سلطان المزاحی
سلطان بن احمد سلامہ بن اسماعیل ابو عزائم المزاحی مصری ازہری شافعی ( 985ھ - 1075ھ / 1577ء - 1665ء ) ایک حدیث کے عالم اور قاری تھے۔ [2]
سلطان المزاحی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | سنہ 1577ء |
وفات | 4 جنوری 1665ء (87–88 سال)[1] قاہرہ |
شہریت | ![]() |
مذہب | اسلام [1] |
عملی زندگی | |
تلمیذ خاص | محمد خلوتی |
پیشہ | فقیہ ، قاری |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
درستی - ترمیم ![]() |
علمی زندگی
ترمیمانھوں نے قرآن کریم حفظ کیا اور اسے مکمل مہارت کے ساتھ یاد کیا، پھر شاطبیہ، درہ اور طیبہ کے ذریعے علمِ قراءاتِ عشرہ حاصل کیا۔ دینی علوم میں محنت و جدوجہد کی یہاں تک کہ ممتاز علما میں شمار ہونے لگے۔ انھوں نے عقلی علوم میں بھی مہارت حاصل کی اور تیس سے زائد مشائخ سے علم حاصل کیا۔ سن 1008ھ میں فتویٰ دینے اور تدریس کی اجازت حاصل کی اور جامع ازہر میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔
وہ ہر روز درس و تدریس میں مصروف رہتے؛ صبح سے دوپہر تک فقہ پڑھاتے اور باقی وقت دیگر علوم کی تعلیم میں گزارتے۔ ان کے حلقۂ درس سے عوام و خواص نے بھرپور استفادہ کیا۔ ان کی مجلس میں برکت، دعاؤں کی تاثیر، نیک نیتی، باطن و ظاہر کی پاکیزگی اور قول و فعل کی ہم آہنگی نمایاں تھی۔ وہ فرمایا کرتے: "جو عالم بننا چاہے، وہ میرے درس میں حاضر ہو!" کیونکہ وہ ہر سال تقریباً دس مختلف علوم کی کتابیں پڑھاتے اور انتہائی مفید انداز میں ان کی تدریس کرتے۔ جامع ازہر میں آٹھ ماہ کے عرصے میں امام زکریا الانصاری کے "المنہج" اور اس کی شرح مکمل کراتے اور اس پر انھوں نے حاشیہ بھی لکھا۔ ان کا گھر جامع ازہر سے کافی فاصلے پر باب زویلہ کے قریب تھا، لیکن اس کے باوجود وہ رات کے آخری تہائی حصے میں ازہر پہنچ جاتے اور طلوعِ فجر تک نماز میں مشغول رہتے۔ پھر فجر کی نماز میں امامت کراتے اور اس کے بعد طلوعِ آفتاب تک قرآن کریم کا درس دیتے، خاص طور پر شاطبیہ، درہ اور طیبہ کے مطابق قراءات کی تعلیم دیتے۔ پھر وضو کر کے مزید تدریس میں مشغول ہو جاتے اور ظہر کے قریب تک پڑھاتے۔
یہ ان کا روزانہ کا معمول تھا اور باوجود بڑھاپے اور جسمانی کمزوری کے، کبھی کسی نے انھیں بیٹھ کر نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ وہ قاہرہ میں شیخُ الإقراء کے منصب پر فائز تھے۔[3]
شیوخ
ترمیمشیخ نے قراءات، حدیث، فقہ اور عقلی علوم میں کئی مشائخ سے تعلیم حاصل کی، جن میں درج ذیل قابل ذکر ہیں:
- قراءات میں:
- . شیخ الإمام المقرئ سیف الدین بن عطاء اللہ الفضالی – انھوں نے ان سے قرآنِ کریم مختلف روایات کے ساتھ قراءاتِ عشرہ صغریٰ و کبریٰ کے مطابق پڑھا۔
- حدیث اور فقہ میں:
- . النور الزيادي
- . سالم الشبشيري
