ابو محمد عبد اللہ بن خلف دحیان حربی (1) حنبلی (2) سلفی (3) اثری (4) کویتی (5) اور « بن خلف الدحیان ( audio speaker iconاستمع  ) یا عبداللہ الدحیان ( 1292ھ - 1349ھ) کویتی عالم، حنبلی فقیہ، قاضی اور شاعر تھے۔ ابتدائی تعلیم کویت میں حاصل کی، پھر زبیر (عراق)، بریدہ، عنيزہ، مدینہ اور مکہ میں علم حاصل کیا۔ واپسی پر مسجد ناصر بن یوسف البدر میں امام، خطیب اور مدرس بنے۔ قاضی خالد العدسانی کی وفات کے بعد شیخ احمد الجابر الصباح کے حکم سے قاضی مقرر ہوئے اور اپنی عدل و انصاف پر شہرت پائی۔[1]

عبد اللہ بن خلف دحیان
(عربی میں: عَبْدُ اللَّٰهِ بْنُ خَلَفٍ الدَّحَيَّان ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 22 ستمبر 1875ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کویت شہر   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 17 فروری 1931ء (56 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کویت شہر   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات ذات الجنب   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت عثمانیہ (1875–1899)
مشیخہ کویت (1899–1931)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ عبد اللہ بن عبد الرحمن بن حمود ،  Abdullah Sufan al-Qaddumi   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فقیہ ،  قاضی ،  شاعر ،  انسان دوست ،  امام   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک سلفی   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط
 

شیخ عبد اللہ بن خلف بن دحیان الحربي کا تعلق قبیلہ حرب سے تھا اور انھوں نے اپنی کئی مخطوطات میں اسی نسبت کو اختیار کیا۔ وہ کویت شہر میں پیدا ہوئے، جو اس وقت حفاظتی دیوار (سور) کے اندر واقع تھی۔[2]

ابتدائی زندگی اور پرورش

ترمیم

شیخ عبد اللہ الدحیان ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد الملا خلف الدحیان نجد کے المجمعة علاقے میں امام، خطیب اور معلمِ قرآن تھے۔ بدوی پس منظر رکھنے کے باوجود، وہ 1285ھ/1868ء میں کویت منتقل ہو گئے، کیونکہ نجد میں مسلسل جنگیں اور جھگڑے جاری تھے۔ کویت میں انھوں نے سكة عنزة (مدرسہ المبارکیہ کے قریب) میں سکونت اختیار کی اور علم حاصل کرنا شروع کیا۔ بعد میں وہ زبیر (عراق) میں بھی تعلیم کے لیے گئے، پھر واپس آ کر کویت میں قرآن کی تدریس شروع کی۔ شیخ عبد اللہ الدحیان 28 شوال 1292ھ / 22 ستمبر 1875ء کو کویت میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نے ان کی صلاحیتوں کو پہچان کر ابتدا میں ہی انھیں قرآن حفظ کرانا شروع کیا، جو ان کے علمی سفر کا آغاز تھا۔

علمی سفر

ترمیم
 
صورة لجامع خطوة الإمام علي أحد معالم مدينة الزُّبير الحديثة، تلقَّى الشَّيخ عبد الله العِلم من فُقهاء الحنابلة في هذه المدينة.
 
خريطة تُظهر منطقة القصيم ومُحافظاتها، يظهر موقع مدينتي بُرَيْدَة وعُنَيْزَة التي مر بهما الشيخ عبد الله الدحيان خلال رحلته للحج.
 
تخطيط اسم عبد الله صوفان الْقَدُّومي بخط الثُّلُث، التقى عبد الله الدحيان بالقدُّومي في المدينة المُنوَّرة.

