydney Morning Herald۔ 2019-01-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-08
{{حوالہ ویب}}
: الوسيط غير المعروف|dead-url=
تم تجاهله (معاونت) - ↑ Jamie Fullerton؛ Helen Davidson (8 جنوری 2019)۔ "'You saved Rahaf's life': online outcry kept 'terrified' Saudi woman safe, says friend"۔ دی گارڈین۔ 2019-01-13 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-08
{{حوالہ ویب}}
: الوسيط غير المعروف|dead-url=
تم تجاهله (معاونت) - ↑ "UNHCR statement on the situation of Rahaf Mohammed Al-qunun at Bangkok airport"۔ United Nations High Commissioner for Refugees۔ 7 جنوری 2019۔ 2019-01-07 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-07
{{حوالہ ویب}}
: الوسيط غير المعروف|dead-url=
تم تجاهله (معاونت) - ↑ "Saudi teen Rahaf Alqunun slams Australian government for taking 'too long' to grant her asylum"۔ www.news.com.au۔ 12 جنوری 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-15
- ↑ "Rahaf al-Qunun: Saudi teen granted asylum in Canada"۔ BBC News۔ 11 جنوری 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-11
- ^ ا ب Leyland Cecco (12 جنوری 2019)۔ "Rahaf al-Qunun lands in Toronto after long journey to safety"۔ The Guardian۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-12
- ↑ Katie Dangerfield؛ Rebecca Joseph (11 جنوری 2019)۔ "Canada grants asylum to Saudi teen who fled alleged family abuse"۔ Global News۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-11
- ↑ "UNHCR statement on Canada's resettlement of Saudi national Rahaf Al-Qunun"۔ UNHCR۔ 11 جنوری 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-11
- ↑ "Saudi teen refugee arrives in Canada"۔ BBC News۔ 12 جنوری 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-12
- ↑ "'Nothing to lose': Saudi teen Rahaf Mohammed details family abuse"۔ Al Jazeera۔ 15 جنوری 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-15
- ↑ "I feel born again, says Saudi who fled to Canada to escape 'abuse'"۔ Evening Standard۔ 15 جنوری 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-15
- ↑ "Saudi Woman Who Fled Country Hopes She Inspires Others To Follow"۔ NPR۔ 15 جنوری 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-15
- ↑ Helen Davidson (10 جنوری 2019)۔ "Rahaf and Hakeem: why has one refugee captured the world's attention while another is left in jail?"۔ دی گارڈین۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-10
- ↑ Stephen Kalin (10 جنوری 2019)۔ "Saudi woman's flight rallies opposition to male guardianship"۔ 2019-01-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-10
{{حوالہ خبر}}
: الوسيط غير المعروف|deadurl=
تم تجاهله (معاونت) - ^ ا ب Joseph Hincks (10 جنوری 2019)۔ "Saudi Women Are Demanding Change After a Teen Fled the Country"۔ Time۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-13