- . أحد خليل السبكي
- . حجازي الواعظ
- . محمد القصري – جو شیخ الشمس محمد الشربینی الخطيب کے شاگرد تھے۔
ان کے علاوہ بھی کئی دیگر جید علما سے انھوں نے اکتسابِ علم کیا۔
شاگرد (تلامذہ)
ترمیمشیخ سے بے شمار محقق علما نے علم حاصل کیا، جن میں سے چند مشہور درج ذیل ہیں:
- . علامہ علی الشبراملسی
- . عبد القادر الصفوری الدمشقی
- . محمد الخباز البطنینی الدمشقی
- . منصور الطوخی
- . محمد البقری
- . محمد بن خلیفة الشوبری
- . ابراہیم المرحومی
- . السید أحمد الحموی
- . عثمان النحراوی
- . شاهین الأرمناوی
- . محمد البہوتی
- . عبد الباقی الزرقانی المالکی
- . أحمد البشبیشی
امام المحبی کا قول ہے کہ: "اور ان کے شاگردوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ شمار سے باہر ہے اور ہمارے زمانے میں مصر کے تمام شافعی فقہا نے فقہ صرف انہی سے حاصل کیا۔"[2]
تصنیفات
ترمیمشیخ کی مشہور تصانیف میں شامل ہیں:
- . حاشیہ على شرح المنهاج (فقہ شافعی)
- . کتاب في القراءات الأربع الزائدة على العشر
- . الجوهر المصون (قراءات کی جمع و ترتیب)
- . مسائل وأجوبتها (علمی و فقہی سوالات کے جوابات)
- . أجوبة عن أسئلة في القراءات
- . رسالة في أجوبة المسائل العشرين
یہ کتب ان کے علمی مقام و مہارت کی عکاسی کرتی ہیں۔
ثناء العلماء
ترمیمشیخ کی علمی عظمت کا اعتراف کئی جلیل القدر علما نے کیا:
- . فضل الله، والد الإمام المحبّي:
"قاہرہ میں شیخ القراء اور متفقہ طور پر فقہا کے مرجع تھے۔ امام شافعی کے فقہی مکتب کے علمبردار، علوم میں کامل اور ان کی کوششیں قابلِ ستائش تھیں۔ نقل و عقل دونوں میں ماہر، اصول و فروع پر گہری نظر رکھنے والے، طلبہ کے رہنما اور ماہرینِ فرائض و حساب کے لیے نمونہ تھے۔ ان کے علم سے زمانے کے علما نے استفادہ کیا اور وہ جامع ازہر میں علمی قیادت کے مقام پر فائز تھے۔"
- . الإمام المحبّي:
"وہ امام الأئمہ، علوم کے سمندر، فقہا کے سردار، حفاظ و قراء کے خاتم اور اپنے زمانے کے فرید تھے۔ عبادت و زہد میں کامل، روزہ دار اور قیام اللیل کے عادی تھے۔"
- . العلامہ الزرکلی:
"ایک فاضل عالم، جو قاہرہ میں شیخُ الإقراء کے مقام پر فائز تھے۔"
وفات
ترمیمشیخ کا وصال 17 جمادی الآخر 1075ھ (بدھ کی رات) کو ہوا۔ ان کی نمازِ جنازہ شیخ الشمس البابلی نے پڑھائی اور انھیں تربہ المجاورین میں سپردِ خاک کیا گیا۔[4]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب https://al-maktaba.org/book/22869/642
- ^ ا ب لوا خطا ماڈیول:Cite_Q میں 684 سطر پر: attempt to call upvalue 'getPropOfProp' (a nil value)۔
- ↑ إمتاَعُ الفُضَلا بتَراجِم القرّاء فِيما بَعدَ القَرن الثامِن الهِجري- للساعاتي
- ↑ إمتاَعُ الفُضَلا بتَراجِم القرّاء فِيما بَعدَ القَرن الثامِن الهِجري- للساعاتي