شیخ عبد اللہ الدحیان نے اپنا تعلیمی سفر قرآن کریم کی حفظ سے شروع کیا، پھر شیخ محمد بن عبد اللہ الفارس سے فقہ اور عربی زبان کی بنیادی تعلیم حاصل کی۔ زبیر (عراق) میں، جو فقہائے حنابلہ کا مرکز تھا، 1310ھ/1892ء میں تعلیم کے لیے گئے۔ وہاں انھوں نے شیخ صالح بن حمد المبيض، شیخ عبد اللہ بن عبد الرحمن الحمود اور شیخ محمد بن عبد اللہ آل عوجان جیسے اساتذہ سے علومِ شرعیہ کی تعلیم حاصل کی۔

زبیر سے کویت واپس آ کر دو سال قیام کیا، پھر مزید تعلیم کے لیے دوبارہ زبیر گئے۔ ایک سال بعد واپس آ کر شرعی علوم میں مطالعہ اور تدریس میں مصروف ہو گئے۔

قصیم کا سفر

ترمیم

1324ھ/1905ء میں، شیخ عبد اللہ الدحیان نے علماِ کویت کے ایک گروہ کے ساتھ حج کا سفر کیا۔ اس موقع پر انھوں نے کئی علما سے ملاقات کی اور ان سے علمی استفادہ کیا۔

راستے میں وہ قصیم کے شہروں سے گذرے، جہاں خاص طور پر بُرَیدَہ اور عُنَیزَہ میں فقہائے حنابلہ کی کتابوں اور علمی مراکز سے فائدہ اٹھایا۔ بعد ازاں، وہ مدینہ منورہ روانہ ہو گئے۔

مدینہ، مکہ اور دیگر اسفار

ترمیم

شیخ عبد اللہ الدحیان قصیم سے مدینہ منورہ پہنچے، جہاں انھوں نے فقہ حنبلی کے علما سے استفادہ کیا، خصوصاً مفتی حنابلہ شام، علامہ عبد اللہ بن صوفان القدّومی سے علم حاصل کیا۔ وہ کئی بار ان سے ملاقات کے لیے مدینہ جاتے رہے۔ بعد ازاں، وہ مکہ مکرمہ پہنچے، جہاں حج ادا کیا اور جزیرۂ عرب کے نامور علما سے ملاقات کی۔ انھیں قرآن اور فقہ میں اجازتیں ملیں اور علمی مراسلات کا سلسلہ شروع ہوا۔

اس کے بعد وہ ہند، مسقط اور پھر کویت واپس آ گئے، جہاں انھوں نے تعلیم و تدریس میں مستقل طور پر قیام کیا۔ انھوں نے اپنے اسفار کو ایک منظوم قصیدے میں بیان کیا، جس کا مخطوطہ وزارتِ اوقاف کویت کے پاس محفوظ ہے۔

کویت میں استقرار اور علمی خدمات

ترمیم
 
الشيخ أحمد الجابر الصباح عاشر أُمراء الكويت، عيَّن أحمد الجابر عبد الله الدحيان قاضيًا على الكويت سنة 1348هـ/1930م.

شیخ عبد اللہ الدحیان کویت میں مسجد ناصر بن یوسف البدر کے امام، خطیب اور مدرس مقرر ہوئے۔ ان کی خطابت کی شہرت دور دور تک پھیل گئی اور لوگ ان کی تقاریر سننے کے لیے دور سے آتے۔ وہ صرف حج کے سفر تک محدود نہیں رہے بلکہ نجد اور شام کے فقہائے حنابلہ سے علمی مراسلات بھی جاری رکھے۔ انھیں مورخ نجد ابن عیسی نے دو مرتبہ فقہ حنبلی میں اجازت دی (1326ھ اور 1332ھ) اور علامہ ابن بدران (شام) سے بھی علمی تبادلہ جاری رہا، اگرچہ وہ کبھی نہ ملے۔

انھوں نے حنبلی فقہا کی کتابوں کو جمع کرنے کا خاص اہتمام کیا اور ان کی ذاتی لائبریری میں 400-500 نایاب مخطوطات موجود تھے، جو کویت کی سب سے بڑی نجی مخطوطہ لائبریری شمار ہوتی ہے۔[3] 1348ھ/1930ء میں، شیخ احمد الجابر الصباح نے انھیں کویت کا قاضی مقرر کیا، جہاں انھوں نے عدل و انصاف کے ساتھ خدمات انجام دیں۔

