عبد الرحمن بن محمد بن احمد شربینی (متوفی 1326ھ) ایک مصری شافعی فقیہ تھا ۔ اس نے دو سال تک الازہر کی شیخی سنبھالی۔ [1]

عبد الرحمن الشربيني
معلومات شخصیت
مناصب
امام اکبر (29  )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
1905  – 1907 
علی بن محمد ببلاوی  
حسونہ نواوی  
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ الازہر   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فقیہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

پیدائش اور ابتدائی زندگی

ترمیم

شیخ عبد المجید سلیم کی تاریخ پیدائش نامعلوم ہے۔ وہ اپنے گاؤں شربین میں پیدا ہوئے، جس کی نسبت سے ان کا نام معروف ہوا۔ انھوں نے قرآن کریم حفظ کیا اور ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے قاہرہ کا رخ کیا، جہاں انھوں نے جامعہ ازہر میں داخلہ لیا۔ ازہر میں انھوں نے مقررہ علوم جیسے: تفسیر، حدیث، توحید، تصوف، فقہ، اصول فقہ، علم کلام، نحو، صرف، عروض، معانی، بیان، بدیع، ادب، تاریخ اور سیرت النبی ﷺ کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی غیر معمولی ذہانت جلد ہی ظاہر ہو گئی اور ان کے اساتذہ نے انھیں جامعہ ازہر میں تدریس کے لیے نامزد کیا۔ وہ تدریس کے مسائل کو گہرائی سے سمجھتے تھے اور بنیادی کتابوں اور متون کے مطالعے کو ترجیح دیتے تھے۔[2]


شیخ طلبہ کو بنیادی کتب کے اصولوں میں گہرائی سے مہارت حاصل کرنے اور ان کا مطالعہ کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ وہ دنیا سے بے رغبت اور زاہد تھے۔ شیخ قدیم علمی ورثے کی حفاظت کے قائل تھے اور ازہر کو ایسے "مذموم" تغیرات سے بچانے کے حامی تھے جو دینی علوم کو چھوڑ کر دنیاوی علوم کی طرف مائل کرنے کا باعث بنیں۔[3] === تولیہ مشیختِ ازہر ===≈ شیخ الشربینی کی دنیا سے بے رغبتی اور زہد کو دیکھتے ہوئے حکام نے انھیں ازہر کی مشیخت کے لیے منتخب کیا، یہ سوچ کر کہ ان کی زاہدانہ طبیعت انھیں مشیخت کے معاملات میں مصروف نہیں رکھے گی اور وہ ازہر پر اپنا کنٹرول قائم رکھ سکیں گے۔ شیخ نے کئی بار اس عہدے سے معذرت کی، مگر خدیوی عباس حلمی ثانی کے اصرار پر آخر کار 12 محرم 1323ھ/ 1905ء کو مشیخت قبول کرلی۔ خدیوی نے اس موقع پر ایک عظیم الشان تقریب کا انعقاد کیا۔

تصانیف

ترمیم

شیخ الشربینی نے اپنے وسیع علمی پس منظر اور دینی علوم میں مہارت کے باوجود زیادہ تصانیف نہیں کیں، کیونکہ ان کی توجہ طلبہ کو بنیادی کتب اور ان کے اصولوں کی گہرائی تک پہنچانے پر مرکوز تھی۔ ان کی چند اہم تصانیف یہ ہیں:[4]

  1. . تقرير على حاشية البناني على شرح المحلي على جمع الجوامع للسبكي(اصول الفقہ میں)[5]
  2. . تقرير على حاشية ابن قاسم على شرح شيخ الإسلام زكريا الأنصاري لمتن البهجة الوردية(فقہ شافعی کی منظومہ "بهجة الحاوي" پر)
  3. . تقرير على حاشية عبد الحكيم على شرح السيالكوتي على شرح القطب على الشمسية في المنطق(منطق کے موضوع پر)
  4. . فيض الفتاح على حواشي شرح تلخيص المفتاح(بلاغت کے علوم میں)[6]

یہ تصانیف ان کے گہرے علمی ذوق اور تحقیقی انداز کی عکاسی کرتی ہیں۔

وفات

ترمیم

شیخ الشربینی کا انتقال 1326ھ/ 1908ء میں قاہرہ میں ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے اور ان کی علمی و دینی خدمات کو قبول فرمائے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. "الشيخ التاسع والعشرون.. عبد الرحمن الشربيني"۔ sis.gov.eg (بزبان عربی)۔ 2020-08-09 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-08-09
  2. "(الشيخ التاسع والعشرون للجامع الأزهر).. عبد الرحمن الشربيني"۔ بوابة الحركات الإسلامية۔ 8 نوفمبر 2022 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |تاريخ أرشيف= (معاونت)
  3. خفاجي، محمد عبد المنعم- صبح، علي علي، الأزهر في ألف عام، المكتبة الأزهرية للتراث، ط3، ج2، 2009، ص 104
  4. دار الكتب المصرية - 22966 ب
  5. خفاجي، محمد عبد المنعم- صبح، علي علي، الأزهر في ألف عام، المكتبة الأزهرية للتراث، القاهرة، ط3، ج2،عام 2009، ص 107
  6. خير الدين الزركلي (1980)۔ "الشِّربِيني"۔ موسوعة الأعلام۔ مكتبة العرب۔ 2019-12-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 تشرين الأول 2011 {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |تاريخ الوصول= (معاونت)