قاضی کے منصب کی ذمہ داری

ترمیم

کویت میں عداسنہ خاندان کے افراد طویل عرصے تک قاضی رہے، لیکن 1348ھ/1930ء میں شیخ عبد اللہ بن خالد العدسانی کے انتقال کے بعد یہ منصب خالی ہو گیا۔ شیخ عبد اللہ الدحیان اپنی دیانت، علم اور تقویٰ کے باعث اندرون اور بیرونِ کویت معروف تھے، اس لیے شیخ احمد الجابر الصباح اور دیگر عمائدین نے انھیں قاضی بنانے کی تجویز دی۔ ابتدا میں انھوں نے انکار کر دیا، لیکن متبادل نہ ہونے کے باعث انھیں زبردستی یہ منصب قبول کرنا پڑا۔ انھوں نے عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کیے اور کسی کی ملامت یا دباؤ کی پروا کیے بغیر حق کے مطابق احکام جاری کیے۔ وہ صلح کو ترجیح دیتے، لیکن اگر فریقین نہ مانتے تو شرعی فیصلے سنا دیتے۔[4] ان کے شاگرد عبد اللہ النوری نے ان کے عدل کی تعریف کی اور شیخ احمد الجابر الصباح بھی ان کے فیصلوں سے مکمل مطمئن رہے۔[5]

وفات

ترمیم

شیخ عبد اللہ الدحیان 25 رمضان 1349ھ / 14 فروری 1931ء کو نمازِ فجر کے بعد ذات الجنب کے مرض میں مبتلا ہوئے، جس کے باعث وہ کمزور ہو گئے اور 28 رمضان 1349ھ / 17 فروری 1931ء کو 57 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ ان کی بیماری کے دوران عوام کو ان کی صحت پر شدید تشویش تھی اور ان کی وفات پر پورا کویتی عوام غمزدہ تھا۔ عبد اللہ النُّوری کے مطابق، "کویت کے عوام نے کسی فرد کی وفات پر ایسا غم نہیں منایا جیسا کہ شیخ عبد اللہ الدحیان کے انتقال پر منایا۔" ان کی نماز جنازہ میں شیخ احمد الجابر الصباح سمیت بڑی تعداد میں عوام، شیوخ اور نوجوان شریک ہوئے۔[6]

بیرونی روابط

ترمیم
  1. العجمي (1994)، ص. 25.
  2. سانچہ:استشهاد بکتاب
  3. عبد الله بن خلف الدحيان (2011)، الخطب المنبريَّة العصريَّة، تحقيق: محمد بن ناصر العجمي (ط. 3)، بيروت: دار البشائر الإسلامية
  4. سانچہ:استشهاد بکتاب
  5. عبد الله بن خلف الدحيان (2010)، سؤالات علَّامة الكُوَيْت، تحقيق: الطاهر بن الأزهر خذيري (ط. 2)، الكويت:
  6. عبد الله النُّوري (4 جُمادى الأولى 1390 هـ / 7 يوليو 1970). "عالم الكويت و علمها: الشيخ عبد الله ابن خلف ابن دحيَّان". مجلة المجتمع ع. 17: 14–15.
  • ضاري المطيري (24 يوليو 2012)۔ "الشيخ عبد الله بن خلف الدَّحيَّان"۔ جريدة الأنباء۔ 2024-06-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 يونيو 2024 {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |تاريخ الوصول= و|تاريخ= (معاونت)
  • نور الدين قلالة (1 سبتمبر 2020)۔ "العلَّامة الفاضل عبد الله الدَّحيَّان.."۔ إسلام أون لاين (بزبان عربی)۔ 25 ديسمبر 2023 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 يونيو 2024 {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |تاريخ الوصول=، |تاريخ=، و|تاريخ أرشيف= (معاونت)